جبر و استحصال صرف میرا مقدر ہی کیوں؟


\"\"المیہ کہیں ، نادانی ،کم ظرفی، فاتر العقلی یا پھر ہٹ دھرمی لیکن آپ جو بھی کہنا چاہیں کالم کے آغاز سے الفاظ سے مستعار لے کر اپنی سوچ کے مطابق ہی الفاظ کو تشبیہ دے سکتے ہیں۔ سبھی کو معلوم ہے خواتین کی ترقی کے بغیر ہماری ترقی ادھوری ہے۔ ہم اب یہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ خواتین اب گھروں میں ہی بیٹھیں گی اور انہیں باہر نکلنے کی اجازت نہیں۔ اگر اجازت ہے بھی تو وہ مردکی مرضی کے مطابق نکلے گی اور جو بھی کرنا چاہے وہ معاشرے کے طاقتور انسان بقول انہی کے یعنی مرد حضرات سے اجازت لے، اس کے بعد وہ تعین کریں گے اس نے یہ کام کرنا ہے یا نہیں۔ جس ملک کی نصف سے زائد تعداد خواتین پر مشتمل ہو انہیں اگر گھروں میں بٹھا دیا جائے تو پھر باقی کتنے افرا د بچیں گے؟ ان میں سے بچے اور بوڑھے بھی نکالنا پڑیں گے۔ ہمارے پاس اب بچتے ہیں بمشکل 25سے 30فیصد افراد یعنی انہی پر ہی تکیہ اور انہی کے ہی مرہون منت رہنا پڑے گا تاکہ یہ کمائیں ، ہمیں کھلائیں اور خود بھی کھائیں۔ یہ تو صرف کھانے کی حد تک ہو گیا لیکن ایک طبقہ وہ بھی ہے جس نے سارا دن مزدوری کرنی ہے اور اتنے پیسے کما نے ہیں کہ صرف د و وقت کی روٹی پوری کی جا سکے۔ لیکن ! صحت، تعلیم اور پھر اس دنیا کی خوبصورتی اور خاندان کے ساتھ اچھا وقت گزارنے کیلئے کوئی ہلکی پھلکی تقریب، غمی، خوشی ان سب کے اخراجات کو کیسے پورا کریں گے؟ ہمیں اس بات کو مان لینا چاہیے کہ خواتین کو ساتھ ملائے بغیر ہم ترقی کے زینے نہیں چڑھ سکتے۔ جن خواتین نے معاشرے کے ستم سہنے اور تہمتیں برداشت کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم حاصل کی اور پھر محنت شائقہ سے اپنا ایک مقام بنا لیا انہیں تو وہ مرد حضرات جن کی’\’مردانگی‘\’ ان کے باہر جانے پر ’برباد‘ ہوتی تھی، سیلوٹ مارنے پر بھی فخر محسوس کرتے ہیں۔ کہیں ایسا بھی دیکھنے کو ملتا ہے ساتھی دوستوں کے ساتھ بیٹھ کر فخریہ انداز میں ان کی شان میں قصیدہ گوئی کر رہے ہوتے ہیں۔
معاشرتی جبر نے جہاں دنیا بھر میں خواتین کا استحصال کیا وہیں پاکستان میں بھی اس کی مثالیں عام ہیں۔گودیں اجاڑنے والے ہمیں ہر جگہ ملیں گے لیکن جو گودوں کو ہری کرنا جانتے ہیں وہ آپ کو ہر وقت تنقید کی بھینٹ ہی چڑھتے ہوئے نظر آئیں گے۔ خیر معاشرتی ارتقا میں تنقید ضروری ہے لیکن آخرکار سچائی جھوٹ پرسبقت لے جاتی ہے یا پھر فرسودہ رسم و رواج کا کاٹ ڈالتی ہے۔ دنیا میں تین میں سے ایک خواتین زندگی میں ایک با ر ضرور تشدد کا شکار ہوتی ہے خواہ یہ جنسی ،جسمانی یا ذہنی تشدد ہی کیوں نہ ہو۔یہ تعداد سننے میں شاید آپ کو متاثر نہ کرے لیکن اگر تشدد زدہ لڑکی کی آپ بیتی سنی جائے تو ضرور آپ کے رونگٹے کھڑے ہو جائیں گے۔ ان واقعات کے بعد سوائے افسوس یا مذمت کے ہمارے پاس الفاظ نہیں ہوتے ۔ایسے واقعات سن کر ، دیکھ کر یا پھر پڑھ کر ہم مردانہ ذہنیت کے حامل معاشرے ضرو ر کوستے ہیں لیکن پلک جھپکنے کے ساتھ ہی ہماری سوچ بھی یکسر تبدیل ہو جاتی ہے اور شاید ہم وہ کر جاتے ہیں جس پر ہم نے معاشرے کو’کوسا‘ تھا۔
مردانہ معاشرے کا ذکر کرکے شاید کسی کو لگے میں غلطی کر بیٹھا ہوں لیکن اگر ابھی آنے والی سطروں پر ہم غور کریں تو مذکورہ بالا فقرے کو سمجھنے میں آسانی ہوگی۔ایسا کیوں ہے کہ ایک شخص عورت کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد اس سے پیدا شدہ اولاد کو اپنا ماننے کیلئے تیار نہیں لیکن وہ خاتون پھر بھی ماں بننے کے بعد اس کی ماں ہی رہتی ہے۔میں تاریخی جنگوں کی جانب ضرور جاو¿ں گا۔ جنگوں کے اختتا م پر ہاتھ لگنے والی خواتین کی نہ صرف عزت لوٹی جاتی بلکہ انہیں حاملہ بھی کر دیا جاتا۔ مردانگی دکھانے کے بعد مرد کیلئے عورت شاید عورت ہو اور اس سے پیدا ہونے والی اولاد اس کیلئے حرام کی ہو لیکن جس کی کوکھ سے بچے نے جنم لینا ہے وہ اسے کبھی حرام نہیں کہہ پاتی۔ سنگدل معاشرے کے ڈر سے وہ یا تو حمل ضائع کرانے پر مجبور ہوتی یا پھر وہ نو ماہ برداشت کرنے کے بعدپانی میں بہا دیتی، کسی غریب پرور مالدار کے ہاں چھوڑ آتی قحبہ خانوں میں بھی جگہ مل ہی جاتی تھی، نہیں تو آج کے دور میں ایدھی سنٹر تو ہیں ہی ۔ان کے جھولے بھی خالی نظر نہیں آتے کسی نہ کسی رات کوئی نہ کوئی اپنی جھولی خالی کرکے جاتا ہے جسے صبح جھولتے ہوئے جھولے میں سے ایدھی رضا کار اپنی آغو ش میں لیتے ہیں۔ اگر کوئی خاتون معاشرے کا ستم برداشت کر لے اور جبر کی زنجیریں توڑنے میں کامیاب ہو جائے وہ اس پر شفقت بھرا ہاتھ رکھنے کے ساتھ اور اسے تسلی دیتی رہتی ہے کہ تیرا باپ مجھے چھوڑ گیا اب وہ واپس نہیں آئے گا۔میں ہی تیرا سب کچھ ہوں۔ایسا ضروری نہیں کہ صرف مرد کے پاس ہی ساری طاقت ہو جیسے موجودہ معاشرے میں رائج ہے۔ فیصلوں کا زیادہ اختیار مردوں کے پاس ہی کیوں ہے؟ اگر طبقاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو اس کاموازنہ مختلف انداز میں کر سکتے ہیں ۔طبقاتی طور پر ناخواندہ خاندانوں میں تمام تر طاقت مرد کے پاس ہی ہوتی ہے ۔جان بوجھ کرہی خواتین کو کمزور بنایا جاتا ہے تاکہ یہ دب کر رہیں۔ اگر کوئی آگے بڑھنے کی جسارت کرنا چاہے تو وہ مکار، چالاک ، زبان دراز اور نہ جانے کیا کیا۔ بڑی چالاکی اور منصوبہ بندی کے ساتھ یہ بات بھی ہمارے ذہنوں میں ٹھونس دی گئی کہ خواتین ناقص العقل ہوتی ہیں لیکن یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے ناقص العقل کے پاس عقل والے کیا کرنے جاتے ہیں ؟ مجبوری یا پھر کوئی اور وجہ انہی کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھے ہوتے ہیں۔ ایسے وقت میں مردانگی کہاں چلی جاتی ہے ؟ ہمیں یہ بھی تسلیم کرنا ہوگا کہ طاقت کو اگر برابری کی سطح پر تقسیم کیا جائے تو دونوں بہتر انداز سے زندگی گزار سکتے ہیں لیکن جب ’میں‘ والی بات آجائے تو پھر مسائل جنم لیتے ہیں۔
یہ بھی اٹل حقیقت ہے جب مسائل پیدا ہوتے ہیں تو ا ن کے حل کیلئے فلاسفر پیدا ہوتے ہیں۔ اس لئے کہا گیا کہ پہلے فلاسفی نہیں نظام پیدا ہوتا ہے اس کے بعد فلاسفر آتا ہے۔ دنیا سمیت پاکستان میں بھی اور بہت سے مسائل ہیں جن پر سیر حاصل گفتگو کی جا سکتی ہے چنانچہ یہ کالم صرف خاص ’ٹاپک‘ کیلئے لکھا گیا تو میں سمجھتا صر ف اسی مدعے پر ہی بات کی جائے تو بہتر ہے۔جب ہم خواتین کے حقوق کی بات کرتے ہیں تو پھر ایک اور مصیبت آن پڑتی ہے کہ آپ صرف خواتین کی ہی بات کیوں کررہے ہیں معاشرے میں اور بھی تو مسائل ہیں ۔اگر یہاں بات نہ بنے تو پھر یہاں تک کہہ دیاجاتا ہے کہ مردوں کے ساتھ بھی زیادتیاں ہوتی ہیں۔ جناب عرض ہے اگر زیادتیاں ہوتی ہیں تو ہمیں وہ خبروں کی زینت بنتی ہوئی نظر کیوں نہیں آتیں؟ اگر میڈیا سے نفرت ہے یا پھر وہ حق واضح نہیں کرتا تو ہمیں انفرادی سطح پر بھی ایسی مثالیں نظر نہیںآتیں ۔ایک دو ہوں تو انہیں تسلیم کرنے سے میں مبرا ہوں۔جنوری 2012ءمیں شروع ہونے والی’\’ ون بلین رائسنگ کمپین‘ بھی صنف نازک کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کے تدارک کی ایک کڑی ہے۔ ہر سال پوری دنیا میں صرف اس لئے ’کمپین‘ چلائی جاتی ہے کہ خواتین کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کا خاتمہ ہو!۔پوری دنیا کی خواتین اس کا حصہ ہوتی ہیں یہ اپنے حق کیلئے سڑکوں پر آتی ہیں اور حق کیلئے آواز بلند کرتی ہیں۔ 2017ءکی کمپین بھی شروع ہو چکی ہے اس کے حق میں اٹھنے والی آوازوں میں اضافہ ہوتا جارہا ہے لیکن ہم ہیں کہ نا انصافی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ختم ہی نہیں کررہے ۔ہمیں اپنی عادات اور ذہنی سوچ بدلنا ہوگی یا پھر وہ نظریات یا قدامت پسندی جو بچپن سے ہمارے اذہان میں ٹھونسی گئی ہے اسے جڑ سے ہی ختم کرنا ہوگا ۔ایسا نہیں ہو سکتا ہم رہیں تو اکیسویں صدی میں لیکن ہمارے ذہن اور خیالات وہی پرانے ہوں۔
تحریر کے منتج یہی ہے کہ خواتین کو وہ مقام دینا پڑے گا جس کی وہ حقدار ہیں۔تعلیم کے دروازے بند کرنے کی بجائے انہیں تعلیم دینا ہوگی تاکہ وہ بوجھ بننے کی بجائے ہماری زندگی اور معاشرے کا اہم حصہ بنیں تاکہ معاشرے کی ترقی میں وہ بھی اپنا اہم کردار ادا کر سکیں۔بعید نہیں کہ وقت آئے گا جب خواتین بھی کہیں گی جبر و استحصال میرا مقدر اب نہیں!!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments