میری سترویں سالگرہ: ہم نوائی کے بغیر ہم سفری


آج میری عمر کی سات دہائیاں مکمل ہو گئی ہیں۔ زندگی میں پہلی مرتبہ بیم و رجا کے عالم میں مجھے اپنے جنم دن کا انتظار تھا۔ ایک طرف سات دہائیاں مکمل ہونے کی خوشی تھی لیکن کرونا کی وجہ سے موت کی وادی کی طرف ایک انبوہ کثیر رواں دواں تھا۔ ہر دم یہ کھٹکا لگا رہتا تھا کہ نجانے کس وقت بلاوا آ جائے۔

 فروری کے مہینے میں طبیعت کچھ خراب ہوئی۔ 22 فروری کو ڈاکٹر صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد کہا کہ انجائنا کا مسئلہ ہے، انجیوگرافی کرنا پڑے گی۔ پروسیجر سے قبل ہسپتال کے بستر پر لیٹے ہوئے میں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ اگر سٹنٹ ڈالنے سے کام چل جائے تو میں اسی کو ترجیح دوں گا، ستر سال کی عمر میں بائی پاس کرا کر کیا لینا ہے۔ بیٹے نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا۔ لگ رہا تھا کہ اسے میری بات پسند نہیں آئی تھی کیونکہ اس میں یہ قرینہ موجود تھا کہ اب کنارہ قریب ہے۔ بہرحال انجیوگرافی ہوئی اور خدا کا شکر ہے کہ کوئی نیا بلاکیڈ نہیں تھا۔ 2005 میں جو سٹنٹ ڈالا گیا تھا اس میں کچھ تنگی آ چکی تھی۔ ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ یہ مسئلہ ادویات سے حل ہو جائے گا۔

برٹرینڈ رسل نے ایک جگہ لکھا ہے کہ وہ پہلی جنگ عظیم کے شروع ہونے پر مختلف گروپوں کے ساتھ جنگ کے خلاف مظاہروں میں شرکت کیا کرتا تھا۔ لیکن وہ کسی بھی گروپ کے ساتھ مکمل موافقت نہیں رکھتا ہوتا تھا۔ لہٰذا جب کبھی وہ ان گروپوں کے مسلمات پر کوئی سوال اٹھاتا اور اپنی مختلف رائے کا اظہار کرتا تو وہ اسے ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ وہ اس بات پر تو خوش ہوتے تھے کہ رسل ان کا ساتھ دے رہا ہوتا تھا لیکن انھیں یہ بھی پتا ہوتا تھا کہ وہ ان میں سے نہیں تھا۔

میرا چلن بھی کچھ ایسا ہی رہا ہے جس پر جناب نصیر ترابی مرحوم کا یہ مشہور مصرع صادق آتا ہے:

وہ ہم سفر تھا مگر اس سے ہم نوائی نہ تھی

مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہم نوائی کے بغیر ہم سفری کا وصف مجھے وراثت میں ملا ہے کیونکہ میرے بزرگوں کا رویہ کچھ اسی قسم کا تھا۔ خاندان میں مولانا مودودی صاحب کا بطور عالم دین بہت زیادہ احترام کیا جاتا تھا لیکن جماعت اسلامی کی سیاست سے ہم آہنگی نہیں ہوتی تھی بلکہ بعض اوقات جماعت کے لوگوں کو سخت ناپسند کیا جاتا تھا۔ میں جب کالج میں پہنچا تو دماغ میں سیاست کا کیڑا موجود تھا۔ اس وقت گورنمنٹ کالج لاہور میں جمعیت کے جو ناظم تھے وہ میرے روم میٹ اور دوست تنویر کے خالہ زاد کزن تھے۔ تنویر کا پورا خاندان جماعت اسلامی کا تھا۔ ان سے تعارف ہوا، ایک دو بار ان کے درس قرآن میں بھی شرکت کی۔ البتہ تنویر نے مجھے ایک نصیحت کی جس کے لیے بعد میں ہمیشہ اس کا شکرگزار رہا۔ وہ نصیحت یہ تھی کہ جمعیت سے دور کی صاحب سلامت رکھنی ہے لیکن ان کے زیادہ قریب نہیں ہونا۔ کچھ وقت گزرا تو اختلافات ظاہر ہونا شروع ہو گئے۔ جمعیت والوں کو یہ گوارا نہیں تھا کہ مولانا مودودی صاحب کی کسی رائے سے اختلاف کیا جائے یا ان پر کوئی ادنی سی بھی تنقید کی جائے۔ میں اس وقت ان سے کہا کرتا تھا کہ تم لوگ مولانا مودودی کو ماؤزے تنگ بنانا چاہتے ہو۔

کالج میں وقت اس طرح گزرا کہ انتخابات میں ووٹ جمعیت کے حمایت یافتہ امیدوار کو دیتا تھا لیکن دوست زیادہ تر جمعیت کے مخالفین ہوتے تھے۔ صرف ایک موقع ایسا آیا جب جمعیت سے ٹکراو کا خدشہ پیدا ہوا۔ باصر سلطان کاظمی یونین کے سیکریٹری کا الیکشن لڑ رہا تھا۔ جمعیت والے اس کی حمایت کرنے پر متذبذب تھے لیکن بالآخر میں انھیں قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا۔ وہ بھی اس لیے مان گئے کہ ان کے پاس اپنا کوئی امیدوار تھا ہی نہیں۔ جب مجھے جمعیت کی حمایت سے الیکشن لڑنا پڑا تو میرے یہی دوست کام آئے اور میں جیت گیا۔ میں نے اس سے پہلے کبھی کوئی الیکشن لڑا نہیں تھا اور اس کے بعد کبھی کوئی جیتا نہیں۔

میں الیکشن تو جمعیت کی حمایت سے جیت گیا لیکن کچھ مہینوں بعد مجھے ایک فکری زلزلے سے دوچار ہونا پڑا۔ عقاید کا تمام قصر زمیں بوس ہو گیا اور میں خدا اور مذہب سے انکاری ہو گیا۔ کالج میں صرف باصر کاظمی ایسا دوست تھا جس کو میں نے اپنے اس ذہنی انتشار پر اعتماد میں لیا تھا۔ باقی میں اپنے روٹین کے کام اسی طرح سرانجام دیتا رہا یہاں تک کہ آزمائش کی ایک گھڑی آن پہنچی۔ جمعیت والوں نے اسلامی سربراہی کانفرنس کے موقع پر بنگہ دیش کو منظور کرنے کے خلاف احتجاج کرنے اور گرفتاری دینے کا فیصلہ کیا۔ میں نے اس وقت بھی ان کا ساتھ دیا۔ ہفتہ بھر حوالات میں گزارا۔ وہاں صورت حال یہ ہوتی تھی کہ سب نماز ادا کرتے اور میں ایک طرف بیٹھا رہتا۔ ایک دو بار فرید پراچہ صاحب نے مجھے کہا بھائی آپ نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ میرا جواب ہوتا تھا آپ پڑھ لیں۔ لیکن اس سے زیادہ انھیں کوئی تشویش نہیں ہوتی تھی کیونکہ میں ان کا ساتھ دے رہا تھا۔ بعد میں جب ان سے اختلافات بڑھ گئے تو پھر ان لوگوں کو یاد آتا تھا کہ یہ تو پرانا ملحد اور زندیق ہے۔

یونیورسٹی کی ملازمت کے دوران بھی یہی رویہ قائم رہا۔ زیادہ وقت دائیں بازو کے اساتذہ کے ساتھ گزرا کیونکہ وہاں میرے دوستوں کی تعداد زیادہ تھی۔ بعد میں کچھ برس بائیں بازو کے اساتذہ کا ساتھ بھی دیا۔ دیکھنے میں یہی آیا کہ اصول کی پاسداری کرنے اور کسی لاگ لپٹ کے بغیر آزادانہ رائے رکھنے والے دونوں گروپوں میں بس تھوڑے ہی لوگ تھے۔ ملازمت کے آخری گیارہ بارہ برس میں نے ایک آزاد شخص کے طور پر گزارے کہ میرا کسی گروپ سے کوئی تعلق نہیں۔ مجھے خوشی ہے کہ میری اس حیثیت کو دونوں گروپوں نے تسلیم کر لیا تھا۔

اسی طرح میری فلسفیانہ اپروچ بھی باقی رفقائے کار سے الگ ہوتی تھی جو کارل پوپر کے مطالعے کا نتیجہ تھی۔ ایک روز میرے سینیر کولیگ اور دوست ڈاکٹر نعیم احمد صاحب نے آئرش لوگوں کے بارے میں مشہور لطیفے کا مجھ پر اطلاق کر دیا کہ ساجد صاحب ہر معاملے میں اپوزیشن میں ہوتے ہیں اور ان کی رائے باقیوں سے ہمیشہ علیحدہ ہوتی ہے۔

تعلیم اور تھوڑے بہت مطالعے کے باوجود میں یہ بات کبھی نہ سیکھ پایا کہ کہاں بولنا ہے اور کہاں چپ رہنا ہے۔ نتیجہ یہ ہوتا تھا کہ جہاں سب بول رہے ہوتے تھے وہاں میری زبان گنگ ہو جاتی تھی اور جہاں سب خاموش ہوتے تھے میں وہاں بول پڑتا تھا۔ اپنے دیہاتی پن کی وجہ سے نہ میرا اردو کا شین قاف کبھی درست ہوا اور نہ لجاجت آمیز لہجہ کبھی اپنا سکا۔ یہ حقیقت ہے کہ بچپن کی تعلیم و تربیت کے اثرات ساری عمر پیچھا نہیں چھوڑتے۔

ایک دیہاتی سکول سے آغاز کرنے والے طالب علم کو زندگی میں جو کچھ حاصل ہوا اس پر اپنے خالق کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس کی مجھ پر خاص مہربانی رہی ہے۔ میرے کتنے ہی سکول فیلو مجھ سے زیادہ ذہین اور محنتی تھے، امتحانوں میں زیادہ نمبر حاصل کرتے تھے، لیکن اس کے باوجود وہ شاید وہ کچھ حاصل نہ کر سکے جو مجھے نصیب ہوا۔ اس کا بڑا سبب یہی ہے کہ میں ایسے گھر میں پیدا ہوا جہاں اخبار اور کتاب پڑھنے کا شعار تھا۔ اس کے بعد گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھنا، ہوسٹل میں رہنا اور پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ میں پڑھانا میری زندگی کے لیے بہت ثمر آور ثابت ہوا۔

 بطور طالب علم اور بطور استاد میں نے جو وقت بسر کیا ہے، اس میں شاید کوئی لائق فخر بات تو نہیں ہے لیکن اتنی تسلی ہے کہ کچھ باعث شرمندگی بھی نہیں ہے۔ احمد مشتاق کے الفاظ میں بس اتنا کہہ سکتا ہوں:

مطمئن تو خیر کیا ہوں گے مگر نادم نہیں

دل میں جب تک آگ تھی ہم روشنی کرتے رہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments