فاٹا کے مسائل اور بھی ہیں


\"\"فاٹا اور پاٹا کے لوگوں کے بارے میں جب بھی بات ہوئی ہمیشہ یہی سننے کو ملا کہ کافی جنگجو قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے میڈیا میں بھی اُن لوگوں کی بہت زیادہ نمائندگی دیکھنے کو نہیں ملتی اسی لئے جو سُنا اُسے بہت حد تک سچ مان لیا۔ مگر زندگی میں کبھی کبھی ایسا موقع آ جاتا ہے جو آپ کی سوچ کو 180 کے زاویئے پر گُھما دے۔ یہی موقع مجھے ینگ لیڈرز فورم کے سائے میں ہونے والی فاٹا ینگ لیڈرز کانفرنس میں ملا جس کی تمام تر انتظامی ذمہ داریاں ایمپل کنسلٹنٹس نے سنبھال رکھی تھیں۔

تین روزہ کانفرنس کا آغاز 26 دسمبر کو گرینڈ ایمبیسڈر ہوٹل اسلام آباد میں ہوا۔ شروع شروع میں ایک عجیب سے خوف نے گھیر رکھا تھا کہ زیادہ تر لوگ قبائلی علاقوں سے ہیں معلوم نہیں کب صنفی تفریق سے متعلق کسی ناخوشگوار واقعہ سے نبرد آزما ہونا پڑ جائے۔ مگر حقیقت تو یہ ہے کہ اُن نوجوانوں کو جتنا جانا اُتنی اُن کے لئے دل میں محبت بڑھتی گئی۔ اتنا پرجوش استقبال اور اس قدر خلوص ملا کہ بلاشبہ اُن قبائل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں نے مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ تین دن اُن لوگوں کے ساتھ گزار کر مجھے احساس ہوا کہ قبائلی علاقوں کے نوجوان صلاحیتوں کے خزانے سے لبریز ہیں بس کمی ہے تو ایسی جگہوں کی جہاں وہ اپنا لوہا منوا سکیں۔

\"\"اُن لوگوں سے جب سیاست پر گفتگو ہوئی تو معلوم ہوا کہ گو ایف سی آر گو کا نعرہ وہاں کے متعدد نوجوانوں کے مطابق سیاسی نعرہ تو ہے ہی مگر ایف سی آر کے علاوہ بھی اور بہت سے مسائل ہیں۔ وہاں بے شمار ایسے علاقے ہیں جہاں کئی ماہ سے انٹرنیٹ کی سہولت موجود نہیں ہے جس کی وجہ سے آن لائن تعلیم حاصل کرنے والے نوجوانوں کا مستقبل تاریک ہوتا جا رہا ہے۔ فاٹا کا مسئلہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی شق 246 اور 247 بھی ہیں جو بہت حد تک اُن کی سیاسی پسماندگی کی وجہ ہیں۔جہاں ایف سی آر 40 کی وجہ سے ایک شخص کی غلطی کی سزا پورے گاؤں کو ملتی ہے وہیں پاکستان پینل کوڈ کی کچھ شقیں بھی اس کی توثیق کرتی ہیں مگر افسوس کہ اُن پر کوئی بات نہیں کرتا۔

\"\"

ان علاقوں میں پولیٹیکل ایجنٹ گاڈ فادر کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ سیاسی نمائندگان کی نمایاں تعداد وار لارڈ یا سمگلنگ کے بادشاہ ہیں۔ مذہبی رہبروں کو طالبان، کشمیر اور افغانستان کے نام پر اتنا پیسہ مل رہا ہے کہ ان کی نسلیں عیش کریں۔ ایسے میں بھلا کسی کو کیا پرواہ کہ وہاں کے لوگوں کی محرومیاں کیا ہیں اور کیسے اُن کے اپنے نمائندگان ہی دولت اور طاقت کی ہوس میں اُن کے حقوق پامال کر رہے ہیں۔

قبائلی علاقوں سے تعلق رکھنے والے یہ نوجوان اس ملک کی ترقی میں اہم کردار ادا کرنا چاہتے ہیں مگر اس سب کے لئے انہیں ریاست کی اور آئینی حقوق کی ضرورت ہے۔خدارا ہوش کے ناخن لیں۔جو نوجوان قلم کی طاقت پر یقین رکھتے ہیں ان کے لئے آواز بلند کریں۔ اگر ہم لوگوں نے ان کا ساتھ نہیں دیا تو قلم سے بندوق تک کے سفر میں قصوروار ہم بھی ہوں گے۔

اُن لوگوں سے بات کریں تب ہی آپ جان پائیں گے کہ فاٹا کے مسائل اور بھی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments