کرم ایجنسی کے قبائل اور ریاستی بے حسی! (شفیق طوری)۔



(شفیق طوری)۔\"\"
کرم ایجنسی جغرافیائی اور سٹرٹیجک لحاظ سے دیگر قبائلی ایجنسیوں سے مختلف ہے۔ اپر کرم جو شیعہ اکثریتی آبادی پر مشتمل ہے تین سو سال سے یہاں آباد ہیں۔ اس علاقے کا دفاع افغانستان کے حکمرانوں کے وقت بھی ان کے ہاتھ میں تھا اور جب سو سال پہلے اینگلوافغان جنگوں میں افغانستان شکست کھا گیا تو انگریز نے بھی کرم ایجنسی کا دفاع کرم ایجنسی کے قبائل کے حوالے کردیا۔ انگریز کے فیصلے کے دو اہم پہلو تھے۔ ایک یہ کہ انگریز نے افغانستان کو شکست طوری قبیلے کی مدد سے دی تھی اور دوسری یہ کہ طوری قبیلہ اپنا دفاع کسی دوسرے کے حوالے کرنے پر تیار نہیں تھے۔ اب کرم ایجنسی کا طوری بنگش قبیلہ اپنا دفاع اپنے ہاتھ میں کیوں رکھتا ہے اس کی بھی دو اہم وجوہات ہیں جس میں سب سے پہلی وجہ ان کی قبائلی شناخت ہے۔ جنوبی اور شمالی وزیرستان کے قبائل ہوں یا خیبر و مہمند قبائل، قومی اسلحہ کسی بھی ایجنسی میں مکمل طور پر حکومتی تحویل میں نہیں دیا گیا ہے اور دوسرا ان کا مسلک ہے۔ چونکہ کرم ایجنسی کے گرد و نواح میں تقریباً اڑھائی ملین آبادی کے سنی قبائل آباد ہیں اور درمیان میں آدھی ملین آبادی شیعہ مسلک سے تعلق رکھتی ہے، تو اس لحاظ سے طوری بنگش شیعہ قبائل اپنے دفاع کیلئے ہر وقت مستعد رہتے ہیں۔ کرم ایجنسی میں جتنی طوری قبیلے کی تاریخ قدیم ہے اتنی شیعہ سنی قبائل اور مسالک کی لڑائی بھی قدیم ہے۔ حالیہ تاریخ میں 1929-1928 سے خون ریز لڑائیوں کا سلسلہ شروع کر دو ہزار گیارہ تک چلتا ہے جس میں دونوں طرف سے ہزاروں لوگ لقمہ اجل بنے اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں۔2007-2011 ءکی فیصلہ کن جنگ کے بعد اب حالات مکمل تبدیل ہو چکے ہیں اور اکیسویں صدی میں داخل ہو کر اب دونوں فریق مزید ان فرقہ ورانہ لڑائیوں سے تنگ آ گئے ہیں۔ محنت مزدوری کا آدھے سے زیادہ پیسہ ان کے اسلحے پر خرچ ہو رہا ہے۔
مذہبی اور مسلکی لڑائیوں کے علاوہ قبائلی جھگڑے ہیں جو صحراو¿ں، پہاڑوں اور پانیوں پر پیش آتے ہیں اور بعض لڑائیاں صدیوں سے چلتی آرہی ہیں۔ مثلاً شبک اور بالش خیل کے ہزاروں ایکڑ اراضی پر قبضے ہوئے ہیں اور نستی کوٹ کے پہاڑیوں پر ناجائز قبضہ ہے۔ پیواڑ میں پہاڑوں اور پانی پر تصرف کا جنگ عرصہ دراز سے لڑا جا رہا ہے تو روڈ اور راستوں کے مسئلے اور مسائل قابل ذکر ہیں۔
کرم ایجنسی کی شیعہ آبادی کو پانچ سال محصور رکھا گیا جب کرم ایجنسی کو پشاور اور پاکستان سے ملانے والی واحد شاہراہ کو 2007 سے 2011 تک شیعہ آبادی کیلئے طالبان نے بند رکھا ۔ لاکھوں کی آبادی غذائی اجناس اور ادویات کی قلت سے متاثر ہوئی، ہزاروں بچے متاثر ہوئے، ہسپتالوں میں تڑپ تڑپ کر جانیں دیں اور سکول جانے سے محروم رہے۔ تب کسی جماعت اسلامی یا دفاع پاکستان نے کوئی احتجاجی ریکی نکالی اور نہ ہی کوئی قانون نافذ کرنے والے ادارے حرکت میں آئے بلکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی سرپرستی میں کانوائے لٹتے رہے۔ اور صدہ شہر اور گردو نواح میں طوری بنگش قبیلے کے بیسیوں لوگوں کو اغوا کیا جاتا رہا، اغواشدگان کو اذیتیں دے کر قتل کیا جاتا رہا اور ان کے اعضا کاٹ کر جنازے پاراچنار بھیجے جاتے رہے۔ یہ وہ واقعات ہیں جو میرے سامنے ہوئے اور جسے میں کبھی بھلا نہیں سکتا۔ ان سارے دل دہلا دینے والے واقعات کی ویڈیو ز موجود ہیں جس پر ایک اعلیٰ سطحی انکوائری کی ضرورت ہے۔ ریاست پانچ سال تک ایک قبیلے کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام کیوں رہی؟ ریاست کے سامنے ان کے بچوں کا قتل عام کیوں ہوتا رہا؟ ریاست ماں کے جیسی ہوتی ہے! ایک ماں کے سامنے اس کے بچوں کے سر قلم ہوتے رہے اور ان کے اعضا کاٹ کاٹ کر گھروں کو بھیجتے رہے۔ آپ یقین کریں ان علاقوں میں آج تک آپریشن ہواہے اور نہ ہی اسلحہ جمع کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
کرم ایجنسی میں شرح خواندگی اسلام آباد کے برابر ہے۔ پاراچنار جیسے چھوٹے شہر میں تقریباً پچاس پبلک سکول و کالجز ہیں جنہوں نے گزشتہ دس سال میں تقریباً پانچ سو ڈاکٹر، پروفیسر اور دو سو کے قریب فوجی آفیسرز پیدا کئے ہیں جو ملک کے طول و عرض میں خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ اسی طرح صدہ قصبے میں بھی بہت اعلیٰ سکول قائم ہیں جو بہترین طلبا اور پروفیشنلز سامنے لا رہے ہیں۔ اب یہ الگ بات ہے کہ ریاست ان پروفیشنلز کو تحفظ دینے میں ناکام رہی ہے اور سید رضی شاہ جیسے قابل قدر ماہر تعلیم ہوں یا یوسف حسین جیسے واپڈا کے اہلکار، سید عسکر علی شاہ جیسے بزرگ ملک ہوں یا ڈاکٹر سید ریاض حسین جیسے سماجی و سیاسی لیڈر سرعام قتل ہوتے رہے اور حکومت انہیں تحفظ دینے میں ناکام رہی۔ حکومت دہشت گرد تنظیموں کے سامنے بے بس نظر آرہی ہے لیکن پرامن قبائلیوں سے اسلحہ جمع کرنے کا تقاضا کیا جاتا ہے۔
کرم ایجنسی کے طوری بنگش قبائل کے مسائل حل کیے بغیر ان کو غیر مسلح کرنا دیگرمخصوص قبائل کے ساتھ ہمدردی تصور کی جائے گی کیونکہ وہ طاقت کے زور پر مزید علاقوں پر قابض ہو جائیں گے جس سے حکومت کیلئے مسائل پیدا ہوں گے۔
حکومت ایجنسی کے طوری، بنگش قبائل کو غیر مسلح کرنے سے پہلے قبائلیوں کا گرینڈ جرگہ بلا کر انہیں سنیں اور ان کو اعتماد میں لیں۔ کرم ایجنسی کے طوری بنگش قبائل پاکستان کے خلاف ہیں اور نہ ہی کبھی حکومت یا پاک فوج پر بندوقیں تان کر بغاوت کی ہے، دوسری طرف یہاں طالبان اور داعش جیسی ملک دشمن اور انسانیت دشمن دہشت گرد تنظیمیں موجود ہیں جو آرمی پبلک سکول اور جی ایچ کیو پر حملے جیسے سنگین حملوں میں ملوث رہے ہیں اور خودکش دھماکوں اور بازاروں و مسجدوں میں اندھادھند فائرنگ کے واقعات میں ملوث ہیں۔ پاراچنار میں ایسی کوئی تنظیم نہیں جس کے ہاتھ اسی ہزار بے گناہ پاکستانیوں کے خون سے ہاتھ رنگے ہوں۔ پاکستان حکومت دہشت گردوں اور خودکش بمباروں کی تحقیقاتی رپورٹس سامنے لائے تو اس میں پاراچنار کے شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والا ایک بھی دہشت گرد نہیں ہوگا۔
جہاں داعش اور طالبان کی موجودگی ہے وہاں حکومت نے آپریشن کا فیصلہ بھی نہیں کیا ہے مثلاً صدہ، بوشہرہ، تری منگل، غوزگڑی اور چند اور علاقے جہاں شدت پسند کالعدم تنظیموں کا نیٹ ورک موجود ہے اور وہاں پاک آرمی کی کوئی چیک پوسٹیں ہیں اور نہ ہی وہاں ان کو جانے کی اجازت ہے۔ لیکن سب سے پہلا تقاضا پیواڑ، بوڑکی اور خرلاچی جیسے سرحدی گاو¿ں جا کر قبائلیوں سے اسلحہ جمع کرنے کا ہے۔ ان گاو¿ں کے لوگ ہمیشہ حالت جنگ میں ہوتے ہیں اور ہتھیار کے بغیر ایک گھنٹہ بھی وہاں رہنا محال ہے۔ کیونکہ اسلحہ ایک توازن پیدا کرتا ہے۔ اگر یہ توازن بگڑ جائے تو ایک قبیلہ دوسرے پر حملہ آور ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے کرم ایجنسی میں پہاڑ، صحرا اور پانی کے جھگڑے بھی دیکھتے ہی دیکھتے مذہبی لڑائیوں میں تبدیل ہو کر پوری وادی کرم کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں۔
قومی اسلحہ تحویل میں لینے کا مناسب حل
جس طرح ہر ملک کو اپنے دفاع کا حق ہے اسی طرح ہر شخص اور ہر قبیلے کو بھی اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ حکومت مندرجہ بالا حالات اور واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے طوری قوم کے سیاسی، سماجی اور علاقائی تحفظ کی ذمہ داری اٹھاتے ہوئے پہلے ٹھوس اقدامات کریں اور تین صدیوں سے وادی کرم میں مقیم ان حساس قبائل کو تحفظ کا احساس دلائے تاکہ اس قبیلے کو موجود ہ خطرات سے بچانے کا کوئی تو سامان ہو۔ اگر طوری قبیلے کو غیر مسلح کیا گیا تو دوسرے ہی دن القاعدہ، طالبان اور دیگر دشمن قوتیں حملہ آور ہوجائیں گی۔ کیونکہ تری منگل، شلوزان تنگی، غوزگڑی اور بوشہرہ طالبان اور داعش کا گڑھ بن چکا ہے اور یہ سارے علاقے بوشھرہ کے علاوہ پہاڑی علاقے ہیں جہاں حکومت پاکستان کی رٹ نہیں لیکن پیواڑ، بوڑکی، خرلاچی، نستی کوٹ سمیت پاراچنار شہر ان کے راکٹ لانچرز اور توپ خانے کی زد پرہیں۔ حکومت پاکستان اور پاک فوج نے طوری قبیلے کو کبھی بھی تحفظ فراہم نہیں کیا ۔ پچھلے مہینے افغانستان کی طرف سے پاک فوج کی چیک پوسٹ پر حملہ ہوا تھا تو کرم ملیشیا کے جوانوں نے بھاگنے میں عافیت جانی لیکن طوری قبیلے کے جوانوں نے جا کر افغان فورسز سے زبردست جنگ کی اور پوسٹ واگزار کرائی کیونکہ اس پوسٹ کے بعد پیواڑ گاو¿ں آتا ہے اور یہ لوگ ہمیشہ پہاڑوں کے چوٹیوں پر الرٹ رہتے ہیں اور اندرونی و بیرونی دشمن پر نظر رکھتے ہیں۔ انگریز نے طوری قوم کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے نہ صرف کرم ملیشیا کھڑا کردیا تھا بلکہ قبائل میں مفت اسلحہ بھی تقسیم کیا تھا۔ 1986 میں ضیاالحق نے کرم ملیشیا کو پورے پاکستان میں تقسیم کرکے طوری بنگش قبائل کو طویل جنگوں میں جھونک دیا اور اب طوری قوم سے اسلحہ اکٹھاکرکے دہشت گردوں کے رحم و کرم پر چھوڑنا چاہتے ہیں؟
آئین اسلامیہ جمہوریہ پاکستان نے قبائلی علاقوں کو مکمل تحفظ دیا ہے اور کسی بھی آپریشن سے پہلے قبائلی عمائدین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔ اس آئینی شک پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا ہے؟ بعض ادارے آئین سے ماورا اقدامات کرکے آئین پاکستان اور پاکستان کی بنیادی اکائیوں کو کمزور کرنے کی سازشی تھیوری کو مزید تقویت پہنچانے پر کیوں تلے ہوئے ہیں؟ قائداعظم محمد علی جناح نے پاراچنار آکر قبائلی عوام کو پاکستان میں شامل ہونے کی دعوت دی تو ان قبائل نے قائداعظم کی درخواست پر لبیک کہتے ہوئے پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تھا اور تحریک پاکستان، تحریک آزادی کشمیر سمیت 1965 اور 1971 کی جنگوں میں ان قبائل کا کردار ڈھکا چھپا نہیں۔ یہ محب وطن پاکستانی اسلام آباد اور لاہور و کراچی کے پاکستانیوں سے کسی بھی حوالے سے کم نہیں۔
ان قبائلیوں کو مین سٹریم میں کیوں نہیں لایا جا رہا۔ تین ملین پشتونوں کو ایک مولانا فضل رحمن نے اغوا کرکے ایف سی آر کے پنجرے میں دوبارہ بند کرنے کی کوشش کی۔
بہت ساری تجاویز میں سے ایک یہ بھی ہے کہ کرم ملیشیا میں متناسب بھرتی کی جائے اور طوری، بنگش، منگل، مقبل و دیگر قبائل کو آبادی کے لحاظ سے بھرتی کرکے انہی قبائل کے تحفظ پر مامور کیا جائے۔ یہ ملیشیا صرف کرم ایجنسی میں امن کی فضا برقرار رکھنے کیلئے استعمال ہو۔ پیواڑ، بوڑکی، نستی کوٹ، شلوزان سمیت سرحدی علاقوں کی نگرانی کرم ملیشیا کے اسی ونگ کے حوالے کرکے طوری، بنگش قبائل کے تحفظ کو یقینی بنائے۔ اس ملیشیا کو پہلے کی طرح کسی دوسری طرف تبدیل نہ کیا جائے تاکہ ان قبائل کو احساسِ تحفظ ہو۔
طوری قبائل کے ساتھ جو بھی اسلحہ ہے اس کی تعداد اور مقدار کی لسٹیں حکومت کو فراہم کی گئی ہیں۔ جس جگہ پر اسلحہ رکھا گیا ہے اور جن افراد کے پاس اسلحہ رکھا گیا ہے وہ معلومات بھی حکومت کو فراہم کی گئی ہیں۔ یہ سارا صرف اس لئے کیا گیا ہے کہ کہ ان مخصوص قبائل کا اسلحہ صرف دفاعی نوعیت کا ہے اور یہ قبائل حکومت پاکستان یا دوسرے قبائل پر کبھی بھی حملہ آور نہیں ہوئے۔ ان مخصوص قبائل کو درپیش مشکلات کو حل کئے بغیر، ان کی تجویز سنے بغیر، ان کو تحفظ اور احساس تحفظ دیئے بغیر اسلحہ تحویل میں لینا حکومت کی غیر دانش مندی ہے۔ قبائلی اور مذہبی جنگوں کی ایک طویل تاریخ سے آگاہ ہوتے ہوئے ایک مخصوص قبیلے، قوم اور مسلک سے تعلق رکھنے والوں سے اسلحہ جمع کرنا غیر دانش مندی سے زیادہ بدنیتی پر مبنی نظر آتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب طالبان اور داعش ان قبائل کے سروں پر کھڑے ہیں۔ ساری صورتحال کے باوجود اسلحہ جمع کرنے کا تقاضا سمجھ سے بالا تر ہے۔ حکومت اور قانون نافذ کرنے والے ادارے ہوش کے ناخن لیں اور قبائلیوں کے ساتھ بیٹھ کر لائحہ عمل ترتیب دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments