کالا کٹا۔ ایک بھولا بھالا بچہ


جن لوگوں کو دیہات میں جانے کا اتفاق ہوا ہو گا، انہوں نے وہاں چند موٹے موٹے کالے کالے جانور دیکھے ہوں گے۔ ان میں سے کچھ باہر سے بھورے ہوتے ہیں لیکن اندر سے وہ بھی کالے ہی ہوتے ہیں۔ انہیں بھینس کہتے ہیں۔ بھینسوں کے قریب اسی شکل کا لیکن سائز میں بہت چھوٹا سا کالا کالا سا جانور بھی دکھائی دے جاتا ہے جو بہت کریہہ آواز میں بولتا ہے۔ اس کا قد کوئی ڈھائی تین فٹ ہوتا ہے۔ یہ دودھ دینے والی بھینس کا نور نظر، لخت جگر، فرزند رشید ہوتا ہے جسے کٹا کہتے ہیں۔

کٹا ایک نہایت معصوم سا بھولا بھالا بچہ ہوتا ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ کسان دوسرے ڈھور ڈنگروں کو چھوڑ کر اس کی ٹہل سیوا کر رہا ہے تو وہ یہ سمجھتا ہے کہ دراصل ساری دنیا کا محور و مرکز وہ ہے۔ وہ ذرا ڈکرائے تو کسان بھاگا بھاگا آتا ہے کہ اسے کیا تکلیف ہے، کہیں بھوک تو نہیں لگی، کہیں مینڈھے نے ٹکر تو نہیں مار دی، کہیں کسی کیڑے نے تو نہیں کاٹ لیا، غرض پریشانی اس کی شکل سے ہویدا ہوتی ہے۔ کسان کوشش کر کے اسے بھوک اور مینڈھے سے تو بچا لیتا ہے لیکن کیڑے کا علاج اس کے پاس بھی نہیں ہوتا۔

ایک آواز پر ہی کسان کے یوں بھاگے بھاگے آنے پر کٹا یہ سمجھتا ہے کہ وہ اتنا ہی خطرناک جانور ہے جتنا پاس بندھا ہوا کالا کتا۔ وہ یہ دیکھتا ہے کہ ساری گائیں بھینسیں گدھے گھوڑے حتی کہ رات کی تاریکی میں آنے والے گیدڑ اور بھیڑیے بھی کتے سے خوف کھاتے ہیں۔ اس کی للکار سنتے ہی وہ رفو چکر ہو جاتے ہیں۔ کسان بھی اس کی آواز سن کر ہاتھ میں لاٹھی اٹھائے دوڑا دوڑا آ جاتا ہے۔ کبھی کالا کتا کسی جانور کو کاٹ لے تو اس کی ٹانگ سے نکلتا خون بھی کٹے کو دکھائی دیتا ہے۔

ایسے میں جب کوئی کٹا کھل جائے تو کسان بھاگ دوڑ کر کے اسے سنبھالتا ہے اور اس کے منہ پر چھینکا چڑھا دیتا ہے جس سے کٹے کو یہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ کتے سے بھی زیادہ بڑی چیز ہے کیونکہ کسان عام کتے کے منہ پر بھی چھینکا نہیں باندھتے، بلکہ صرف ریچھ سے لڑنے والے خونخوار ترین کتوں کے منہ پر یہ باندھا جاتا ہے۔ کٹا یہ سمجھنے لگتا ہے کہ وہ بھی اتنا زیادہ بہادر اور خونخوار ہے کہ لڑائی ہو تو ریچھ کو کاٹ کھائے۔

دوسری طرف وہ یہ بھی دیکھتا ہے کہ کسان پہلے بھینس کا دودھ دوہتا ہے اور جب وہ خوب تسلی کر لیتا ہے کہ بھینس بہت اچھا دودھ دینے لگی ہے تو پھر ہی وہ بالٹی ہٹا کر کٹے کو دودھ پینے کا موقع دیتا ہے۔ کٹے کو یقین ہو جاتا ہے کہ کسان ہلکی کوالٹی کا دودھ ضائع کر کے اسے سب سے اچھی کوالٹی کے دودھ کی فراہمی یقین بنا رہا ہے۔

جہاں بکرا اور مینڈھا نہایت غصیلے جانور ہوتے ہیں، وہیں گائے کی آنکھ میں بھی ایک خطرناک سا سودائی پن دیکھا جا سکتا ہے جیسے وہ کسی بھی وقت حملہ آور ہو جائے گی۔ فرنگیوں کی گائیں تو اس حد تک خونریزی پر اتر آتی ہیں کہ انہوں نے اس کیفیت کا نام ہی میڈ کاؤ ڈیزیز یعنی پاگل گائے کی بیماری رکھ دیا ہے۔

ان جانوروں کے برخلاف بھینس کی آنکھ میں ایک عجیب سی سرور آمیز مستی ہوتی ہے۔ وہ نشیلی آنکھوں سے دنیا کو دیکھتی ہے، ایک بے نیازی ہوتی ہے اس نگاہ میں۔ جیسے دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہو بھینس کو اس کی پروا نہیں، جو مالک نے اس کے نصیب میں لکھ دیا وہ اس پر صابر و شاکر ہے۔ نہ وہ کسی کو ستاتی ہے اور نہ ہی کسی کے ستانے کی پروا کرتی ہے۔ کوئی اس کی کمر پر ڈنڈا بھی مار دے تو بے نیازی سے پونچھل ہلا کر کسی پرامن جگہ کا رخ کرتی ہے۔ اس کا پسندیدہ مشغلہ کسی ٹھنڈے سے پرفضا جوہڑ میں بیٹھنا اور گہری سوچ میں یوں ڈوب جانا ہوتی ہے جیسے وہ مراقبہ کر رہی ہو۔ صوفیانہ طبیعت کو کسی نے مخلوق میں مجسم دیکھنا ہو تو بھینس کو دیکھ لے۔

کٹا بھی یہ دیکھتا ہے۔ وہ خود کو بھی صوفی مزاج کا حامل سمجھنے لگتا ہے اور ارد گرد موجود مخلوق کو بھی یہ بتاتا ہے کہ درحقیقت صوفیت اس کے خون میں رچی ہے۔ حالانکہ حال یہ ہوتا ہے کہ کٹا معمولی بات پر مشتعل ہو کر دوڑا پھرتا ہے، باں باں کر کے غل مچاتا ہے، کبھی ایک دیوار کو ٹکر مارتا ہے کبھی دوسری کو۔ عجیب بچپنا طاری ہوتا ہے اس پر تا آنکہ کسان آ کر اس کے منہ پر چھینکا باندھ کر اسے خاموش نہ کر دے اور کھونٹے سے نہ باندھ دے۔

کٹا اسے بھی اپنے پروٹوکول کا حصہ سمجھتا ہے۔ بھولے بھالے سے کٹے کا ننھا سا دماغ یہ سمجھنے سے قاصر ہوتا ہے کہ کسان کے نزدیک اس کی اہمیت نہیں ہے۔ اہمیت تو بھینس کی ہے جو دودھ دیتی ہے اور اسی کی وجہ سے کٹے کو پروٹوکول ملتا ہے جسے وہ اپنی ذاتی خوبیوں کا ثمر سمجھنے لگتا ہے۔ جب بھینس دودھ دینا بند کر دے تو کٹے کی اہمیت بھی ختم ہو جاتی ہے۔ وہ سست الوجود جانور نہ تو بیل کی طرح ہل چلا سکتا ہے نہ کسی اور کام آتا ہے۔ کسان اس سے جان چھڑا لیتا ہے۔ اس وقت کٹے پر یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ نہ اس میں کوئی خوبی ہے اور نہ اس کی اپنی کوئی اہمیت، وہ کسان کے کسی کام کا نہیں۔ وہ حسرت و یاس کی تصویر بنا سوچتا رہتا ہے کہ باقی لوگ اتنے کامیاب کیوں ہوتے ہیں اور وہ اتنا ناکام کیوں ہے کہ جس کام میں بھی لگایا جائے ادھر وہ ناکارہ ثابت ہوتا ہے۔ یوں وہ کٹے فروخت کرنے والے کسی بیوپاری کے ہاتھ سے ہوتا ہوا کسی قصاب کے پاس پہنچ جاتا ہے اور یوں اس کا دل ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا ہے۔

عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments