شہباز شریف   کو  پکڑیں یا کابل میں امن قائم کروائیں


حکومت کی سب سے بڑی پریشانی یہ ہے کہ کس طرح مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو  بیرون ملک  جانے سے روکا جائے جبکہ آرمی چیف   جنرل قمر جاوید باجوہ کو اس بات کے لالے پڑے ہیں کہ کسی طرح افغان طالبان کو  امریکہ کے ساتھ امن معاہدہ قائم رکھنے اور خون ریزی میں اضافہ سے باز رکھا جائے۔

امریکہ نے مئی کی بجائے  گیارہ ستمبر تک افغانستان سے امریکی اور حلیف فوجوں کے انخلاکا پروگرام دیا ہے۔ اس پر عمل درآمد  بھی شروع ہوچکا ہے۔ امریکی صدر جو بائیڈن کا کہنا ہے کہ بیس برس  پر طویل  جنگ اب ختم ہونی چاہئے۔   امریکہ نے افغانستان میں اپنے اہداف حاصل کرلئے ہیں۔ القاعدہ کا خاتمہ ہوچکا ہے ، اسامہ بن لادن مارا جاچکا ہے اور امریکہ کو اس علاقے سے دہشت گردی کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ سب باتیں  جنگ سے تنگ آئے ہوئے امریکی عوام کی تشفی کے لئے ہیں۔ درحقیقت امریکی فوج  افغانستان پر حملے    کا کوئی مقصد بھی حاصل نہیں کرسکی۔ اب اس ادھورے کام کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے پاکستانی فوج پر دباؤ ڈالا جارہا ہے۔

یہ ایک سنگین قومی مسئلہ ہے۔ افغانستان میں بدامنی یا وہاں انتہا پسند گروہوں کے طاقت پکڑنے سے امریکہ اور اس کے یورپی حلیف ملکوں کو تو شاید کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پاکستان اس سےبراہ راست متاثر ہوگا۔  تحریک طالبان پاکستان کے عناصر آج بھی افغان سرزمین پر پاؤں جمائے ہوئے ہیں۔  وہ اس انتظار میں ہیں کہ  غیر ملکی  افواج وہاں سے روانہ ہوں اور افغان طالبان کو طاقت اور رسوخ حاصل ہو تو وہ بھی پاکستان میں اپنے  مقاصد  حاصل کرنے کے لئے مزید سرگرم ہوں۔ پاکستانی طالبان عناصر وقتاً فوقتاً دہشت گرد حملوں کے ذریعے اپنی موجودگی اور طاقت کا احساس دلاتے رہتے ہیں ۔  پاکستان نے کبھی  افغانستان سے امریکی افواج کے فوری انخلا کی حمایت نہیں کی۔  صدر ٹرمپ نے اپنی عجلت میں طالبان کے ساتھ مئی تک افواج نکالنے کا معاہدہ کیااور نئے صدر بائیڈن کسی حد تک اس پر عمل درآمد یقینی بنانے پر مجبور ہیں۔

امریکی افواج کے انخلا کے لئے معاہدے میں مقرر تاریخ میں صرف تین ماہ کی توسیع کی گئی ہے لیکن اس کے باوجود افغان طالبان نے اس کے خلاف سخت رد عمل ظاہر کیا ہے۔ انہوں نے عبوری حکومت  کے قیام کے لئے کسی  بھی قسم کے مکالمہ میں شامل ہونے سے انکار کردیاہے۔ اسی حوالے سے استنبول میں ہونے والی کانفرنس ملتوی کی گئی ہے کیوں کہ  افغان طالبان نے اس میں شرکت سے انکار کررہے ہیں۔ اب دوحہ میں امریکی اور دیگر ملکوں کے وفود اور پاکستان میں  فوج کی قیادت کسی طرح طالبان کو معاہدہ پر قائم رہنے اور  افغانستان میں انتقال اقتدار کے کسی قابل قبول طریقے پر رضامند  کرنے  کے لئے کوشاں ہیں۔ البتہ طالبان نے ابھی تک ہر مشورے کو درگزر کرکے افغانستان میں تشدد کے اضافے کے ذریعے  موجودہ صورت حال سے ناپسندیدگی کااظہار کیا ہے۔

افغانستان  کے  تبدیل ہوتے ہوئے حالات میں پاکستان کی ذمہ داری اور اسٹیک  بہت زیادہ ہیں۔ ماضی کی طرح اس بار افغانستان میں ’گاڈ فادر‘ کھیلنے کے لئے  امریکہ یا  سعودی عرب اپنے خزانوں کے منہ بھی کھولنے کے لئے تیار نہیں ہیں  بلکہ توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان  نے سال ہا سال  تک افغان طالبان کی پرورش کی ہے۔ اب اس کے صلے میں وہ ایک طرف اتحادی افواج کا آسودہ ماحول میں افغانستان سے  انخلا   یقینی بنائے اور دوسری جانب طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ مل کر عبوری حکومت قائم کرنے پر راضی کرے۔ اس بات کا فوری امکان نہیں  ہے کہ   افغان طالبان ایسے کسی معاہدے پر راضی ہوں گے۔ امریکی افواج کا انخلا طالبان کا سب سے بڑا مطالبہ اور خواہش تھی۔ وہ یہ مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوچکے ہیں۔ اب وہ افغانستان پر تن تنہا اپنی حکومت قائم کرنے اور اپنے منشور کے مطابق  ’اسلامی شرعی نظام‘  نافذ کرنے پر بضد ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ جب امریکہ اور اتحادی افواج   مل کر بیس برس کی محنت شاقہ کے باوجود طالبان کو زیر نہیں کرسکے اور افغانستان میں ایسا ماحول پیدا نہیں کیا جاسکا جس میں ایک متوازن جمہوری حکومت قائم ہوسکے جو بنیادی انسانی حقوق ، صنفی مساوات اور انتہاپسندی  کی روک تھام کے لئے کام کرے تو اتحادی افواج کے جانے سے پیدا ہونے والے پاور ویکیوم  میں یہ کام کیسے ہوگا۔ صدر ٹرمپ کے دور میں امریکہ  کو افغان طالبان سے  معاہدہ کی اتنی عجلت تھی کہ  اس پر دستخط کرنےسے پہلے طالبان سے  جنگ بندی کا بنیادی مطالبہ بھی منظور نہیں کروایا جاسکا۔ جمہوریت اور خواتین کے حقوق کا معاملہ تو بہت بعد کی بات ہے۔ امریکی افواج کو واپس بلا کر افغانستان میں جنگ ختم کرنے کا اعلان کرنا جو بائیڈن حکومت کی سیاسی مجبوری ہے۔ لیکن اس کے بعد پیدا ہونے والے حالات سے آنکھ بند کرکے کئے گئے سب فیصلوں کا بوجھ  پاکستان کو اٹھانا پڑے گا۔

توقع کی جارہی ہے کہ پاکستان طالبان کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کی بنیاد پر وہ  ’امریکی ‘ اہداف حاصل کرکے دکھائے  گا جو اول تو امریکہ تمام تر فوجی طاقت اور سرمایے کی قوت کے باوجود حاصل نہیں کرسکا۔ دوئم مستقبل کی حکومت یا بنیادی حقوق کے حوالے سے کوئی ٹھوس  نکتہ  امریکہ طالبان معاہدےمیں شامل نہیں کیاگیا۔    اب اس بے یقینی میں پاکستان سے ناممکن کو ممکن بنانے کی امید  کی جارہی ہے۔ جنرل قمر جاوید باجوہ  ، آئی ایس کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے ساتھ  کبھی برطانوی   افواج کے کمانڈر سے ملتے ہیں، کبھی کابل کا دورہ کرکے صدر اشرف غنی اور  قومی مصالحتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کو اطمینان دلاتے ہیں اور کبھی فون پر امریکی وزیر خارجہ اور وزیر دفاع کو ’ سب ٹھیک ہو گا‘ کی رپورٹ دیتے ہیں۔   سب کو خوف ہے  لیکن کوئی یہ  برملا نہیں کہہ رہا کہ اس سال کے آخر تک افغانستان پر نئی  خانہ جنگی کے بادل منڈلا رہے ہیں۔  اس فساد کا سب سے منفی اور تباہ کن اثر پاکستانی سلامتی، معیشت اور سماجی صورت حال پر مرتب ہوگا۔  پاکستان پہلے ہی مذہبی انتہا پسندی کے منجھدار میں ہے۔ ایسے میں افغانستان جیسے ہمسایہ ملک میں ہونے والی خانہ جنگی اور عسکری گروہوں  کے  تصادم  سے ،  دہشت گردی کے خلاف جیتی ہوئی جنگ کا بھرم بھی ختم ہوسکتا ہے۔

افغان طالبان کو کوئی عجلت نہیں ہے۔ وہ پہلے سے زیادہ طاقت ور ہیں۔  امریکی اور اتحادی افواج کے نکلنے کے بعد وہ افغان  سیکورٹی فورسز کو جزوی طور  پرعسکری طور سے  اور جزوی طور  پر   داخلی انتشار کے ذریعے ان کا شیرازہ بکھیرنے کی امید لگائے بیٹھے ہیں۔   افغان طالبان ملک کے اندر تو طاقت ور تھے ہی لیکن امریکہ کے ساتھ معاہدہ کے بعد ان کی سفارتی طاقت میں بھی اضافہ ہؤا ہے۔ انہیں جائز طور سے افغانستان  کے مستقبل کا  پالن ہار  تسلیم کیا گیا ہے۔ اب وہ پاکستانی فوج کے  کہنے پر اپنے اس کردار سے دست بردار نہیں ہوسکتے۔ یہ سوال اپنی جگہ جواب طلب ہے کہ پاکستان کس حد تک طالبان پر اثر و رسوخ استعمال کرسکتا ہے۔ جب  امریکہ کے ساتھ کامیاب مذاکرات کا کریڈٹ لینے کا موقع آتا ہے تو شاہ محمود قریشی بلند بانگ الفاظ میں اس کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں کہ ’پاکستان   نے ہی طالبان کو بات چیت  پر آمادہ کیا تھا‘۔ ایک موقع پر تو اسے عمران خان کے ویژن کی کامیابی بھی کہا جاتا رہا تھا۔ لیکن جب استنبول کانفرنس میں شرکت جیسی    بعض معمولی باتیں منوانے  کا سوال سامنے آتا ہے تو پاکستان یہ کہنے میں بھی دیر نہیں کرتا کہ  ہمارا طالبان پر زیادہ رسوخ نہیں ہے۔ شاید پاک فوج خود بھی نہیں جانتی کہ وہ مستقبل میں پاکستانی مفادات کا تحفظ کرنے کے لئے کس حد تک طالبان پر بھروسہ کرسکتی ہے۔

اس  بے یقینی کی سب سے بڑی وجہ افغانستان کے  حوالے سے پاکستان کی گزشتہ  کئی دہائیوں پر پھیلی ہوئی حکمت عملی ہے۔  تزویراتی گہرائی سے پر امن   جمہوری افغانستان تک کا سفر کھینچا تانی، امیدوں اور بدعہدیوں کی طویل داستان ہے۔ پاکستان  یا دنیا کو کوئی بھی ماہر یہ یقین سے نہیں کہہ سکتا کہ  اس وقت افغانستان کے  حوالے ریاست پاکستان کے کیااہداف ہیں۔  پاکستان سرکاری طور سے افغانستان میں بین الافغان مذاکرات کے ذریعے عوام کی مرضی کی حکومت قائم کروانا چاہتا ہے۔ لیکن کہیں نہ کہیں  کسی نہ کسی کے ذہن   میں یہ سوال تو آتا ہوگا کہ جو ملک خود اپنے عوام کو آزادانہ فیصلے کرنے اور رائے دینے کا حق دینے پر تیار نہیں ہے وہ جنگ زدہ  ہمسایہ ملک میں جمہوریت کا ضامن کیسے بن سکتا ہے۔

تاہم اس بے یقینی اور سنگین پیچیدہ صورت حال کا سب سے المناک پہلو یہ ہے کہ ایک طرف  افغان امن کے   حوالے سے پاکستان کی بہبود، سلامتی اور مستقبل داؤ پر لگا ہے اور پاک فوج کی قیادت کسی نہ کسی طرح اس مشکل میں سے کوئی امید افزا راستہ تلاش کرنے کی تگ و دو کررہی ہے۔ تو دوسری طرف ملک  میں ایک ایسی حکومت برسر اقتدار ہے جسے ان معاملات  میں  بیان بازی سے بڑھ کر کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ خانہ کعبہ  کے اندر اور مسجد نبوی میں نوافل ادا کرنے کے بعد  عمران خان کی ’بیٹری چارج‘ ہوگئی ہے اور اس چارج شدہ بیٹری والے گرمجوش وزیر اعظم نے آج   وزیروں اور مشیروں کے اجلاس میں شہباز شریف کو بیرون ملک سفر سے روکنے اور ان کے خلاف  حصار سخت کرنے کے مختلف ہتھکنڈوں پر  غور کیا۔ حکومت کی کل کارکردگی، نیک نامی اور  کامیابی کا معیار یہ ہے کہ کون سا وزیر کتنا گلا پھاڑ پر احتساب کا  راگ الاپ سکتا ہے۔ اس وقت یہ  بازی جیتنے  کا مقابلہ فواد چوہدری اور شہزاد اکبر کے درمیان ہورہا ہے۔

حکومت اور فوج ضرور ایک ہی پیج پر ہوں گے لیکن اس ایک صفحہ پر وہ اپنے اپنے خانہ میں محصور  اپنا اپنا مقصد حاصل کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ نہ حکومت کو فوج کی پریشانیوں سے غرض ہے اور نہ فوج  حکومت کے’ جذبہ انتقام ‘ کو سمجھنے پر  تیار ہے۔  مہنگائی، سماجی  انتشار کے علاوہ کورونا وبا میں گھری  پاکستانی قوم نہیں جانتی کہ وہ  کس سے کیا امید باندھے۔   کابل میں  امن اور  لاہور  میں شہباز شریف  کو قید کرنے کی تگ دو میں ایک پیج پر پڑتی دراڑ نمایاں ہورہی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2742 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments