انڈیا: سرسوں کی ریکارڈ پیداوار کے باوجود تیل کی قیمتیں بلند ترین سطح پر کیوں؟

دلنواز پاشا - بی بی سی ہندی، نئی دہلی


سرسوں کے پھول
انڈیا کی سب سے بڑی ریاست اترپردیش کے ضلعے امروہہ کے کسان ساجد حسین نے مارچ میں 400 کلو سرسوں کو 4200 روپے فی کوئنٹل یعنی 42 روپے فی کلو کے حساب سے فروخت کیا۔ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ ایک مہینے میں ہی سرسوں کی قیمتیں تقریبا دگنی ہو جائیں گی۔

اسی دوران اترپردیش کے ہی مظفر نگر ضلعے کے کسان سبھاش سنگھ نے اپنی فصل کو گھر میں زخیرہ کر رکھا ہے۔ انھوں نے آن لائن پورٹل پر اپنی سرسوں کی قیمت سات ہزار روپے فی کوئنٹل رکھی ہے اور انھیں امید ہے کہ قیمت میں مزید اضافہ ہو گا۔

عام طور پر گنے کے کاشتکار سبھاش سنگھ نے صرف بونس آمدنی کے لیے اس بار تھوڑی سرسوں اگائی ہے۔

سبھاش سنگھ کہتے ہیں: ‘اس کی قیمت کے پانچ ہزار روپے فی کوئنٹل تک جانے کی توقع تو تھی لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ قیمت سات ہزار روپے تک پہنچ جائے گی۔’

سرسوں کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ یہ ہے کہ اس وقت سرسوں کے تیل کی قیمتیں آسمان چھو رہی ہیں۔ مارکیٹ میں ایک لیٹر تیل کی قیمت 175 روپے ہوگئی ہے، جبکہ خالص کچی گھانی سرسوں کا تیل دو سو روپے فی کلو تک فروخت کیا جارہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا کے کسان آخر چاہتے کیا ہیں؟

کیا انڈیا میں زرعی اصلاحات کے نئے مجوزہ قوانین کسانوں کی ’موت کا پروانہ‘ ہیں؟

انڈین کسان ’پاکستانی ٹڈیوں‘ کا کیسے مقابلہ کر رہے ہیں؟

انڈیا کی حکومت کے صارفین کے امور سے متعلق محکمے کے مطابق اپریل سنہ 2020 میں ملک میں ایک کلو سرسوں کے تیل کی اوسط قیمت 117.95 روپے تھی جبکہ نومبر سنہ 2020 میں یہی قیمت 132.66 روپے فی کلو ہوگئی۔

وزارت کے مطابق مئی 2021 میں سرسوں کے تیل کی اوسط قیمت 163.5 روپے فی کلو تھی۔

امروہہ کے ایک گاؤں میں سرسوں سے تیل نکالنے کا کاروبار کرنے والے عاقب 70 روپے فی کلو سرسوں خرید رہے ہیں اور 200 روپے کلو تیل فروخت کررہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں: ‘ہم نے اس قیمت پر کبھی سرسوں کی خریداری نہیں کی اور نہ ہی ہم نے کبھی اتنا مہنگا تیل فروخت کیا ہے۔’

انڈیا کی حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے ایک سال میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں 55 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ مارکیٹ پر نظر رکھنے والوں کے مطابق قیمتوں میں یہ اضافہ نہ صرف گھریلو سطح پر ہے بلکہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی قیمتیں اثر انداز ہو رہی ہیں۔

سرسوں کے پھول

گھنشیام کھنڈیلوال گذشتہ 45 برسوں سے سرسوں کے تیل کا کاروبار کررہے ہیں۔

35 سال پہلے انھوں نے اترپردیش کے علاقے بریلی میں اپنی کمپنی قائم کی تھی جو اب سالانہ 2500 کروڑ روپے کا کاروبار کرتی ہے۔

گھنشیام کھنڈیلوال کہتے ہیں: ‘میں نے اپنی پوری زندگی میں سرسوں کے تیل کی اتنی زیادہ قیمتیں نہیں دیکھی ہیں۔ جیسے جیسے تیل کی قیمت میں اضافہ ہو رہا ہے سرسوں کی قیمت بھی بڑھ گئی ہے جس کا براہ راست فائدہ کاشتکاروں کو پہنچ رہا ہے۔ ابھی بازار میں سرسوں کی سات ہزار روپے فی کوئنٹل قیمت ہے۔

اگر منڈی کا کمیشن کم کیا گیا تو کاشتکار کو 6600 روپے سے 6800 روپے فی کوئنٹل تک قمیت مل سکتی ہے۔ سرسوں کی کم از کم سپورٹ قیمت 4400 روپے فی کوئنٹل ہے۔’

گھنشیام کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ سرسوں کی قیمتوں میں اضافے کے پس پشت حکومت کی کارفرمائی ہے۔ وہ کہتے ہیں: ‘یہ بھی ممکن ہے کہ کاشتکاروں کو براہ راست فائدہ پہنچانے کے لیے حکومت نے سرسوں کے تیل کی قیمت میں اضافے کی اجازت دی ہو۔’

گھنشیام کھنڈیلوال

گھنشیام کھنڈیلوال کسان ہیں

بین الاقوامی بازار

کھنڈیلوال کہتے ہیں: ‘بین الاقوامی بازار میں خوردنی تیل کی قیمت گذشتہ 13 برس میں اپنی اعلیٰ ترین سطح پر ہے۔ جو تیل 25 سینٹ تک دستیاب تھا وہ اب 65 سینٹ (0.65 ڈالر) کے آس پاس ہے۔

بین الاقوامی سطح پر تیل کے بیجوں سے حاصل ہونے والے خوردنی تیل کی قیمتیں تقریباً دگنی ہوچکی ہیں، جس کا براہِ راست اثر انڈین منڈیوں پر پڑ رہا ہے۔ اگر قیمت میں اضافے کی یہی رفتار جاری رہی تو سرسوں کی قیمت 8000 روپے فی کوئنٹل تک پہنچ سکتی ہے۔’

تیل کی قیمتوں میں اضافے کی ایک اور وجہ کا ذکر کرتے ہوئے کھنڈیلوال نے کہا: ‘پوری دنیا کے ممالک گرین انرجی کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ اس کی وجہ سے بائیو ڈیزل کی کھپت میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ خوردنی تیل بھی اس میں استعمال ہوتے ہیں۔ شاید اسی وجہ سے عالمی منڈی میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

زرعی امور کے ماہر دیویندر شرما سرسوں کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کو خوش آئند علامت سمجھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘کاشتکار اس سے براہ راست فائدہ اٹھا رہے ہیں، یہ زراعت کے شعبے کے لیے اچھا ہے۔’

دیویندر شرما کا ماننا ہے کہ انڈیا میں خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کے پس پشت کہیں نہ کہیں حکومت ہند کا ملائیشیا سے پام آئل کی درآمد پر سخت اقدامات بھی ہیں۔

سرسوں کے کھیت

شرما کہتے ہیں: 'جب ملائشیا نے کشمیر پر تبصرہ کیا تو انڈیا نے ملائشیا سے پام آئل کی درآمد کو مفت کی فہرست سے نکال دیا اور اسے رسٹریکٹڈ کی فہرست میں ڈال دیا۔

انڈیا پام آئل کا بیشتر حصہ ملائشیا سے ہی درآمد کرتا ہے۔ لیکن اب ملائشیا سے اس کی درآمدات تقریبا صفر ہوگئی ہیں۔ اس کا براہ راست اثر ہندوستان کیےخوردنی تیل کے بازار پر پڑ رہا ہے۔’

حکومت ہند نے ستمبر سنہ 2020 میں سرسوں کے تیل میں کسی دوسرے خوردنی تیل کی ملاوٹ پر بھی پابندی عائد کردی ہے۔ شرما کا خیال ہے کہ سرسوں کے تیل کی قیمت میں اضافے کی وجہ بھی یہ اقدام بھی ہوسکتا ہے۔

انھوں نے کہا: ‘حکومت ہند نے ایک بہت اہم اقدام اٹھاتے ہوئے سرسوں کے تیل میں ملاوٹ پر پابندی عائد کردی ہے۔ یعنی سرسوں کے تیل میں کسی دوسرے تیل کی ملاوٹ روک دی گئی۔ اور یہ بھی سرسوں کے تیل کی قیمت میں اضافے کا سبب ہوا ہے۔’

دیویندر شرما کا کہنا ہے کہ اس سے تیل پیدا کرنے والوں کو زبردست فائدہ ہوا ہے۔ اڈانی گروپ انڈیا میں سرسوں کے تیل کا سب سے بڑا کاروباری ہے جس کا تیل فارچیون کے نام سے فروخت کیا جاتا ہے۔

ہندوستان میں سرسوں کے تیل کی منڈی تقریباً 40 ہزار کروڑ روپے کی ہے جبکہ تقریبا 75 ہزار کروڑ مالیت کا خوردنی تیل درآمد کیا جاتا ہے۔

دیویندر شرما کہتے ہیں: ‘سرسوں کے تیل میں ملاوٹ پر پابندی لگانے سے انڈیا میں پام آئل کی درآمد میں کمی آئی ہے۔

یہ اقدامات کاشتکاروں کے لیے فائدہ مند ثابت ہوئے۔ کسان رواں سال گندم کے بجائے سرسوں سے دگنا قیمت حاصل کررہے ہیں۔ تاجر اب خام مال کی تلاش میں ہیں۔’

اس کے علاوہ بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی تیل کی قیمتیں تاریخی بلندی پر ہیں۔

اس کی ایک وجہ چین میں بڑھتی ہوئی طلب ہے۔ تجزیہ کاروں اور صنعت سے منسلک لوگوں کا خیال ہے کہ بین الاقوامی مارکیٹ میں اجناس کی تجارت میں اضافہ ہوا ہے، جس کا خوردنی تیل کی قیمتوں پر بھی اثر پڑا ہے۔

سرسوں کے کھیت

دیویندر شرما کہتے ہیں: 'خوردنی تیل کے ذخیرے بین الاقوامی منڈی میں کئی سالوں سے بڑھ رہے ہیں۔ صرف یہی نہیں بین الاقوامی اجناس کی تجارت میں فوڈ اسٹاک میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ اجناس کی مارکیٹ میں سرسوں کے تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے اور دنیا بھر میں اس میں تیزی بھی دیکھی جا رہی ہے۔'

سینٹرل آرگنائزیشن آف آئل انڈسٹری اینڈ ٹریڈ (سی او او آئی ٹی) کے مطابق رواں سال انڈیا میں سرسوں کی ریکارڈ پیداوار ہوئی ہے۔ انڈیا نے ربیع سیزن کے دوران 89.5 لاکھ ٹن سرسوں کی پیداوار کی تھی جو پچھلے سال کے مقابلے میں 19.33 فیصد زیادہ ہے۔ سنہ 2019-20 میں انڈیا میں 75 لاکھ ٹن سرسوں کی پیداوار ہوئی تھی۔ لیکن اس حد تک کی جانے والی پیداوار بھی ملکی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق انڈیا میں ایک اوسط خاندان سال بھر میں اوسطاً 20 سے 25 لیٹر خوردنی تیل استعمال کرتا ہے۔

انڈیا میں خوردنی تیلوں کی کھپت میں ہر سال اوسطاً دو سے تین فیصد اضافہ ہو رہا ہے۔ لیکن کووڈ کی وبا کے دوران انڈیا میں خوردنی تیلوں کی کھپت میں کمی واقع ہوئی ہے۔

تیل

انڈیا درآمدات پر منحصر ہے

زراعت کے ماہر پروفیسر سدھیر پنوار کہتے ہیں: 'انڈیا میں سرسوں کی پیداوار بھی زیادہ ہوئی ہے اور مارکیٹ میں طلب بھی بہت زیادہ نہیں ہے، ایسی صورتحال میں سرسوں کے تیل کی قیمتوں میں اضافے کی وجہ مصنوعی بھی ہوسکتی ہے۔'

پروفیسر پنوار کہتے ہیں: ‘انڈیا میں خوردنی تیلوں کی قیمت میں اضافہ عالمی مارکیٹ، حکومت ہند کی درآمدی پالیسی اور خوردنی تیلوں کے بڑے درآمد کنندگان کے فیصلوں کا نتیجہ ہے۔ چونکہ خوردنی تیل انڈیا کھانے اور غذائیت کے لیے اہم ہیں لہٰذا گھریلو مارکیٹ درآمدات پر منحصر ہے۔’

پروفیسر پنوار کہتے ہیں کہ انڈیا جیسا زراعت پر مبنی ممالک خوردنی تیل کی طلب کا تقریباً 70 فیصد درآمدات پر انحصار کرتا ہے جو کہ اچھی بات نہیں ہے۔

پروفیسر پنوار کہتے ہیں: ‘سازگار آب و ہوا کے باوجود حکومت نے آئل سیڈ ٹیکنالوجی مشن-1986 جیسی تلہن کی پیداوار کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔

انڈیا میں پام آئل کی پیداوار کا اچھا امکان موجود ہے لیکن شاید سفارتی یا امپورٹ لابی کے اثرات کی وجہ سے حکومت نے ملک میں پام پیداوار کی کوشش نہیں کی۔ انڈیا جو تیل درآمد کرتا ہے اس کا 62 فیصد پام آئل ہے۔’

تیل

تو کیا قیمت میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے؟

پروفیسر پنوار کہتے ہیں: ‘خوردنی تیل کی مہنگائی کی وجہ سے کسانوں کو تھوڑا سا منافع مل رہا ہے لیکن یہ زیادہ وقت نہیں رہے گا کیونکہ حکومت کو مہنگائی کو کم کرنے کے لیے درآمدی ڈیوٹی کو کم کرنا پڑے گا اور چین میں ایک بار خریداری مکمل ہوجانے پر ہو سکتا ہے کہ بین الاقوامی سطح پر بھی قیمتیں کم ہوں گی۔’

جبکہ گھنشیام کھنڈیلوال کا کہنا ہے کہ ‘ہر سات آٹھ برسوں میں تیل کی منڈی میں تیزی آتی ہے، قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ سنہ 2008 میں بھی ایسا ہی ہوا تھا۔ تیل کی قیمت میں بہت اضافہ ہوا تھا لیکن پھر سنہ 10-2009 اس میں کمی آئی۔ تیل کی قیمت ابھی بلند ترین سطح پر ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب قیمتوں میں مزید اضافہ نہیں ہوگا۔ حکومت اور مارکیٹ دونوں ہی چوکس ہیں۔’

خوردنی تیل کی قیمتوں میں اضافے کا اثر عام لوگوں کے بجٹ پر بھی ہوا ہے۔ کم کھپت اس بات کا اشارہ بھی ہے کہ بہت سے لوگ اپنی ضرورت کے مطابق خوردنی تیل خریدنے کے قابل نہیں ہیں۔

لیکن بڑھتی قیمتوں سے کسان خوش ہیں۔

سبھاش سنگھ کہتے ہیں: ‘یہ ہماری بونس آمدنی ہے۔ شاذ و نادر ہی ایسا ہوتا ہے کہ کسان کو اپنی فصل کی پوری قیمت مل جائے، اس بار مل رہی ہے تو اچھا محسوس ہو رہا ہے۔’

جبکہ دیویندر شرما کا کہنا ہے کہ مارکیٹ کو صرف گاہک کے نقطہ نظر سے نہیں دیکھا جانا چاہیے۔ اسے کاشتکاروں اور تیار کرنے والوں کے نقطہ نظر سے بھی دیکھا جانا چاہیے۔ اگر سرسوں کے تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں تو ہم سوال اٹھا رہے ہیں۔ غریبوں کا کیا ہوگا لیکن ہم یہ نہیں سوچ رہے ہیں کہ کسانوں کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔’

وہ کہتے ہیں: ‘ستم ظریفی یہ ہے کہ امیر اور متوسط طبقے کے صارف بھی سستی قیمتوں پر خوردنی تیل چاہتے ہیں۔ میرے خیال میں قیمت میں اضافہ نہیں ہوا ہے لیکن اب خوردنی تیل کی صحیح قیمت مل رہی ہے۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32299 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp