انسداد دہشت گردی کا بیانیہ (دوسری قسط)


\"image\"ایک سوال جو لاتعداد مرتبہ پوچھا جا چکا ہے اورمیرے محدود حافظے سے محو ہونے کے لیے بھی تیار نہیں ہے۔ وہ یہ ہے کہ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں فکر مندی کہاں غالب رہی ہے؟ کیا پاکستان کے کسی تعلیمی ادارے میں اِس روش کے بارے میں فکرمندانہ بحث و مباحثے کا اہتمام کیا جا سکا ہے، ملک کے سیکورٹی اداروں میں تعلیم و تربیت کے ذمہ داروں نے اس عفریت کی وجوہات اور اثرات پر کسی تحقیق کا بندوبست کیا ہے؟ کسی سیاسی جماعت نے اپنے پلیٹ فارم سے ملک میں مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ کشیدگی کی تفہیم اور اس کے اسباب و اثرات کے تدارک کے لیے کسی بحث کو جگہ دی ہے؟ کسی ایک مذہبی جماعت نے اس موضوع کو تشویش کی نظر سے دیکھا اور اس مصیبت کے سدباب کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش کی ؟ ہمیں بتایا جاتا ہے کہ ملی یکجہتی کونسل نام کی ایک نہایت مخلص کوشش کی گئی تھی جس کا سہرا ملکی مذہبی جماعتوں کے سر باندھا جاتا ہے ۔ لیکن ریکارڈ درست رکھنے کے لیے یہ یاد رکھا جائے کہ ملی یکجہتی کونسل اس وقت مکمل طور پر ناکام ہوگئی جب وہ انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ قتل وغارت میں ملوث گروہوں اور کرداروں کووہ تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی جس کا وعدہ ان سے کونسل میں شمولیت اختیار کرتے وقت کیا گیا تھا۔ بعد میں یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ کونسل کا اصل مدعا فرقہ پرستوں اور انتہا پسندوں کو ’غسل‘ دے کر تحفظ دینا تھا۔ سب سے بڑھ کر پاکستان کے ذرائع ابلاغ میں اس موضوع پر کھلی بحث کا کوئی مستقل اہتمام کیا گیا ہو؟ جہاں تک مجھے یاد ہے خالد احمد نے ایک ٹیلی ویژن پر ایسے موضوعات پر کھلی بحث کے لیے طالب علموں اور دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کو ایک پروگرام میں مدعو کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔ محض دو یا تین نشستوں کے بعد خالد احمد کو یہ سلسلہ بند کرنے کا حکم دیا گیا بصورت دیگر…. امکانات کا اندازہ لگانے کے لیے سب آزاد ہیں کہ کیا کچھ رونماہوسکتا تھا۔ یقینی طور پر ایسے موضوعات پر کھلے بحث مباحثے کا اہتمام عوامی سطح پر ممکن نہیں تھا کیوں کہ جب عام لوگوں کو کسی کونے سے اس موضوع پر اظہار خیال کے لیے اکسایا نہ جائے، ان کو شمولیت کا احساس نہ دلایا جائے، ان کی ہمت نہ بندھائی جائے وہ اپنے طور پر کچھ تصورات ضرور اخذ کرتے ہیں اور اپنی اپنی قریبی وابستگیوں کے ساتھ صورت حال سے سمجھوتے پر اکتفا کرلیتے ہیں۔ یوں اجتماعی طور پر عام لوگ بے اعتنا محسوس ہونے لگتے ہیں۔ یہی وہ عوامی ’بے اعتنائی‘ ہے جس نے ریاست کے ذمہ داروں کو موقع پرست، دانش وروں کو خوفزدہ یا وابستہ اور انتہا پسندوں کوطاقت ور بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔

آج انتہا پسند اور فرقہ پرست طاقت ور ہیں اور اس کی وجہ محض اِن کی مخصوص مذہبی و مسلکی شناخت نہیں بلکہ وہ سماجی طورپر طاقت ور ہونے کے لیے درکارلوازمات سے لیس ہیں۔ مذکورہ شناخت کی مدد سے حاصل کردہ معاشی و سیاسی طاقت اِنہیں ریاستی احتساب سے بچانے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارے ہاں بعض اوقات یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ دو چار انتہا پسند مولویوں کو گرفتار کرو اور اچانک ہی ریاستی رٹ قائم ہوجائے گی، دیگر اِن کے انجام کو دیکھ کر اپنا قبلہ درست کرلیں گے۔ یہ ایسا ہی نکتہ ور مشورہ ہے جیسا ہمارے اکثر سیانے لال مسجد کے آپریشن کے دوران اور بعد میں بالکل مفت دیتے رہے کہ اگر اسلام آباد انتظامیہ لال مسجد کی بجلی اور پانی بند کردیتی توچند ہی دنوں میں مسجد کے تہہ خانے تمام دہشت گردوں کو بالکل نڈھال کرکے باہر سڑکوں پر اگل دیتے۔ ایک ایسا آپریشن جس کے تمام ذمہ داران آج پاکستان میں منہ چھپاتے پھر رہے ہیں اور اس دوران ریاست کو لگنے والے دھچکے، اداروں کی بدنامی اور سب سے بڑھ کر سیکورٹی فورسز کے جانی نقصان کے ازالے کے لیے کوئی مدعی دستیاب نہیں۔ دہشت گردی اور انتہا پسندی کے حوالے سے ریاست کی دستبرداری کی کون کون سی مثالیں پیش کی جائیں، ایک سے بڑھ کر ایک حوصلہ شکن مثال ہمارے سامنے موجود ہے۔ اس کے بعد القاعدہ سربراہ اسامہ بن لادن ایک حساس ترین علاقے کے عقب میں تلاش کرکے مارا گیا اور ریاست کے تمام اعلیٰ ترین عہدیداروں کو’دندل‘ پڑ گئی۔ ملک کے کئی شہروں میں اس شخص کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی جو براہ راست ہزاروں پاکستانیوں کی اموات کا ذمہ دار تھا، ریاست پھراوندھے منہ لیٹی رہی۔ پشاور میں ہوئے سکول حملے کے بعد ریاستی ادارے حرکت میں آئے اور ایک ایسا آپریشن جاری ہے جس کے بارے میں بعض ماہرین کا دعوی ہے کہ ضرب عضب پاکستان میں دہشت گردی و انتہا پسندی کے محض جھاڑ جھنکار کی صفائی ستھرائی کا عمل ہے، اصل مصیبت ویسی کی ویسی کھڑی ہے۔ دوسری طرف ریاستی ادارے یہ دعوی کرتے ہیں کہ دہشت گردوں کی کمر توڑ دی گئی ہے اور ان کے ٹھکانے ختم کرکے اب سہو لت کاروں کا صفایا کیا جارہا ہے۔ پھر بھی دہشت گردی کے واقعات جاری و ساری ہیں۔ اگر سمجھدار لوگ اس مخمصے کا شکار ہیں کہ ضرب عضب کے بعد دہشت گردی کے واقعات میں کمی واقع ہوئی ہے تو ایسے دورانیے گذشتہ دو دہایﺅں میں کئی مرتبہ آئے اور تیزی کے ساتھ گزر گئے۔ مسئلہ دعوﺅں پر اعتبار کا نہیں مسئلہ سلامتی کی مستحکم صورت حال کا ہے کہ وہ لمحہ کب آتا ہے جس کو استحکام کا وقت کہا جاسکے۔ اگر واقعی وہ مستحکم لمحہ آپہنچا ہے تو یہ ایک مسرت کی بات ہے۔

اب آتے ہیں انسداد دہشت گردی کے ممکنہ اور متفقہ بیانیہ کی طرف ۔ انسداد دہشت گردی بیانیہ ساز اداروں اور افرد کو یہ مدنظر رکھنا پڑے گا کہ انتہا پسند قطعی طور پر تنہا نہیںجب کہ وہ کمزور تو کبھی بھی نہ تھے۔ اُنہیں کسی حد تک منتشر کہا جاسکتا ہے جو بہرحال کمزوری کی ہی ایک قسم ہے۔ اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کی ویسی صف بندی بھی ہمیں پاکستان میں نظر نہیں آتی جو دوسرے شورش زدہ ممالک میں دیکھنے کو ملتی ہے۔ لیکن اس امر کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ ہمارے ہاں انتہا پسندوں کی اندرونی معاونت کے تمام سرچشمے موجود ہیں۔ ہمارے ہاں ایسی وہ تمام مطبوعات کھلے عام میسر ہیں جو قاری کو مخصوص مسالک اور اقلیتوں کے علاوہ ریاست اور اس کے اداروں کے خلاف ابھارتی ہیں۔ اگرچہ ماضی میں وفاقی و صوبائی حکومتیں بعض منتخب مطبوعات پر پابندی عائد کرتی رہی ہیں لیکن ایسی پابندیاں محض اعلانات تک ہی محدود رہتی ہیں ۔ جہاں تک تقاریر اور جلسے جلوسوں کا معاملہ ہے تو بظاہر پابندیوں کے باوجود یہ کام جاری رہتا ہے اور انتہا پسندی و فرقہ وارانہ منافرت کا پرچار ہوتا رہتا ہے۔ اگرچہ یہ ایک الگ موضوع ہے کہ پاکستان میں دستیاب مذہبی مواد میں سے فرقہ وارانہ و انتہا پسندانہ کیا کچھ ہے اور اس کا تعین کون کرے گا لیکن یہ آسانی کے ساتھ کہا جاسکتا ہے کہ ایسے بے تحاشہ مواد کو فرقہ وارانہ و انتہا پسندانہ کی ذیل میں رکھا جاسکتا ہے جس کو عمومی طور پر مقدس اور متفقہ علیہ سمجھ لیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ شاید یہ مشکل ترین مرحلہ ہو جب علما اور خطیبوں کی شناخت کے ساتھ انتہا پسند اور فرقہ پرست عام عوام کو اپنا شکار بناتے ہیں، انہیں ایسا کرنے سے کیسے باز رکھاجائے؟ ایسا کون سا ادارہ ہو جو انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کو ریاستی سلامتی اور انتظام و انصرام کے حامل اداروں میں نقب لگانے سے باز رکھے؟ یہ دوہرانے کی ضرورت نہیں کہ کس طرح ماضی میں ہمارے اہم ترین ریاستی اداروں میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کے پرچارکوں نے اپنا کام کیا۔

سب سے اہم اور مشکل مرحلہ وہ ہوگا جب انسداد دہشت گردی کے بیانیے کی عملی صورت گری ہوگی۔ اس مقصد کے لیے ریاست کو اپنی بامعنی معاونت کے لیے تیار شدہ افرادی قوت کی ضرورت پڑے گی، جو عوامی سطح پر انتہا پسندوں اور فرقہ پرستوں کی پھیلائی ہوئی کثافتوں کو صاف کرنے کا عمل شروع کرے گی۔ کیا اس میں عوام کے کسی حصے کو شامل کیا جائے گا یا خصوصی طور پر تربیت شدہ اداروں یا افراد کی مدد لی جائے گی؟ یہ خاصا تفصیل طلب اور پیچیدہ مرحلہ ہے جس کی شروعات اور عملی کامیابی کے بارے میں لاتعداد سوالات پائے جاتے ہیں۔ اگر محض اس بات پر اکتفا کرلیا جائے کہ ریاستی اداروں میں پہلے سے موجود معتدل قرار دئیے گئے افراد کی ہی مدد سے انسداد دہشت گردی کے بیانیے کی عملی تشکیل کا کام لیا جائے گا تو یہ شاید ایک نمایاں غلطی ہوگی جو آگے چل کر مہلک بھی ثابت ہوسکتی ہے۔ جہاں تک اس مقصد کے لیے دستیاب ذرائع ابلاغ کی مدد کا سوال ہے تو ابھی تک یہی کچھ ہمارے سامنے ہے کہ حکومتیں بھاری معاوضہ ادا کرکے محض انتباہی اشتہارات کے لیے ہی ذرائع ابلاغ کو استعمال کرسکی ہیں۔ یا کسی المناک واقعے کے بعد خصوصی ہدایات کے بعد متذبذب اینکروں کی مدد سے دہشت گردی و انتہا پسندی کی مخالفت میںوقتی فضا ہموار کروانے میں کسی حد تک کامیاب ہوسکی ہیں، ذرائع ابلاغ سے اس حوالے سے حقیقی اور پائیدار مدد ابھی تک حاصل نہیں کی جاسکی۔ اس کے بعد کے کئی مراحل مزید پیچ دار اورمشکل ہیں کیوں کہ جس تسلسل اور تندہی کے ساتھ ملکی فضا کو انتہا پسندی کے حوالے سے مسموم کیا گیا ہے، اس کی جڑیں بہت گہری اور مضبوط ہیں۔ اِنہیں آسانی کے ساتھ اکھاڑ پھینکنا ممکن نہیں۔ ایک انتہائی اہم مرحلہ ثقافتی ڈھال تعمیر کرنے کا درپیش ہوگا جس کے لیے بہت کاریگری درکار ہے کیوں کہ انتہا پسندوں نے پاکستان کے ثقافتی تصور کو نہایت سرعت کے ساتھ بے جان کیا ہے۔ پاکستان کی موجودہ ثقافتی بے مائیگی اور ماضی کے ثقافتی تنوع کی زبوں حالی کا اندازہ لگانے کے لیے یہ ایک مثال کافی ہے کہ دارلحکومت اور بین الاقوامی شہرت کے حامل شہر اسلام آباد کے حدود اربعے میں سات سو کے قریب مساجد اور مدارس واقع ہیں لیکن پورے شہر میں ایک بھی سینما نہیں۔

(جاری ہے)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments