سوات کے پانچ بچےایک پراسرار بیماری کے رحم و کرم پر



\"\"

(صرف مضبوط دل رکھنے والے افراد ہی اس مضمون کو پڑھیں۔ بیماری کا شکار بچوں کی تصاویر بہت خوفناک ہیں۔ یہ مہلک بیماری ان معصوموں کو دھیرے دھیرے موت کی طرف لے جا رہی ہے)

دسمبر کی ایک سرد صبح کو دیر سے جب میں اپنے دفتر میں سردی سے تنگ آکر دریا کنارے اس کچی سڑک پر ٹہلنے لگا تو میری نظر اچانک چھوٹے قد کے چار انسانوں پر پڑی جو چہرے اور سر کو ڈھانپے ہوئے تھے۔ میں چونک سا گیا اور ایک لمحے کے لئے خیال آیا کہ طالبان اتنے چھوٹے بھی ہوسکتے ہیں۔ یہ لوگ دور گھاٹی سے پیدل آرہے تھے۔ کچھ دیر بعد ان کے پیچھے میں نے ادھیڑ عمر کے ایک شخص کو دیکھا جس نے ایک بچے کو پیٹھ پر لادا تھا۔ اس بچے کا چہرہ اور سر بھی ڈھانپے ہوئے تھے۔
یہ عبدالحکیم تھا جو گھاٹی میں دور گاوں آرین سے چل کر آرہا تھا۔ اس نے اپنے ان بچوں سمیت اس صبح چھ کلومیٹر کا راستہ پیدل طے کیا تھا۔ چلتے بچوں میں شاہد حسین، نازش، ثنا اور ہما تھے جبکہ عبدالحکیم نے چھوٹی سمیّا کو پیٹھ پر لادا تھا۔ شاہد کی عمر پندرہ سال، نازش کی دس سال، ثنا چھ سال کی جبکہ ہما پانچ سال کی ہے۔ سمیّا کی عمر دو سال کے قریب ہوگی۔
میں نے عبدالحکیم سے کہا کہ ان بچوں کے سر اور چہرے کیوں چھپائے ہوئے ہیں۔ وہ شرمندہ اور افسردہ لگ رہا تھا۔ میرے کہنے پر جب اس نے ان بچوں کے چہروں سے کپڑا اٹھایا تو مجھے ایسا لگا گویا ہزاروں چیونٹیاں میرے جسم میں گھس گئی ہیں۔ ان کے چہروں کو براہ راست دیکھنا میرے لئے زیادہ دیر تک ممکن نہ تھا۔ ان بچوں کے چہروں پر دانے ہی دانے تھے۔ ان کے چہرے بوسیدہ کھمبیاں لگ رہے تھے۔ بچے انتہائی اذیت میں تھے۔ میں لرز کر رہ گیا۔
عبدالحکیم اس دن ان کو اپنے گاوں آرین سے بحرین لایا تھا تاکہ یہاں سے کوئی گاڑی پکڑ کر وہ ستر کلومیٹر دور مینگورہ شہر میں ان کو کسی ڈاکٹر کو دکھا سکے۔ حکیم نے ایسا ہر ماہ کرنا ہوتا ہے مگر گزشتہ چھ مہینوں سے وہ ان بچوں کو ڈاکٹر کے پاس نہیں لے جا سکے تھے۔ اس کی وجہ ان کے پاس کوئی مالی استطاعت کا باقی نہ رہنا تھا اور ادھار لے لے کر اب وہ عاجز آچکے تھے۔ اب تو ان کو رشتہ دار قرض بھی نہیں دیتے تھے کہ ان کو یقین ہے کہ حکیم ایک مزدور ہوکر یہ رقم کبھی واپس نہیں کر سکے گا۔ حکیم ایک ان پڑھ مزدور ہے اور مزدوری کی یہ حالت کہ سال میں دو چار مہینے ہی دیہاڑی لگتی ہے۔حکیم کی آنکھیں بھر آئیں۔ میں بھی بس سوچتے ہی رہ گیا۔
اگلے ہفتے بحرین کے نوجوان سماجی کارکن مجاہد توروالی، آفتاب احمد اور رحیم صابر نے آرین گاوں کو جانے کی ٹھانی تاکہ وہ عبدالحکیم کے

گھر اور حیثیت کا اندازہ لگا سکیں اور کچھ ویڈیو و تصاویر بناکر سوشل میڈیا یا عام میڈیا کے ذریعے لوگوں کے سامنے لاسکیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہ پانچوں بچے ایک پر اسرار بیماری کا شکار ہیں۔ یہ بیماری حکیم کے ہر بچے میں نمودار ہوتی ہے جب وہ آٹھ مہینوں کا ہوجاتا ہے۔ اس پر اسرار بیماری نے حکیم کے دو بچوں کی جانیں پہلے ہی لے لی ہیں اور اب یہ پانچوں بچے بھی جلد اس کا شکار ہوجائیں گے اگر ان کا بروقت اور موثر علاج نہ کرایا گیا۔
آرین گاوں سوات کے قصبے بحرین کی وادی درال میں گھاٹی کے اندر چھ کلومیٹر سے زیادہ فاصلے پر ہیں۔ یہاں رہنا نہ صرف دشوار بلکہ حد درجہ تکلیف دہ بھی ہے۔ حکیم کی اس گھاٹی میں کوئی زمین نہیں کہ اس سے گزر بسر کرے۔ صرف مٹی اور پتھر کا ایک گھر ہے جہاں عبدالحکیم اور اس کے بچے زندگی گزارنے پہ مجبور ہیں۔ میں نے ایسی بیماری کو اس علاقے میں نہیں دیکھا۔ نیشنل جیوگرافک چینل پر ایک دستاویزی فلم میں اس طرح کے چہرے دیکھے تھے۔
عبدالحکیم کے ان پانچ بچوں کو بچانا ہے۔ ان بچوں کے چہروں کو صاف کرنے کے لئے سرجر ی کی ضرورت ہوگی اور پھر اس کے بعد مسلسل دیکھ بھال، دوا اور احتیاط لازمی ہوگی۔
کیا ہی اچھا ہو کہ ہم شاہد رحمان، نازش اور ثنا کو واپس سکول بھیج سکیں، ہما اور سمییہ کو سکول کے قابل بناسکیں۔ ایسا ممکن ہے اگر حکومت وقت اور مخیر ادارے و افراد اس مجبور خاندان کی مدد کرنے کے لئے تیار ہوجائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments