قلعہ روات، مانکیالہ کی توپ اور ساگری مندر


یہ جانتے ہوئے بھی کہ کرونا وائرس اپنے زوروں پر ہے اور ایسے میں باہر گھومنا مہلک ثابت ہو سکتا ہے۔ اسلام آباد سے تقریباً ڈیڑھ گھنٹے میں سیدھا روات کے بے ہنگم بس سٹاپ پر اترا۔ اب اسے بیوقوفی کہا جائے یا پاگل پن یہ معلوم نہیں؟ ایک لمبے عرصے بعد اندر کا آوارہ گرد جاگا تو سوچے سمجھے بغیر نکل پڑا۔

بس سٹاپ پر تھوڑے انتظار کے بعد مبشر جو کولیگ بھی ہیں اور دوست بھی ساگری گاؤں سے روات پہنچ گئے۔

سب سے پہلے قلعہ روات دیکھنے کا پلان تھا سو وہیں پہنچے۔ باہر گیٹ پر لگے بورڈ پر مرقوم عبارت کے مطابق یہ قلعہ درحقیقت ایک قدیم کاروان سرائے تھی جو کہ جرنیلی سڑک کے ساتھ مسافروں کی سہولت اور سرکاری اہلکاروں کے ٹھہرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔ اس کی فن تعمیر سے اندازہ لگایا جاتا ہے کہ یہ قلعہ نما سرائے دسویں سے پندرہویں صدی کے درمیان میں تعمیر ہوئی۔ بعد میں گکھڑ قبیلے کے قبضہ میں رہی۔ موجود حالت کافی ابتر ہے۔ قلعے کی تعمیر نو کا کام جاری ہے۔ ایک حصہ میں مسجد واقع ہے۔ قلعے میں داخلے کے دو دروازے ہیں۔ درمیان میں کچھ پرانی قبریں اور اطراف میں حجرے نما کمرے بنے ہوئے ہیں جہاں مسافر یا سرکاری اہلکار ٹھہرتے تھے۔

Rawat Fort

قلعہ دیکھنے کے بعد اگلی منزل مانکیالہ اسٹیشن اور مانکیالہ اسٹوپا تھی۔ یہاں میں اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ یہ یاترا کرنے کے لئے مجھے حسن معراج کی کتاب ریل کی سیٹی نے اکسایا بھی اور متاثر بھی کیا۔ انھی کی کتاب ریل کی سیٹی سے ایک اقتباس۔

”اگلا اسٹیشن مانکیالہ کا ہے۔ لکڑی کا پھاٹک اور اس پر لگا تختہ، خلاف ورزی کرنے والوں کو پولیس کے حوالے کر دے گا۔ (ویسے اب پھاٹک کا نام و نشان مٹ چکا ہے ) سارے میں ایک بوسیدگی کا عالم ہے۔ ایک صدی بوڑھا یہ ریلوے اسٹیشن، پاک سر زمین کی طرح اچھے دنوں کا منتظر ہے۔ سامنے ایک معصوم ٹائم ٹیبل ہے جس پر اپ اینڈ ڈاؤن کے خانے تو بنے ہیں۔ لیکن ٹرین نہ ہونے کی وجہ سے صاف لگتا ہے جیسے یہاں کسی نے کچھ لکھا ہی نہیں۔ مسافر خانہ مسمار ہو چکا ہے۔ کوئی وقت تھا کہ پنڈی جانے والے طالبعلم، اراضی کی خرید و فروخت والے زمیندار، فصل کے آڑھتی اور، سرکاری بابو مانکیالہ سے پنڈی کا سفر ٹرین سے کرتے تھے مگر اب چونکہ ٹرین صرف پارکوں اور فلموں میں دکھائی دیتی ہے، لہذا وہ بات بھی فسانہ ہوئی۔

مانکیالہ

مانکیالہ کی اصل وجہ شہرت ایک اسٹوپا ہے۔ جس کی نسبت سے اسے مانکیالہ توپ بھی کہا جاتا ہے۔ اسٹوپے کے خاکستری وجود کو سبزے کی مہین چادر نے ڈھانپ رکھا ہے۔ مقامی لوک کہانیوں کے مطابق تو راجہ رسالو نے ایک آدم خور جن کو اس بہت بڑے پیالے میں الٹا قید کر رکھا ہے مگر حقیقت میں کنشک دور کی یہ بدھ عبادت گاہ، اٹھارہ سو سال پرانی ہے۔ بدھ استو کے مخصوص کنول، بنیاد کی دیواروں پہ منقش ہیں۔ اوپر جانے کے لئے سیڑھیاں بنی ہیں۔ اسٹوپا کے اوپر پہنچیں تو درمیان میں ایک بہت بڑا کنواں ہے جو درحقیقت نیچے اترنے کا زینہ ہے۔

الفنسٹن ( جن کے نام سے کراچی کی مشہور الفنسٹن سٹریٹ موجودہ زیب النساء سٹریٹ موسوم تھی) نے کابل جاتے ہوئے راستے میں یہ اسٹوپا دیکھا تو اس کی بابت اپنی کتاب میں تفصیل سے لکھا۔ رنجیت سنگھ کی مشہور سپاہ فوج خاص کے جنرل ونچورا کو کھدائی کے دوران یہاں سے زون دیوتا کی انگوٹھیاں، کشن دور کے سکے اور اموی دور کی اشرفیاں نکلیں۔ 1891 میں گورا فوج کی پلٹن نے، اس اسٹوپے کو مقامی ماہر تعمیرات کے ساتھ مل کر عین مین اسی طرح بحال کیا۔ ”

ہمارا آخری سٹاپ ساگری گاؤں کے مندر تھے جن کے متعلق نا تو انٹرنیٹ سے کوئی معلومات مل سکی اور نا ہی وہاں کوئی معلوماتی بورڈ لگا ہوا تھا۔ مگر ان کی طرز تعمیر سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ مندر تقسیم سے پہلے کے ہیں۔ بہرحال ان کی کہانی جو بھی ہو ساگری کے ان مندروں میں کبھی کرشن بھگوان کی مورتیاں رکھی اور گھنٹیاں بجائی جاتیں ہوں گی۔ جہاں ہندو ناریاں کیسری ساڑھیاں پہنے، پوجا کی تھالی لیے، حنا لگے ہاتھوں سے بھگوان کو پھول اور ناریل چڑھاتی ہوں گی۔ وہاں اب کوڑے کے ڈھیر، گندگی اور انسانی فضلے کے سوا کچھ نہیں ملتا۔ مندروں سے ملحقہ ایک کنواں بھی وہاں موجود ہے۔ قیاس کیا جاتا ہے کے تقسیم کے بعد مورتیوں کو مندر سے نکال کر اسی کنویں میں پھینک دیا گیا۔ اور آہنی جالی لگا کر کنویں کو بند کر دیا گیا۔

اب مورتیاں جنہیں ذی روح سمجھ کر نذریں چڑھائی جاتی تھیں کنویں کی تہہ میں ابدی نیند سوتی ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments