زندگی کے بڑے فیصلے کیسے کئے جائیں؟


یہ انیسویں صدی کا قصہ ہے جب امریکہ خانہ جنگی میں گھرا ہوا تھا، ان حالات میں چند بڑی جنگوں میں سے ایک جنگ چانسلرزویل میں لڑی گئی۔ یہ خانہ جنگی کا تیسراسال تھا جب کانفیڈریٹ جنرل رابرٹ لی اور کمانڈر یونینز آرمی جوزف ہوکر مدمقابل ہوئے۔ رابرٹ لی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اپنی جنگی صلاحیتوں میں، اپنے دور میں یکتا تھا۔ اس کی تمام جنگی فتوحات کی وجہ اس کی تیز دماغی اور ذہانت رہی۔ اس کا خاصہ یہ تھا کہ وہ حالات کی نزاکت کے پیش نظر، فوری فیصلہ کرنے کی صلاحیت سے مالا مال تھا۔ دوسری جانب، جوزف ہوکر بھی کسی سے کم نہ تھا۔ اس کی عسکری قوت لاجواب اور بے مثال تھی۔ اسی بنا پر اب تک کی وہ تمام جنگوں میں فتح یاب ٹھہرا تھا۔ اسے اپنی فوجی اور جاسوسی مہارت پر بہت زعم تھا۔

میدان جنگ میں ہوکر 143000 کی فوج کے ساتھ، جبکہ دوسری جانب لی صرف 61000 کے ساتھ میدان میں تھے۔ ہوکر اپنے جاسوسوں کی مدد سے دشمن فوج کی تمام کمزوریوں سے واقف ہو چکا تھا، اور معلومات کا ایک انبار اپنے پاس لیے بیٹھا تھا۔ دشمن کی شکست کو یقینی بنانے کے لیے اس نے اپنی فوج کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا، جس میں سے ایک حصہ، دوران جنگ، دشمن پر پیچھے سے وار کرے گا۔ یہ سب حالات پڑھتے ہوئے آپ کے لیے یہ کہنا مشکل نہ ہوگا کہ فتح کس کا مقدر بنتی دکھائی دے ہے، لیکن یہیں پر کہانی ایک نیا موڑ لیتی ہے۔

رابرٹ لی حالات کو پرکھتے ہوئے اپنی فوج کے کچھ سپاہی دشمن فوج کے جال میں، جان بوجھ کر پھنسوا کر، قید کروا دیتا ہو۔ وہ قیدی وہاں اس بات کا اعتراف کر بیٹھتے ہیں کہ لی کی مدد کو کچھ ہی دیر میں ایک اور جنرل بڑی عسکری قوت سمیت آ رہا ہے۔ یہ سن کر ہوکر کے پیروں تلے زمین نکل جاتی ہے۔ کیا یہ خبر سچی تھی؟ بالکل بھی نہیں۔ البتہ اس جھوٹی خبر سے ہوکر کو اپنی معلومات پر شک پڑنا شروع ہوجاتا ہے اور وہ اپنی فوج کو حملہ روکنے کا حکم صادر کرتا ہے۔

اتنے میں دوسری جانب لی نے اپنی فوج کو کچھ حصوں میں تقسیم کر دیا۔ اس کی اس حرکت نے ہوکر کو اور پریشان کر دیا کیوں کہ یہ بھی اس کے علم میں نہ تھا۔ لی نے اپنی فوج کے ایک حصہ کو اس علاقہ پر حملہ آور ہونے کا حکم دیا، جہاں ہوکر اور اس کی فوج کا اختیار سب سے زیادہ مضبوط تھا اور دشمن فوج کا حملہ متوقع نہ تھا۔

تقریباً شام کا وقت تھا۔ ہوکر کی فوج کھانا کھانے میں مصروف تھی کہ اس علاقہ پر حملہ ہو گیا۔ ہوکر، ہکا بکا، لی کی فوج کے آگے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو گیا۔

تجربہ اور مشاہدہ، دو ایسے خاص گوہر ہیں، جو اگر کسی کی بھی زندگی میں موجود ہوں، تو اس کی کامیابی کے امکانات روشن بلکہ روشن تر ہو جاتے ہیں۔ رابرٹ لی کی فتح ایک وجہ اس کے مشاہدات اور تجربات تھے۔ اس کے علاوہ ایک اور بات جو قابل غور ہے وہ یہ کہ کم علمی بھی ایک نعمت ہوا کرتی ہے۔ ہوکر کے پاس نجانے کتنی معلومات تھیں، جبکہ دوسری جانب لی موقع پر فیصلہ کرنے والا سپہ سالار تھا۔ لی کو اپنی اطلاعات پر گھمنڈ تھا۔

البتہ وہ اطلاعات جو پس میدان تھیں، جس کے باعث اس کے لیے یہ ممکن ہی کہاں تھا کہ وہ اپنا سارا دھیان ایک مخصوص عمل پر لگائے رکھتا۔ یہ گلوبلائزیشن کا دور ہے۔ جہاں ایک لمحے میں آپ پوری دنیا کی معلومات حاصل کر سکتے ہیں۔ ایسے حالات میں اصل اور مستند چیز پر غور کو برقرار رکھنا بہت مشکل ہو جاتا ہے، اور اکثر اوقات اسی وجہ سے انسان غلط فیصلوں کا مرتکب ہو جاتا ہے۔

اس واقعہ سے ایک اور بات جو سیکھنے کو ملتی ہے، وہ اپنے ”انسٹنکٹ“ کو زندہ رکھنا، لاشعور کو سننا، اس کی مدد سے فیصلہ لینا اور پھر اس پر ڈٹ جاناہے۔ ماہر نفسیات یہ کہتے ہیں کہ ایسا وقت آئے جب آپ کے ذہن پر بہت سے لوگوں کی رائے سوار ہوں اور آپ نے ایک اہم فیصلہ کرنا ہو، لیکن آپ فیصلہ نہ کر پا رہے ہوں، تو اس کا آسان سا حل یہ ہے کہ وہ کریں جس پر آپ کی اپنی طبیعت رضامند ہو۔ اب یہ جاننے کا طریقہ کیا ہے کہ آپ خود کیا چاہتے ہیں؟ اس کاآسان حل یہ ہے کہ اپنے آپ سے گفتگو کیجئے، اور پوچھئے کہ کیا میں یہ فیصلہ یوں لے کر خوش ہوں۔ جواب منفی ہو تو فیصلہ حق میں نہ لیں اور اگر مثبت تو بسم اللہ پڑھیے اوروہ کام کر ڈالیے۔

سگمنڈ فرائڈ، ایک عظیم نیورولوجسٹ اور سائیکواینیلسز کا بانی، کہتا ہے کہ جب آپ کسی ایسی چیز کا فیصلہ کرنے جا رہے ہوں جس کا اثر بہت معمولی ہو اور اس کی اہمیت بھی چھوٹی ہو تو اپنے فیصلہ سے پہلے اس کے منفی اور مثبت پہلوؤں پر ضرور غور کریں۔ جبکہ فیصلہ اگر کسی بڑی چیز پر کرنا ہو جس کا اثر آپ کی آنے والی زندگی پر پڑنا ہو، تو وہ کریں جو آپ کا لاشعور چاہتا ہے۔ گویا اس فیصلہ کا جواب اپنے اندر تلاش کریں، ناکہ معلومات کے سہارے اسے ممکن بنانے کی کوشش کریں۔ اس کی ایک مثال آپ کے سامنے پیش کیے دیتا ہوں۔

The Happiness Equation کا مصنف اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ایک بار وہ اپنے اسکول کے ایک دوست سے کافی عرصہ بعد ملا جب وہ نیویارک میں ایک بڑے بینک میں اچھی پوسٹ پر ملازم تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ ملاقات ہوئی تو میں نے یہ پوچھا کہ تم اپنے دور طا لب علمی میں ایک نہایت ذہین طالب علم تھے اور تمہارے لیے ہاورڈ یا اکسفورڈ میں داخلہ ممکن تھا تو پھر تم نے کسی اور ادارے کا انتخاب کیوں کیا؟ جواب میں ان کے دوست کا یہ کہنا تھا کہ داخلہ کے وقت میرے پاس پانچ سے چھ اداروں میں داخلہ باآسانی ممکن تھا۔

سو میں نے ایک جیپ کرائے پر لی اور یہ ارادہ کیا کہ میں ان تمام اداروں کا دورہ ضرور کروں گا۔ ہر ادارے کو میں اچھی طرح دیکھتا اور ادارے میں کسی ایک بینچ کا انتخاب کرتا جس پر میں تقریباً ایک گھنٹہ بیٹھا رہتا۔ وہاں بیٹھ کر میں اس ادارے کے ماحول کو جانچتا اور آس پاس پھرتے طلبہ و طالبات کی گفتگو کو سنتا۔ اس سارے وقت میں ان کی گفتگو سے اخذ کرتا کہ ان سب کی ترجیحات کیا ہیں اور ان کی آپس میں گفتگو کس طرز کی ہوتی ہے۔

مصنف نے حیران ہو کر اپنے دوست سے اس سب کی وجہ پوچھی تو کہنے لگا کہ میں اس بات سے بہت پہلے ہی واقف ہو چکا تھا کہ میرے اگلے چار سال کا وقت ایک خاص ماحول میں گزرے گا اور میں اسی ماحول سے پنپ کر نکلوں گا۔ یعنی چار سال بعد میری شخصیت میں جو بھی نکھار آئے گا، وہ اس ادارے کے ماحول کا عکاس ہوگا۔ ان اداروں کے ماحول اور ارد گرد کی گفتگو کو دیکھ اور سن کر میں اپنے آپ سے یہ سوال کرتا کہ آیا میں چار سال بعد یہی بننا چاہتا ہوں؟ جس ادارے میں جواب مثبت ملا، میں نے اسی ادارے کا انتخاب کر لیا اورآج میں کامیابی کی وہی سیڑھیاں چڑھ رہا ہوں، جنہیں میں اپنا مقصد حیات بنانا چاہتا تھا۔

زندگی میں کچھ بڑے فیصلہ کرنے کو آتے ہیں اور ان فیصلوں نے آپ کے آنے والی ساری زندگی کا تعین کرنا ہوتا ہے۔ یہ فیصلہ مشکل نہیں ہوتے۔ ہم ان پر سوچ سوچ کر، معلومات اکٹھی کر کر کے انہیں مشکل بنا لیتے ہیں۔ انسان اگر صرف اپنی ذات سے دوستی کر کے مخلصی اختیار کر لے اور اپنے آپ سے سوال کر کے جواب حاصل کرنا سیکھ جائے، تو بڑی سے بڑی گتھیاں خود بخود سلجھ جاتی ہیں۔ ہاں فیصلہ لیتے وقت، آس پاس کے لوگ اور ماحول آپ پر دباؤ ڈالیں گے، پھر بتائیے اگر ان کے دباؤ میں آ کر ان کی مرضی کا فیصلہ کر بھی لیا، لیکن آپ کی اپنی ذات خوش نہ رہ سکی، تو ایسے فیصلہ کا کیا فائدہ؟ زندگی کی گاڑی آپ کی تو سٹیرنگ ویل کسی اور کے ہاتھ میں کیوں؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments