پی ٹی آئی حکومت شوگر سکینڈل سے رنگ روڈ سکینڈل


اپنی حکومت کے تیسرے سال میں لگتا ہے پاکستان تحریک انصاف کی حکومت سکنڈلز کے گرداب میں پھنسی ہے۔ اس حکومت کی بنیادی کمزوری اس کے پاس مکمل اکثریت کا نہ ہونا ہے۔ اب ان کو نہ صرف اسٹیبلشمنٹ پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے بلکہ اور چھوٹے چھوٹے پریشر گروپ بھی پر پرزے نکال کر اپنا اپنا حصہ وصولتے نظر آتے ہیں۔ اصل خرابی سسٹم کے اندر ہے۔ مگر اس سسٹم کو چلانے کے لئے جو زیر کی اور ہوشیاری چاہیے وہ موجودہ حکمرانوں میں نظر نہیں آتی۔

عمران خان ایک سیماب صفت شخصیت کے مالک ہیں۔ انہوں نے سسٹم میں موجود خرابیوں کو بار بار آشکارا کیا اور اس وعدے پر ووٹ حاصل کیے کہ وہ اقتدار میں آ کر ان خرابیوں کو ٹھیک کر دیں گے مگر اس کے باوجود ان کو اسٹیبلشمنٹ کی مدد بھی لینی پڑی اسٹیبلشمنٹ کی حلیف جماعتوں کے ساتھ مل کر حکومت بنانی پڑی۔ پھر الیکٹیبل کو ٹکٹ دینا ان لوگوں کی مدد حاصل کرنا تھی جن کے مفادات اسی سسٹم کے ساتھ وابستہ ہیں۔ عمران خان نے انقلاب کا تو کبھی نعرہ بھی نہیں لگایا مگر تبدیلی کا ضرور بتایا گیا اب وہ تبدیلی کا خواب بھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو پایا۔

وہ اس کرپٹ اور بیمار سسٹم کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں مگر اس کو ٹھیک کرنے کے لئے ان کی ٹیم زیادہ تر اس طبقے کے کھلاڑیوں پر مشتمل ہے جن کی وجہ سے اس سسٹم میں خرابی ہے۔ عمران خان اور پی ٹی آئی کی پالیسی میں چھپا یہ تضاد ان کو بار بار کلین بولڈ کر رہا ہے۔ یہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ ان کو سب سے آسان اور منتشر اپوزیشن ملی ہوئی ہے۔ جو عین اس وقت ایک دوسرے سے دست و گریبان ہو جاتی ہے جب لڑائی اپنے آخری مرحلے میں ہوتی ہے مگر پی ٹی آئی کی خطرناک ترین اپوزیشن خود پی ٹی آئی ہے۔

جوں جوں حکومت کی مدت قریب آ رہی ہے کوئی دن جاتا ہو گا کہ کوئی نہ کوئی سیکنڈل سر نہ اٹھاتا ہو۔ لگتا ہے کرپٹ اور مفاد پرست عناصر جو اس کارواں کا حصہ بھی اس لئے بنے تھے کہ مناسب موقع پر جا کر وہ اس کے ذریعے اپنے ذاتی مقاصد حاصل کریں گے ان کے خیال میں وہ وقت آ چکا ہے۔ اب نہیں تو کب کے نظریے کے تحت یہ عناصر جو کسی نظریہ یا اعلی مقصد سے عاری ہیں اس طرح کے گل کھلا رہے ہیں کہ سابقہ ادوار کے سکینڈلز ان کے مقابلے میں ہیچ نظر آتے ہیں۔

رہی سہی کسر بیوروکریسی کی من مانی نے پوری کر دی ہے۔ عمران خان بیوروکریسی کے اندر اس طرح کا کوئی پرعزم یا وفادار گروپ نہیں بنا سکے جیسا کہ شریف فیملی کے ساتھ تھا جس نے انہیں پنجاب کا ناقابل شکست ہیرو بنا دیا۔ پی ٹی آئی کے دوست شکوہ کرتے ہیں کہ شہباز شریف کے دور میں بھی بڑے بڑے سیکنڈل ہوتے تھے مگر اس وقت ریکارڈ جل جاتا تھا۔ یہی تو آپ میں اور شہباز شریف میں فرق ہے وہ کم ازکم افسروں کو یا اپنی حکومت کو تحفظ تو دیتے تھے خواہ اس کے لئے ریکارڈ جلانا پڑے نیب کو دھمکیاں دینی پڑیں یا اینٹی کرپشن کو ڈی ایم جی افسرز کے ماتحت کرنا پڑے۔

یہ کوئی احسن کام نہیں تھا مگر شریف کم از کم اس سسٹم کو سمجھ گئے تھے اور اس سسٹم سے کام نکلوانا اور لوگوں کو کام ہوتا دکھانے میں کامیاب ہو جاتے تھے۔ آپ تو نہ شفافیت دکھا پا رہے ہیں نہ ہی اس کی پردہ پوشی کر پار ہے ہیں۔ اگر وہ کرپٹ تھے تو آپ پر ساتھ نا اہلی کا الزام بھی لگتا ہے آپ کے اپنے لوگ آپ کی حکومت کو پچھاڑنے کے چکر میں ہیں بیوروکریسی آپ کی بات نہیں مانتی ایک اسسٹنٹ کمشنر کو آپ ہٹا نہیں پاتے۔ تاریخ میں پہلی دفعہ ضمنی الیکشن آپ ہار جاتے ہیں، بلدیاتی الیکشن آپ نہیں کروا پا رہے، پولیس اصلاحات پر آپ کام نہیں کر پائے۔ شوگر سکینڈل کے شور میں ہی شوگر مافیا اسمبلیوں سے اپنی مرضی کا ایسا قانون پاس کروا لیتا ہے جس سے وہ کسانوں کو اور آسانی سے لوٹ سکیں اور آپ چاہتے ہوئے بھی اس کو روک نہیں پاتے۔

رنگ روڈ منصوبے کو سیکنڈل میں تبدیل کرنے کا کریڈٹ بھی پی ٹی آئی کے اپنے دوستوں کو جاتا ہے۔ اس سیکنڈل کا ملبہ پہلے صرف بیوروکریسی پر ڈالنے کی کوشش کی گئی۔ مگر تین بیوروکریٹس پر مشتمل انکوائری کمیٹی میں سے دو ممبرز نے طے شدہ سکرپٹ سے ہٹ کر سیاستدانوں کے نام بھی آشکارا کر دیے جس کے نتیجے میں ایک قریبی رفیق کو مستعفی ہونا پڑا اور دوسرے الیکٹیبل کی کشتی بھی بھنور میں ہے۔ اب تو اس حکومت نے وتیرہ ہی بنا لیا ہے کہ پہلے کوشش کر کے ایک منصوبے کو سیکنڈل میں بدلو پھر اس سیکنڈل کی زد میں بڑے بڑے لوگوں کو لاؤ اور پھر اس سے بڑی جدوجہد کر کے اس سیکنڈل پر مٹی ڈالو۔ اب وزیراعظم کے ارد گرد جس طرح متحارب لابیاں بن چکی ہیں اور پنجاب میں مختلف پاور سینٹرز وجود میں آ چکے ہیں تو وہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانا کے لئے اس حکومت کی ساکھ کو داؤ پر لگائے رکھیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments