سیاست اپنا رنگ بدلتی رہتی ہے


یہ کیسی عجیب بات ہے کہ جب کوئی حکومت انتخابات کے بعد وجود میں آتی ہے تو اس کی مخالف جماعتیں شور مچانا شروع کر دیتی ہیں کہ وہ دھاندلی کر کے آئی ہے۔ لہٰذا یہ جماعتیں اسے ایک قدم بھی بڑھانے نہیں دینا چاہ رہی ہوتیں اور اس کو پریشان کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف عمل ہو جاتی ہیں۔ ایسا اگر نہ ہوتا تو آج ہم جن گمبھیر مسائل سے دو چار ہیں وہ نہ ہوتے مگر اس بات کو کسی ایک سیاسی جماعت نے بھی نہیں سمجھا۔ ہر کسی کی خواہش رہی ہے کہ وہ عوام کی نظروں میں رہے اور یہ ثابت کرے کہ وہ عوام دوست ہے اور ان کے لیے بہتر مستقبل کی خواہاں ہے لہٰذا حکومت پر تابڑ توڑ حملے کیے جاتے ہیں اسے نیچا دکھانے اور عوام میں غیر مقبول بنانے کے لیے ایسے منصوبوں سے بھی غیر محسوس انداز سے روکتی ہے۔

یہ نہیں سوچا جاتا کہ اگر وہ حکومت میں آتی ہے تو اسے بھی ایسی ہی صورت حال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ کہنا غیر مناسب نہ ہو گا کہ چوہتر برس سے ایسا ہوتا آ رہا ہے جس کی وجہ سے عوام کو مشکلات نے گھیر رکھا ہے۔ اس وقت تو اخیر ہو چکی ہے مہنگائی اور لاقانونیت سے ملک کے مجموعی حالات انتہائی خراب ہیں (میں کئی بار لکھ چکا ہوں کہ جو کسی کا جی چاہتا ہے وہ کر رہا ہے ) اس پر حزب اختلاف کی جماعتیں رولا ڈال رہی ہیں جبکہ وہ یہ کبھی نہیں سوچتیں کہ ان کے ادوار میں بھی یہ سب ہوتا رہا ہے۔

مہنگائی بھی بڑھتی تھی بے روزگاری میں بھی اضافہ ہوتا تھا۔ قبضے بھی کمزوروں کی زمینوں اور مکانوں پر ہوتے تھے۔ لینڈ مافیا بھی غریب عوام کو لوٹتا تھا اور قانون خاموش رہتا۔ وہ منظر بدلا نہیں بلکہ اس میں مزید دھندلاہٹ آئی ہے لہٰذا یہ جو ”عوام ہمدرد“ سیاست کی جا رہی ہے محض عوام کو بیوقوف بنانا ہے اور ان کے دل میں اپنے لیے جگہ بنانا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں عوام کو دھوکا دے رہی ہیں وہ ان سے مخلص نہیں۔ وہ محض اپنے اقتدار کے لیے جلسے جلوسوں میں عوام کے مسائل کا ذکر کرتی ہیں ان کو یقین دلانے کی کوشش کرتی ہیں کہ انہیں ان کی بہت فکر ہے اور ان کے لیے ان کا دل دھڑک دھڑک نہیں پھڑک پھڑک جا رہا ہے جبکہ ایسا نہیں ہوتا۔ انہیں کسی شہری سے کوئی دلچسپی نہیں وہ تو ان کے جم غفیر دکھا کر مہذب ممالک سے داد وصول کرنے کے لیے عوام دوستی کا ناٹک رچاتی ہیں۔

یہ تماشا ہے جو طویل عرصے سے لگا ہوا ہے اور عوام ہیں کہ دیکھتے جا رہے ہیں اب ان کی حالت دیدنی ہے کہ ان کا جینا مشکل ہو چکا ہے۔ غربت و افلاس نے ان کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ کوئی قانون نہیں کوئی کسی طاقتور کو پوچھنے والا نہیں۔ اگرچہ عمران خان کی حکومت نے قانون کی بالادستی کا وعدہ کیا تھا مگر وہ وعدہ ہی رہا اس کے گرد بیٹھے لوگوں نے مختلف ہتھکنڈے استعمال کر کے صورت حال ٹھیک نہیں ہونے دی۔ اب یہ جو وزیراعظم پکڑ دھکڑ کی فضا قائم کرنے جا رہے ہیں یا کر چکے ہیں تو اس کا ذرا بھر بھی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ جو لوٹ مار اربوں کھربوں کی ہو چکی ہے وہ تو ایک کھاتے میں بھی ڈال دی جائے گی۔ حیرت یہ ہے کہ ان کے وزیروں مشیروں کو یہ خیال نہیں آیا کہ اب ان کی بدعنوانی منظر عام پر آ سکتی ہے اور عوام میں ان کی سبکی بھی ہو سکتی ہے۔

عمران خان نے شروع دن سے غلطی کی ہے کہ وہ ایسے لوگوں کو عوام دوست سمجھ بیٹھے جو دوسری جماعتوں میں سے ان کے قافلے میں شریک ہوئے اگر وہ سنجیدہ ہوتے تو ان جماعتوں میں ہی رہتے مگر انہوں نے تو وہاں بھی خوب مفادات حاصل کیے اور جب تحریک انصاف اقتدار میں آتی دکھائی دی تو موجیں کرنے اس میں آ گئے۔ لہٰذا اب وہ اختیارات سے خوب مستفید ہو رہے ہیں۔

انہیں جب پوچھا گیا ہے کہ وہ بدعنوانی میں ملوث پائے گئے ہیں تو کیوں؟ اس پر وہ جذباتی ہو رہے ہیں ترین گروپ بنا لیے ایک تو عمران خان کو سیدھا تڑیاں لگانے لگے مگر اگر عمران خان تھوڑی سی بھی سیاسی بوجھ رکھتے ہیں اور لوگوں کے دکھوں کو سمجھنے ہیں تو انہیں مافیاز سے خوف زدہ ہونے کی قطعی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے ساتھ تحریک انصاف کے کارکن ہیں۔ جو کچھ ناراض بھی ہیں کہ انہوں نے انہیں یکسر نظر انداز کر کے ان لوگوں پر انحصار کیا جو اصل۔

میں انہیں ناکام بنانے کے لیے بھیجے گئے تھے۔ لہٰذا اب وہ اپنے کارکنوں کو اعتماد میں لیں کیونکہ اشرافیہ ان کے خلاف ہو چکی ہے مافیاز صف بندی کر چکے ہیں۔ اگر وہ اپنی اصلی تحریک انصاف کی طرف نہیں لوٹتے تو انہیں بعض مسائل پیش آ سکتے ہیں۔ مگر کہتے ہیں کہ وہ عام آدمی کی مانتے نہیں یہی وجہ ہے کہ انہیں عوام کی شدید نفرت کا سامنا ہے۔ عوام کے ساتھ ان کی حکومت نے جو کچھ کر دیا ہے وہ اب تک کسی نے بھی نہیں کیا ہو گا۔

ریلیف انہیں ملا ہی نہیں۔ ادھر سرکاری ملازمین کو رلا دیا ہے پچھلے بجٹ میں ان کی دس فیصد بھی تنخواہ نہیں بڑھائی گئی اور مہنگائی ہزار گنا کر دی گئی۔ ان کا یہ کہنا ہے کہ مافیاز طاقتور ہیں درست ہے مگر انتظامی طاقت ان کے پاس ہے جو کوئی ان کی راہ میں روڑے اٹکاتا ہے اسے گھر بھیج دیا جائے۔ مصیبت یہ بھی ہے کہ ہمارا عدالتی نظام بڑا کمزور ہے لہٰذا وہ لرز جاتا ہے۔ دیکھ لیجیے اب تک کتنے لوگ پکڑے گئے مگر نتیجہ صفر برآمد ہوا پھر یہ بھی کہ ہمارے سیاستدان عوام سے نہیں تعاون حاصل کرتے وہ بڑی طاقتوں کی آشیر باد لینے کو بہتر سمجھتے ہیں لہٰذا وہ ہمیشہ موثر ثابت ہوتی ہے۔

بہرحال یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پورا سیاسی ڈھانچہ تڑخ چکا ہے اس کی مرمت کے بجائے اسے تبدیل کرنا ہو گا کیونکہ اب سیاست نہیں تجارت ہو رہی ہے۔ جس سے سیاستدان ارب پتی ہو رہے ہیں اور عوام دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے مارے مارے پھر رہے ہیں یہ سلسلہ آگے بڑھے گا تو چشم تصور سے دیکھا جا سکتا ہے کہ یہاں بھوک رقص کناں ہو گی اور جرائم میں اس قدر اضافہ ہو جائے گا کہ قانون جو پہلے ہی ہانپ رہا ہے اور بھی ہانپنے لگے گا مگر اس کا کسی کو کوئی خیال نہیں کیونکہ لٹیروں نے یورپ کے ملکوں میں اپنے ٹھکانے بنا لیے ہیں اور کاروبار چمکا لیے ہیں لہٰذا انہیں کسی سے کوئی سروکار نہیں کہ کوئی مرے یا جیئے یہ تو لوگوں کو سوچنا ہے جنہوں نے یہیں رہنا ہے مگر دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ اب بھی نعرے لگاتے پھرتے ہیں انہیں نجانے کب جاگنا ہے اور اپنے حقوق کے لیے جدوجہد کے راستے پر آنا ہے کچھ معلوم نہیں مگر یہ امید واثق ہے کہ انقلاب ضرور آئے گا چلیے وہ تو جب آئے گا تب آئے گا اس وقت تو اندھیر مچا ہوا ہے اور حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ اس بنا پر اس کی تبدیلی کی افواہیں بھی زیر گردش ہیں جو حالت سدھارنے کا حل نہیں۔ اس نظام کو بدلنا ہو گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments