بچوں کی لڑائی اور وقت کی بے رحم لہر


گزشتہ دنوں میرے ایک دوست مجھ سے ملنے آئے۔ زرعی یونیورسٹی فیصل آباد سے فزکس میں ایم فل کر رہے ہیں۔ مختلف موضوعات پہ بڑی مدلل اور سیر حاصل گفتگو ہوتی رہی۔ میں زیادہ تر وقت ان کو سنتا رہا جیسا کہ وہ عمر اور تعلیم دونوں لحاظ سے میرے سینئر بھی تھے اور بقول انور مسعودصاحب اچھے مقرر کےلیے اچھا سامع ہونا نہایت ضروری ہے۔ خیر ہماری گپ شپ بڑی عمدہ چل رہی تھی کہ سامنے گلی گلی میں دو بچے کھیلتے کھیلتے لڑنے پڑے۔ اب ہم دونوں کی توجہ اچانک وہاں مرکوز ہوئی جس سے گفتگو میں پریشان کن خلل واقع ہوا۔ جس سے میں قدرے پشیمان ہوا کہ کاش ہماری بیٹھک کا دروازہ ہوتا تو لڑتے ہوئے بچے ہمیں نظر آتے نہ خلل واقع ہوتا۔

مگر میں اچانک چونک اٹھا کہ وہ تو بچوں کی لڑائی میں اس طرح مگن تھے جیسے خود برابر کے شریک ہوں۔ چہرہ خوشی اور جوش سے لال اور ایک عجیب سرشاری کے عالم میں ان کو” شابا ! شابا ! ” کہہ کر داد دینے لگے۔ میں واقعی بہت حیران ہوا دریافت کرنے پہ گویا ہوئے۔ ” رحمت بھائی ماہرین عالم کا کہنا ہے کہ دنیا اپنے اختتام کے بہت قریب پہنچ چکی ، خدانخواستہ تیسری عالمی جنگ کا فلسطین سے آغاز ہوچکا، وبا کا لوگوں کے ناک میں دم کیے دو سال سے زیادہ ہو چکے اور تو اور اب تو کراچی کے ساحل پہ بھی طوفانوں کے خطرات منڈلانے لگے”۔ میں ہمہ تن گوش تھا۔

معمولی سے توقف کے بعد بولے ” زندگی کے متعلق اہل علم و دانش نے بہت قیاس آرائیاں کیں جن میں سے اکثر اسی نتیجے پہ پہنچے کہ ” نو نقد تیرہ ادھار ” جیسا کہ ہیلن کیلر کا کہنا ہے کہ ” اے اہل بصارت بصیرت سے کام لو اور اپنے آج کو یاد ماضی کے عذاب میں مبتلا رکھنے یا غیر یقینی مستقبل کے فریب میں ضائع کرنے کی بجائے اپنے آج سے حظ اٹھاو”۔ میں مکمل طور پہ ان کی گفتگو کے حصار میں تھا۔

مزید مثالیں دیتے ہوئے بولے ڈیویس (W. H. Davies) اپنی مشہور زمانہ نظم فرصت (Leisure )میں یہی پیغام دینا چاہتا ہے کہ اگر آپ اپنے سامنے موجود خوبصورتی یا بد صورتی سے متاثر نہیں ہو پاتے تو آپ کی زندگی بے مقصد و بے کار ہے۔ اور ہاں پطرس بخاری کا اس کہنے کہ” آج کے شاعر اور ادیب کو کھڑکی سے باہر جھانکنےاور گلی میں ہونے والے واقعات پہ کھڑی نظر رکھنے کی اشد ضرورت ہے ” سے یہی مراد ہے کہ ہم زندگی کے ہر لمحے کو دل و دماغ کی کھڑکیاں کھولتے ہوئے انجوائے کریں اور ہمہ وقت کچھ نیا سیکھنے، سوچنے اور سمجھنے کےلیے تیار رہیں۔

میں اب بھی پوری طرح ان کی گفتگو میں پوری طرح مگن تھا۔ بات ختم کرتے ہوئے کہنے لگے قرآن حکیم میں بار بار حکم دیا گیا ہے کہ انسان کو چاہیے کہ ہر دن موت کو متعدد بار یاد کرے! اس کا مطلب بھی یہی ہے کہ اپنے آج کو ایسے صرف کرو جیسے کوئی کل نہیں ہونے والا۔ کیوں کہ جو آج کو جیتا ہے، وہی جیتتا بھی ہے اور گناہ سے بھی باز رہتاہے۔ ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے کہنے لگے رحمت میاں زندگی وقت کی بے رحم لہر ہے۔ اور دانشور کہتے ہیں کہ وقت ، ریل اور لہر کسی کا انتظار نہیں کرتے۔

اب مجھ پہ بلکل واضع ہو چکا تھا کہ وہ بچوں کی لڑائی پہ اتنا خوش کیوں تھے۔ بلکہ اب تو مجھے فخر محسوس ہونے لگا کہ میری بیٹھک کی نہ صرف کھڑکیاں گلی میں کھلتی ہیں بلکہ دروازہ بھی نہیں ہے جسے بند کر کے ماضی کی گھٹن میں یا غیریقینی مستقبل کی آس میں حال کو ضائع کیا جائے۔ ہماری چائے تو ہر بار کی طرح ٹھنڈی ہوگئی مگر ان کی باتوں اور دلائل نے میری زندگی اور سوچ کو وہ گرم جوشی اور تحریک بخشی کہ ناقابل فراموش۔ شاید اسی لیے کسی نے بڑی خوبصورت بات کی ہے کہ ” ایک بہترین دوست سو بہترین کتب پہ بھاری ہے “۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments