اسد طور پر تشدد کے خلاف احتجاج کا جائزہ


اسد طور پر حملہ ہر صورت میں قابل مذمت ہے اور گھر میں گھس کر مارنا انتہائی تشویشناک ہے۔ تشدد کی ہر شکل معاشرے اور ملک تباہ کر دیتی ہے۔ قومیں بکھر جاتیں ہیں۔ صحافیوں پر حملے معمول بن گیا ہے۔ اسد طور پر حملے کی ویڈیو بھی سامنے آ چکی ہے جس میں کئی پہلو واضح ہیں۔ ویڈیو کی مدد سے حملہ آوروں کو آسانی سے شناخت کیا جاسکتا ہے۔ تحقیقات کے بعد اصل حقائق تک پہنچا جا سکتا ہے کہ حملہ کیوں کیا گیا ہے۔ وجوہات کیا ہیں اور حملہ آور کون ہیں۔

یہ کام مقامی پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کا فریضہ ہے۔ اداروں نے فرض ادا نہیں کیا ہے۔ اس کے پیچھے کیا وجوہات ہیں کہ ملک کے شہری پر گھر میں گھس کر تشدد کیا گیا ہے مگر اداروں نے سنجیدگی سے نہیں لیا ہے۔ اداروں کا طرز عمل بھی کئی سوالوں کو جنم دیتا ہے۔ مگر صحافتی تنظیم کے مظاہرے نے بھی شک و شبہات پر مبنی سوالات چھوڑے ہیں کہ جیسے سب کچھ پہلے سے طے تھا۔

ایک پہلو یہ ہے کہ صحافی یا پروڈیوسر پر تشدد ہوا جس پر صحافیوں کا احتجاج آئینی اور قانونی حق ہے۔ احتجاج کا بنیادی مقصد ظلم اور نا انصافی کے خلاف کھڑے ہونا ہے۔ ریاست کے اداروں سے انصاف کی مانگ کی جاتی ہے۔ پہلا مطالبہ تشدد کرنے والوں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا کیا جاتا ہے تاکہ تحقیقات کے بعد حقائق سامنے لائے جائیں اور قانون کے مطابق حملہ آوروں کے خلاف فوری کارروائی کی جائے۔ ٹریڈ یونینز یا پیشہ ورانہ شعبہ جاتی ایسوسی ایشنز کا طریق ہے کہ جب تک مطالبات پورے نہ کیے جائیں احتجاج جاری رکھا جاتا ہے۔ کسی قسم کی مصالحت یا مفاہمت نہیں کی جاتی ہے۔ مختصر دورانیہ کے احتجاج سے کیا مقاصد حاصل کیے گئے ہیں اور کیا مقاصد حاصل ہوئے ہیں۔ مقدمہ درج ہو گیا ہے۔ حملہ آوروں کے بارے معلوم ہوا ہے۔ کوئی قانونی کارروائی کی جا رہی ہے۔ اگر ان سوالوں کے جواب نہیں میں تو احتجاج ختم کیوں کیا گیا ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ احتجاج کے دوران مقررین نے کیا مطالبات کیے ہیں۔ تحقیقات سے پہلے سب مقررین کو یقین تھا کہ صحافی پر حملہ عسکری اداروں نے کرایا ہے۔ مقررین نے سیاسی تقرریوں میں عساکر کو سخت لہجے میں ہدف تنقید بنایا ہے۔ پی ڈی ایم کے جلسوں میں ایسا لہجہ شاید نواز شریف کا بھی نہیں تھا۔ مقررین کی تقرریوں کا فائدہ کس کو پہنچا اور موضوع سخن کون بنا اسد طور یا مقررین پر بحث ہو رہی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ ہر صحافی سیاسی اور نظریاتی رجحانات رکھتا ہے۔ مگر صحافی کو صحافتی انداز ہی اپنانا چاہیے۔

تیسرا پہلو سوال طلب ہے کہ اگر تشدد خفیہ اداروں کی کارروائی ہے تو اس قدر غیر منظم اور کھلے عام گھر میں گھس جانا اور سی سی ٹی وی کیمروں کی پرواہ نہ کرنا محض ادارے کی بدنامی مطلوب تھی۔ اتنے بڑے ادارے کا صحافی پر اتنا جذباتی پن سمجھ سے بالا تر ہے کہ پلاننگ کے بغیر ہی چڑھ دوڑے اور مار کٹائی کر کے آ گئے۔ اگر خفیہ ادارے کی کارروائی نہیں ہے تو ادارے کا محض یہ کہہ دینا کہ ادارہ ملوث نہیں ہے ناکافی ہے۔ ادارے کو اس میں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنے کی ضرورت ہے۔ ادارے کی ساکھ کا مسئلہ ہے۔ ادارے پر براہ راست انگلیاں اٹھائی گئیں ہیں۔

ادارے کو اپنی صفائی دینے کی بجائے حقائق کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔ یہ ایک سنجیدہ معاملہ ہے۔ اس پر انتہائی سنجیدگی دکھانے کی ضرورت تھی۔ مگر افسوس کہ ایسا لگتا ہے۔ ریاست نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ سب اپنے اپنے مفادات کا تحفظ کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments