امریکہ کی افغانستان سے واپسی: چند مفروضے، چند مغالطے


جنرل پرویز مشرف کی فوجی حکومت کے خاتمے کے بعد منعقد ہونے والے 2008 کے انتخابات کے نتیجے میں ملک میں رائج ہونے والا جمہوری سیاسی نظام کیا معاشرے میں مضبوط اور توانا جڑیں پکڑ پایا ہے یا وہ ابھی تک غیر مستحکم ہے۔ کیا ہمارے ملک کا موجودہ جمہوری نظام ایک بار پھر خطرے کی زد میں ہے کہ ہمارے خطے میں تبدیل ہوتے ہوئے عالمی حالات اور اس کے پاکستان کی داخلی سیاست پر مرتب ہوتے ہوئے اثرات سے کیا پاکستان میں ایک بار پھر فوجی آمریت کے امکانات پیدا ہو سکتے ہیں؟ اس طرح کے سوالات بے محل نہیں بلکہ امریکی صدر کے افغانستان سے متعلق اعلانات نے ہمارے خطے کی صورت حال اور ملک میں نوزائیدہ جمہوریت کے حوالے سے نئے امکانات پر سوچ و بچار کے در وا کر دیے ہیں۔

امریکہ میں اسی سال قائم ہونے والی نئی حکومت کے سربراہ، صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے امریکی افواج کے انخلاء کی تاریخ کا اعلان کر دیا ہے جس کے مطابق سال رواں کے ستمبر میں یعنی 11 ستمبر 2021 تک امریکہ، افغانستان سے اپنی افواج کو واپس بلا لے گا۔ اطلاعات کے مطابق اس واضح اعلان کے بعد امریکہ کی مدد سے عالمی دہشت گردی کے خلاف برسر پیکار نیٹو ممالک سے تعلق رکھنے والے کئی ملکوں کی افواج کی واپسی کا عمل شروع بھی ہو چکا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی ممالک کی افواج کا افغانستان کے پر امن تصفیے کے بغیر وہاں سے واپسی کا کئی پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے کہ اس عمل کے سب سے زیادہ اثرات خود افغانستان پھر پاکستان سمیت اس خطے اور آخر میں ساری دنیا پر کیا مرتب ہو سکتے ہیں۔

افغانستان میں طالبان اور افغان سیکیورٹی فورسز کے مابین جاری خانہ جنگی ہنوز جاری ہے۔ اطلاعات کے مطابق کسی روز کسی صوبے میں طالبان کے قبضے کی خبر آتی ہے تو کسی روز افغان سیکیورٹی فورسز کی جانب سے دعویٰ کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اسی صوبے سے قبضہ چھڑوا لیا اور اس کارروائی میں درجنوں دہشت گردوں کو ہلاک کر دیا گیا۔ خیر پر امن افغانستان کے لیے افغان حکومت اور طالبان کے درمیان ہونے والے مذاکرات کے حوالے سے امریکہ کے افغان مفاہمت کے مشیر زلمے خلیل زاد کافی پر اعتماد دکھائی دیتے ہیں۔ ویسے طالبان کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ آج کا افغانستان ماضی کے افغانستان سے بہت مختلف ہے۔ جہاں سے دنیا کے کئی ممالک کے معاشی مفادات وابستہ ہونے کے علاوہ خود افغانستان کا بھی سیکیورٹی کا ایک فعال، متحرک اور منظم ادارہ موجود ہے اور سب سے بڑھ کر افغان عوام بالخصوص نوجوان نسل اب خانہ جنگی کا خاتمہ اور اپنی ترقی کے خواہشمند ہیں چنانچہ اب طالبان کو افغانستان کی مقامی آبادی کی ماضی کی طرح حمایت حاصل نہیں ہو گی۔

ان تمام معروضات کے باوجود پھر بھی منطقی طور پر امکان یہی ہے کہ امریکہ، افغانستان سے واپسی سے قبل اس امر کی یقین دہانی چاہے گا کہ اس کی واپسی کے بعد طالبان، افغانستان میں اس کے بنائے گئے سیاسی بندوبست میں کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کریں اور نہ ہی مستقبل میں اس پورے خطے میں تجارت کے ضمن میں امریکہ اور بھارت سمیت دنیا کے کئی ممالک کی سرمایہ کاری میں رکاوٹ بنیں۔ بھارت جس نے افغانستان اور سینٹرل ایشیاء کی منڈی تک اپنی مصنوعات کی رسائی کے لیے جنگ کے نتیجے میں تباہ حال افغانستان کی جدید انفراسٹرکچر کی تعمیر میں اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ ایران میں جدید بندرگاہ کی تعمیر میں بھی اربوں ڈالرز کی سرمایہ کاری کی ہے تاکہ وہ اپنی تجارت کو فروغ دے سکے اور معاشی ترقی کے عمل کو مزید تیز کر سکے۔ ایسے میں تصفیہ طلب معاملات کا پائیدار سیاسی حل تلاش کیے بغیر ہی امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا اس طرح سے افغانستان سے چلے جانا بھارت کے لیے بھی ناقابل قبول ہوگا۔ بھارت پرامن افغانستان کی بدولت ہی اپنی تجارت اور معاشی ترقی میں بے پناہ فائدے حاصل کر سکتا ہے۔ ایسے میں بھارت کیونکر یہ چاہے گا کہ امریکہ، افغانستان سے تصفیہ طلب معاملات کو حل کیے بغیر درمیان میں ہی چھوڑ کر چلا جائے۔

اس کا ایک پہلو خود امریکہ کے لیے بھی بہت اہم اور توجہ طلب ہے کہ اگر امریکہ، افغانستان میں پائیدار و مستقل امن دیے بغیر طالبان اور افغان حکومت کے مابین تصفیہ طلب معاملات کو حل نہیں کرتا اور اسی حالت میں وہاں سے نکل جاتا ہے تو اس کے خوفناک نتائج خود امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے لیے یہ بھی نکل سکتے ہیں کہ ان کی نظر میں مذہبی انتہا پسند عناصر جو ماضی میں دنیا بھر سے افغانستان میں جمع ہوئے تھے اگر وہ ایک بار پھر منظم ہو کر عالمی امن، امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی قومی سلامتی اور ان کے مفادات کو نقصان پہنچاتے ہیں تو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو افغانستان کی اس طویل جنگ سے کیا حاصل ہوا۔ لہذا امکانی طور پر امریکہ، افغانستان سے تصفیہ طلب معاملات کو حل کیے بغیر اس طرح درمیان میں چھوڑ کر ہرگز واپس نہیں جائے گا۔

اب افغانستان میں قیام امن کے ضمن میں پاکستان کی اہمیت ایک مرتبہ پھر بہت بڑھ جاتی ہے کیونکہ امریکہ کو پر امن افغانستان کی ضمانت اس خطے میں صرف پاکستان ہی دے سکتا ہے کیونکہ پاکستان ہی وہ واحد ملک ہے جس کے افغانستان اور طالبان دونوں ہی سے کچھ نہ کچھ تعلقات ہیں۔ پھر امریکہ کو یہ یقین دہانی بھی صرف پاکستان ہی کروا سکتا ہے کہ وہ امریکہ کے نقطۂ نظر کے مطابق افغانستان کو مذہبی انتہا پسندوں کے منظم ہونے سے محفوظ رکھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ پاکستان کے افغانستان سے ایسے تعلقات رہے ہیں اور طالبان پر اتنے اثرات ضرور موجود ہیں کہ وہ طالبان کو افغان حکومت کے ساتھ بامقصد مذاکرات کرنے کے لیے آمادہ کر سکتا ہے۔

ویسے تو آج کی تبدیل شدہ دنیا میں امکان یہی ہے کہ امریکہ پاکستان کے عوام میں مقبول ان کی حقیقی جمہوری حکومت کے ذریعے ہی افغانستان کے مسئلہ کے حل کا خواہاں ہو گا لیکن اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا پاکستان کی موجودہ سیاسی حکومت جو افغانستان کی صورت حال سمیت خارجی طور پر پوری دنیا سے حقیقتاً تنہائی کا شکار ہے وہ امریکہ کو یہ یقین دہانی کروانے اور پھر عالمی طاقتوں سے کیے گئے اپنے وعدوں پر عملدرآمد کی اہلیت رکھتی ہے؟ اگر نہیں تو پھر امریکہ اس انتہائی حساس اور اہم معاملہ میں پاکستان میں کس سے بات کرنا چاہے گا؟ ماضی کی تاریخ کے مطابق اس طرح کے فیصلے کرنے کی اہلیت رکھنے والا پاکستان میں ایک ہی منظم ادارہ فوج کا ہے جو اس طرح کی یقین دہانی کروانے اور اس کو عملی جامہ پہنانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ تو پھر امریکہ یقینی طور پر اس سلسلے میں پاکستانی فوج سے بھرپور تعاون کی یقین دہانی چاہے گا۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر پاکستانی فوج امریکہ کی مدد کیوں کرے گی؟ اگر امریکہ، افغانستان سے اپنی واپسی کے حوالے سے پاکستانی فوج سے مدد چاہے گا تو کیا بدلے میں پاکستانی فوج جو پہلے ہی پاکستان کی ناتجربہ کار، بدتر سیاسی حکومت کی کارکردگی اور معیشت کی زبوں حالی سے پریشان ہے وہ موجودہ حکمرانوں کو چلتا کر کے امریکہ کی حمایت سے ایک بار پھر اقتدار پر قبضہ کی خواہش کا اظہار کر سکتی ہے؟ اور کیا امریکہ کی جانب سے پاکستانی فوج کی پاکستان کے اقتدار پر قبضہ کی خواہش کو تسلیم کیے جانے کا کوئی امکان نظر آتا ہے؟ اگر امکانی طور پر ہم اس مفروضے کو درست تسلیم کر لیں کہ پاکستانی فوج کو امریکہ کی بھرپور حمایت و تائید حاصل ہوجاتی ہے اور پاکستان اپنی افواج کے ذریعے افغانستان میں دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کر کے پر امن افغانستان کی راہ ہموار کر دیتا ہے تو کیا پاکستان ان دہشت گردوں کے ہاتھوں اپنی سلامتی کو ایک بار پھر شدید خطرات میں مبتلا نہیں کر دے گا۔ اس کے نتیجے میں کیا پاکستان کے اندر پھر سے دہشت گردی سر نہیں اٹھائے گی؟ لہذا اس طرح کے فیصلے کرتے وقت ہمیں اپنے معروضی حالات، اپنے قومی مفادات اور قومی سلامتی کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے۔

محض کچھ مالی امداد اور ایک ادارے کی ریاستی بالادستی کی خاطر ہمیں پرائی آگ میں کودنے سے پہلے اس کا ہر پہلو سے خوب جائزہ لے لینا چاہیے۔ مفادات کی اس دنیا میں ہمیں بھی اپنے قومی مفادات کو ہی ترجیح دیتے ہوئے طویل مدتی پالیسی واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

یوں بھی اس صورتحال میں خطے کے دیگر ممالک بالخصوص بھارت کا اس پر کیا ردعمل ہوگا، افغانستان میں بڑھتے ہوئے بھارتی اثر رسوخ کے پیش نظر بھارت، پاکستان کے کسی کردار کو کس طرح دیکھے گا؟ مستقبل قریب میں عالمی طاقتیں افغانستان، پاکستان اور اس پورے خطے کی صورتحال کے ضمن میں اہم فیصلے کریں گی جس کے دور رس اثرات ہماری سیاست اور قومی سلامتی پر مرتب ہوں گے۔ ہمیں کوئی فیصلہ کرنے سے قبل عوام کا اعتماد ضرور حاصل کرنا چاہیے۔ اس کا سب سے معتبر ادارہ پارلیمنٹ موجود ہے لہذا عوام کی اجتماعی دانش پر اعتماد کرتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کا یہ انتہائی اہم فیصلہ پارلیمنٹ کی منظوری سے ہونا چاہیے کیونکہ کوئی بھی فوج اپنے عوام کی تائید کے بغیر کوئی جنگ نہیں جیت سکتی۔

(صاحب تحریر پاکستان مسلم لیگ نواز (کراچی ڈویژن) کے سیکریٹری جنرل ہیں)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments