کورونا وائرس: مسلح سکیورٹی اہلکار اور مکمل لاک ڈاؤن، کیا پنجاب میں کورونا کی تیسری لہر رُک پائے گی؟

عمر دراز ننگیانہ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور


فوج

پاکستانی فوج کی تین گاڑیاں پولیس اور رینجرز کے اس قافلے میں شامل تھیں جو سائرن بجاتا صوبائی دارالحکومت لاہور کے علاقے اچھرہ سے گزر رہا تھی۔ اس قافلے کی رفتار زیادہ تیز نہیں تھی۔

گاڑیوں کے عقبی حصوں میں سوار سکیورٹی اہلکاروں نے ماسک بھی پہن رکھے تھے اور بندوقیں بھی اٹھا رکھیں تھیں۔

فوج کی ہر گاڑی پر جہاں مشین گن نصب تھی اس کے برابر میں ایک بینر آویزاں تھا جس پر یہ عبارت درج تھی کہ ’کورونا وبا کے خلاف جنگ میں ہمارا ساتھ دیں۔ خود بچیں اور ملک کو بھی بچائیں۔‘

ساتھ ہی سڑک کے کنارے ایک موٹر سائیکل پر سوار دو نوجوان جا رہے تھے۔ دونوں نے ماسک نہیں پہن رکھے تھے۔ جب سائرن بجاتی اتنی زیادہ گاڑیاں پاس سے گزرتی دیکھیں تو ایک نے دوسرے سے پوچھا کہ یہ کیا ہو رہا تھا۔ انھیں جواب ملا کہ ’کوئی وزیر وغیرہ جا رہا ہو گا۔‘

یہ بھی پڑھیے

کیا پاکستان کورونا ویکسین کی خریداری کا معاہدہ کرنے میں تاخیر کا مرتکب ہو رہا ہے؟

کورونا وائرس: پاکستان میں آکسیجن سیلنڈرز کتنے اور کیوں مہنگے ہوئے؟

کووڈ 19: کیا پاکستان انڈیا سے کورونا ویکسین لے گا؟

کیا پاکستان میں کورونا وائرس کے اعداد و شمار قابل بھروسہ ہیں؟

تاہم جوں ہی قافلے کے ہمراہ سفر کرتی ہماری گاڑی پر ان کی نظر پڑی تو تجسس مٹانے کے لیے انھوں نے پوچھ ہی لیا۔ میں نے کھلی کھڑکی سے انھیں بتایا کہ کورونا سے بچاؤ کے حکومتی احکامات پر عملدرآمد کروانے کے لیے پولیس اور فوج ‘فلیگ مارچ’ کر رہے ہیں۔

جب ان سے پوچھا کہ انھوں نے ماسک کیوں نہیں پہن رکھے تھے تو دونوں نے جواب دیا کہ ‘ماسک تو گھر رہ گئے تھے۔’ یہ کہہ کر انھوں نے غالباً اس خوف سے رفتار آہستہ کر لی کہ پولیس والوں کی نظر ان پر نہ پڑ جائے۔

لاہور میں پولیس نے حال ہی فلیگ مارچ یعنی ‘طاقت کے مظاہرے’ کا سلسلہ اس وقت شروع کیا تھا جب حکومت نے کورونا کے حوالے سے حفاظتی احکامات پر عملدرآمد کراونے کے لیے ملک کے 16 شہروں میں فوج کی مدد لینے کا فیصلہ کیا تھا۔

فلیگ مارچ

روزانہ ایک مختلف روٹ کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ بازاروں اور دکانوں کو چھ بجے تک کاروبار بند کرنے کے احکامات ہیں اس لیے چھ بجے سے لگ بھگ دو گھنٹے قبل مارچ شروع ہوتا ہے جو افطار تک جاری رہتا ہے۔

مارچ کے دوران قافلہ چند مقامات پر رکتا ہے اور مقررہ وقت کے بعد کھلی دکانوں کو بند کروایا جاتا ہے۔ لوگوں کو ماسک پہننے کی ہدایات دی جاتی ہیں اور سائرن بجاتی گاڑیاں آگے کو نکل جاتی ہیں۔ تاہم سوال یہ ہے کہ یہ طریقہ کتنا مؤثر ہو سکتا ہے؟

لاہور جیسے بڑے شہر میں اس طرح کتنے فیصد لوگوں سے کورونا ہدایات پر عملدرآمد کروایا جانا ممکن ہے؟

آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا دوسرا بڑا شہر کورونا کی تیسری لہر کے دوران سب سے زیادہ متاثر ہو رہا ہے جہاں گذشتہ کئی روز سے روزانہ سامنے آنے والے کورونا کے نئے مریضوں کی تعداد ایک ہزار سے زیادہ ہے۔

گذشتہ ہفتے کے اختتام تک لاہور کے ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے لیے مختص انتہائی نگہداشت کے شعبے میں وینٹیلیٹرز والے بستروں پر پہنچنے والے مریضوں کی تعداد بھی لگ بھگ گنجائش کے 70 فیصد سے زیادہ ہو چکی تھی۔

ادھر گوجرانوالہ کے مرکزی ضلعی ہسپتال میں چند روز قبل ہی وینٹیلیٹرز والے تمام بستر زیرِ استعمال آ چکے تھے اور ہسپتال میں تشویسناک حالت میں آنے والے مریضوں کے لیے گنجائش ختم ہو چکی تھی۔

کورونا

‘510 میں سے 183 لوگ مر چکے تھے’

ڈی ایچ کیو گوجرانوالہ کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر فضل الرحمان نے اس صورتحال سے ایک روز قبل بی بی سی کو کورونا وارڈ کے اندر کے مناظر دکھائے تھے۔ اس وقت کورونا کے مریضوں کے لیے مختص صرف وہ بستر خالی تھے جو حال ہی میں نئے خریدے گئے تھے۔

محض دو روز میں وہ بستر بھی بھر چکے تھے۔ ڈاکٹر فضل الرحمان جب ایک وارڈ کے حصے میں داخل ہوئے تو ویڈیو پر دیکھا جا سکتا ہے کہ اس وارڈ میں تمام بستروں پر مریض موجود ہیں جنھیں آکسیجن لگی ہوئی ہے اور ان میں سے چند ایک کی کراہنے کی آوازیں بھی سنی جا سکتی ہیں۔

ڈاکٹر فضل الرحمان کے مطابق حالیہ لہر کے دوران ایسے مریضوں کی شرح زیادہ ہے جو انتہائی علیل ہیں اور انھیں زندہ رکھنے کے لیے مسلسل آکسیجن کی ضرورت ہے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘بد قسمتی سے تیسری لہر کے آغاز سے اب تک ان کے پاس 510 کورونا کے مریض آئے ہیں جن میں سے 183 کی موت ہو گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ زیادہ مریضوں کی حالت انتہائی خراب ہے۔’

پولیس

کیا اس ہسپتال کی صورتحال خطرے کی گھنٹی تھی؟

ہسپتال نے حال ہی میں ایک خط کے ذریعے پنجاب حکومت کو آگاہ کیا کہ انھیں وینٹیلیٹرز، آکسیجن لگانے کے آلات، ادویات اور طبی عملے کی شدید کمی کا سامنا ہے جسے پورا کرنے کے لیے انھیں فنڈز درکار ہیں۔

حکومت کی طرف سے انھیں یہ سامان مہیا کیا گیا تاہم نئے آنے والے مریضوں کی تعداد اس قدر زیادہ ہے کہ وہ نئے بستر اور وینٹیلیٹرز زیادہ دن خالی نہیں رہ پائے۔

پنجاب کے محکمہ صحت کے مطابق متبادل انتظام کے طور پر لاہور سے گوجرانوالہ ایمبولینسز بھجوا دی گئیں جن کے ذریعے انتہائی علیل مریضوں کو لاہور کے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا جبکہ گوجرانوالہ کے ہسپتال کو پانچ مزید وینٹیلیٹرز بھجوائے جا رہے ہیں۔

گوجرانوالہ کے اس ہسپتال کی مثال سے جو منظر نامہ بن رہا ہے وہ انتہائی تشویشناک ہے۔ اگر صوبے میں مزید ہسپتال بھی اس نہج پر پہنچ جاتے ہیں تو صحت کا نظام مفلوج ہونے کا خطرہ ہے۔

ویکسین

حکومت نے کیا متبادل بندوبست کر رکھا ہے؟

صوبہ پنجاب کی وزیرِ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کے مطابق محکمہ صحت نے اس اندیشے کو دیکھتے ہوئے ایسی کسی صورتحال سے نمٹنے کا بندوبست کر رکھا ہے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ ‘صوبے میں کورونا کے لیے مختص موجودہ ہسپتالوں کے علاوہ دیگر کئی ہسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کو سنبھالنے کی گنجائش موجود ہے جبکہ موجودہ ہسپتالوں کی گنجائش کو بھی بڑھایا جا رہا ہے۔’

ان کا کہنا تھا کہ ضرورت پڑنے پر ٹیچنگ ہسپتالوں کے علاوہ نچلی سطح کے ہسپتالوں میں انتظامات کیے جا سکتے ہیں جہاں ان کے پاس وینٹیلیٹرز بھی موجود ہیں۔

تاہم سوال یہ ہے کہ نئے مریضوں کی بڑھتی ہوئی حالیہ شرح کو دیکھتے ہوئے کس حد تک یہ گنجائش بڑھائی جا سکتی ہے؟ اگر مریض اسی طرح بڑھتے رہے تو صحت کا نظام کتنے عرصے تک اس دباؤ کو برداشت کر سکتا ہے؟

فوج

کورونا کے اتنے مریض کہاں سے آئے؟

گذشتہ چند دنوں میں کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھ کیوں رہی تھی اور اس میں کمی کیوں نہیں واقع ہو رہی تھی، اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لیے ہفتے میں پانچ روز شام چھ بجے تک لاہور کے بازاروں کا رخ کر لینا ہی کافی ہے۔

سنیچر اور اتوار کے علاوہ حکومت نے پانچ روز چھ بجے تک کورونا کی ہدایات پر عمل کرتے ہوئے کاروبار کرنے کی اجازت دے رکھی ہے۔ بی بی سی نے حال ہی لاہور کے چند بڑے کاروباری مراکز کا رخ کیا۔

اچھرہ کے بازار میں منظر کچھ ایسا تھا کہ اگر گلی کی ایک نکڑ پر کھڑے ہوں تو تاحدِ نگاہ سر ہی سر نظر آتے ہیں۔ لوگوں کے ہجوم میں زیادہ تر چہروں پر ماسک نظر نہیں آتے۔ عید سے قبل کے ان دنوں میں ان اوقات کار میں خریداری عروج پر نظر آ رہی ہے۔

طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ ہسپتالوں پر کورونا کے مریضوں کے بوجھ کا بڑا حصہ انہی بازاروں سے آ رہا ہے۔ ان ماہرین کے ایک گروپ نے صوبائی حکومت کو یہ تجویز بھی دی کہ کورونا کی حالیہ لہر کو توڑنے کے لیے مکمل لاک ڈاؤن ضروری ہے۔

کورونا

‘حالات بگڑ بھی جائیں تو ہمارا صحت کا نظام مفلوج نہیں ہو گا’

پنجاب حکومت نے آٹھ مئی سے 16 مئی تک صوبے بھر میں مکمل لاک ڈاؤن کا نفاذ کر دیا ہے۔

اصولی طور پر حکومت مکمل لاک ڈاؤن کے تصور کے حق میں نظر نہیں آ رہی۔ صوبائی وزیرَ صحت ڈاکٹر یاسمین راشد کی رائے میں ‘مکمل لاک ڈاؤن سے معاشی طور پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد متاثر ہو سکتی تھی جن میں زیادہ تر دیہاڑی دار طبقے کے افراد شامل ہیں۔’

ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ اگر حالات اس قدر خراب بھی ہوتے ہیں کہ ہسپتالوں میں بستر بھر بھی جائیں تو صوبے میں صحت کا نظام مفلوج نہیں ہو گا۔’

حکومت امید کر رہی تھی کہ فوج کی موجودگی میں عوام ماسک لگانے اور سماجی فاصلہ رکھنے کے ساتھ ساتھ کورونا کی دیگر ہدایات پر عمل کریں گے اور اس طرح وائرس کے مزید پھیلاؤ پر قابو پایا جا سکتا ہے۔

عملاً ایسا کس حد تک ممکن ہو رہا ہے؟

کمشنر لاہور کی ہدایات پر تشکیل دیے گئے ایک خصوصی سکواڈ نے گذشتہ کئی روز سے ان افراد کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی ہیں جو شام چھ بجے کے بعد کاروبار بند کرنے کی پابندی کی خلاف ورزی کرتے نظر آتے ہیں۔

بی بی سی نے حال ہی میں ایک روز اس مہم پر کمشنر سکواڈ کے ساتھ سفر کیا۔ ہم سبزی منڈی سے اس سے منسلک لاری اڈے کی جانب گئے۔ میٹروپولیٹن کارپوریشن کے اہلکاروں کی گاڑیاں ایک ریستوران کے سامنے رکیں۔ ریستوران کے باہر نصب نصف کے قریب چولہوں پر کڑاہیوں کے نیچے آگ جل رہی تھی۔

کمشنر سکواڈ کے اہلکار تاہم دوڑتے ہوئے سیڑھیوں سے اوپری منزل پر پہنچے۔ یہاں ایک کشادہ حال تھا جس میں زیادہ تر لائٹس بند تھیں لیکن ایک کونے میں ایک بڑی میز پر ایک فیملی کے لوگ کھانا کھا رہے تھے۔ یاد رہے کہ حکومت نے ریستورانوں کے اندر اور باہر کھانے پر پابندی عائد کر رکھی تھی۔

اس ریستوران کو سیل کر دیا گیا۔ اس کے بعد سکواڈ نے بند روڈ کا رخ کیا۔ راستے میں کئی ایسے چھوٹے ریستوران نظر آئے جو یا تو کھلے تھے یا کریک ڈاؤن کی خبر پا کر عجلت میں بند کر رہے تھے۔

پولیس

‘انہی گنجان آباد علاقوں کے لوگ سنجیدہ نہیں’

سکواڈ ایک دکان کے سامنے رکا۔ بظاہر وہاں اندھیرا تھا اور دکان بند تھی۔ سکواڈ کے چند اہلکاروں نے اس چبوترے پر چڑھ کر دکان کے شٹر کو اوپر اٹھا دیا۔ یہ کریانے کی دکان تھی اور اندر چار کے لگ بھگ لوگ لوگ بیٹھے تھے۔ یہ لوگ چھپ کر کاروبار جاری رکھے ہوئے تھے۔

اس کے قریبی علاقے میں اس طرح کی مزید کئی دکانیں سامنے آئیں۔ کچھ کو سیل کر دیا گیا تو کچھ نے عجلت میں خود ہی بند کر دیں۔ کمشنر سکواڈ کے ایک اہلکار نے بتایا کہ ‘زیادہ تر لاہور کے انہی گنجان آباد علاقوں کے لوگ کورونا احکامات پر سنجیدگی سے عمل کرتے نہیں دکھائی دے رہے۔’

مزید آگے بڑھنے پر ایک بچوں کا انڈور ایمیوزمنٹ پارک کاروبار کرتا ملا تو ایک سنوکر کلب اوپری روشنیاں بجھائے تہہ خانے میں کام جاری رکھے ہوئے تھا۔ اس وقت اس میں پچاس کے لگ بھگ لوگ موجود تھے۔

یہ تمام کارروائی محض دو گھنٹے میں ہوئی تھی۔ کمشنر سکواڈ کا آپریشن سحری تک جاری رہنا تھا۔ اس تمام کارروائی کے دوران لاہور کے ان گنجان آباد علاقوں میں سڑکوں پر بھی لوگوں کی ایک بڑی تعداد اور ٹریفک کی بھیڑ نظر آئی جن میں پچاس فیصد سے زائد نے ماسک نہیں پہن رکھے تھے۔

کورونا

‘ہمارا مقصد لوگوں کو پیغام دینا ہے’

پولیس اور انتظامیہ نے اس کے بعد کے چند دنوں میں کئی بازاروں اور کاروباروں کے خلاف کریک ڈاؤن کرتے ہوئے کئی کو بند بھی کیا۔ تاہم کورونا کی ایس او پیز یعنی ہدایات پر عملدرآمد کرنے والوں کی تعداد میں خاطر خواہ اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا۔

پولیس اور انتظامیہ کے مطابق ان کی طرف سے کیے جانے والے فلیگ مارچ اور کریک ڈاؤن کا مقصد ‘لوگوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ حکومت کورونا سے بچاؤ کے احکامات پر عملدرآمد کرنے حوالے سے سنجیدہ تھی اور اس کے لیے سختی بھی کی جائے گی۔’

تاہم یہ پیغام کتنی دور تک اور کتنی افادیت کے ساتھ پہنچ رہا تھا اس کو ناپنے کے لیے اندازہ تو لگایا جا سکتا تھا لیکن کوئی پیمانہ موجود نہیں تھا۔

محکمہ صحت کے حکام کو امید ہے کے عید سے قبل اور عید کے دنوں میں نافذ کیے جانے والے آٹھ روز کے مکمل لاک ڈاؤن سے کورونا کی حالیہ لہر کو توڑنے میں مدد ملے گی۔ تاہم یہ خدشہ اپنی جگہ موجود ہے کہ کہیں مکمل لاک ڈاؤن کا یہ فیصلہ بھی تاخیر سے تو نہیں کیا گیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32510 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp