ہم سب کاکڑ ڈاٹ کام کے قائد ولولہ کو سلام


ہم سب میں لکھنا شروع کیا تو اندازہ نہیں تھا کہ قائد اعظم، قائد عوام، قائد تحریک اور قائد ملت کے بعد قدرت نے ایک اور قائد کا اہتمام کر رکھا ہے۔ اور قائد ایسے کہ جن کی ولولہ انگیز قیادت کا احساس وہ خود دن میں پندرہ مرتبہ دلائیں گے۔ ہو گا یوں کہ ایک تحریر آئی، قائد نے ایڈٹ کی اور اسے چڑھا دیا (آن لائن پبلش کر دیا، دوبارہ اسی لفظ پر گزارا کیجیے)۔ اب جیسے ہی تحریر اٹھنی شروع ہوئی قائد نے فیل خانے میں یاد کرانا شروع کر دیا کہ یہ صرف اور صرف ان کی ولولہ انگیز قیادت کا نتیجہ ہے۔ ایک دھانسو تحریر آئے گی لیکن عنوان ٹھس ہو گا، قائد عنوان بدلیں گے اور وہ تحریر حسب توقع ہزاروں بار پڑھی جائے گی، یہ بھی انہیں کی پرعزم قیادت کا نتیجہ ہو گا اور فیل خانے کے باسیوں کو اس کا احساس وہ بار بار دلائیں گے۔

فیل خانہ وہ گروپ ہے جہاں ہم سب کے مشاورتی بورڈ کے ممبر موجود ہوتے ہیں اب اسے بمبیا اردو کا شور والا فیل سمجھا جائے یا ہاتھی والا فیل، ہر دو مطلب پورے طریقے سے نکالے جا سکتے ہیں کہ ادھر بری کیا اچھی تحریر لکھنے پر بھی بہت شور مچتا ہے اور فیل خانے کے رکن کے ساتھ موقعے پر ہی انصاف کر دیا جاتا ہے، اور ہر رکن علمی لحاظ سے ہے بھی ہاتھی جیسا بھاری بھرکم۔

جب ایسا بار بار ہونے لگا تو وسی بابے نے قائد کا نام قائد ولولہ انگیز رکھ دیا، یہی نام بار بار لکھتے لکھتے گھس گیا تو قائد ولولہ کہلایا۔ عدنان خان کاکڑ فیل خانے میں رہنے والوں کے قائد ولولہ کہلائے۔

ایک سنہرا دن ہو گا، قائد ایک تحریر لگائیں جسے حسب معمول اٹھنا ہو گا۔ پہلے حسب معمول کی بات ہو جائے۔ آپ قائد کی تعریف کریں تو حرام ہے کہ وہ روایتی انکسار یا کسی بھی ایسی لغو چیز سے کام لیں۔ وہ جانتے ہیں کہ زیادہ انکساری یا کسر نفسی انسان کو عین ویسا بنا دیتی ہے جیسا وہ انکسار دکھاتے ہوئے اپنے بارے میں دوسروں کو بتا رہا ہوتا ہے اور پھر دوسرے اسے واقعی فارغ قسم کا ادیب سمجھنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو قائد ایسا کچھ نہیں کرتے۔ ہوتا کچھ ایسے ہے؛

”واللہ قائد کیا لکھ دیا یار آج، قسمے مزا آگیا!“
”جی ہاں، حسب معمول میں نے اچھا ہی لکھا آج۔ آپ لوگوں کو اچھا طنز و مزاح پڑھنے کے مواقع میں اکثر دیتا رہتا ہوں۔ “
تو قائد جانتے ہیں کہ وہ اچھا لکھتے ہیں اور یہ عین معمول ہے۔ قائد بے شک ایک خود شناس ترین آدمی ہیں۔

اب ہو گا یہ کہ اس سنہرے دن قائد کچھ لکھیں گے اور وہ تحریر حسب معمول اٹھنی شروع ہو گی تو قائد ایڈیٹنگ والی سائیڈ پر جا کر اس وقت کی ٹاپ ٹین تحریریں نکالیں گے، حسب معمول ان کی تحریر پہلے نمبر پر ہو گی، قائد اس پر سرخ دائرہ لگائیں گے اور فیل خانے میں بھیج دیں گے۔ ساتھ ہی یہ لکھا ہو گا، ”اور آپ کی لازوال قیادت کا ایک اور کارنامہ“ یا کچھ بھی ایسا لکھا ہو گا جس سے قوم انسپائریشن لے اپنے قائد کے قدم سے قدم ملانے کے لیے کچھ لکھ مارے۔

اس سے بھی زیادہ شاندار کام تب ہوتا ہے جب قائد فارغ ہوں۔ ویسے تو وہ چوبیس گھنٹے مصروف ہوتے ہیں اور لفظ فارغ کاٹنے کا بھی انہیں اختیار ہے لیکن قائد کبھی کبھی واقعی میں فارغ ہو جاتے ہیں۔ ان کی بارہ گھنٹے کی فرصت کم از کم چار اور زیادہ سے زیادہ ان گنت تحریروں کو اس دنیا میں لے کر آتی ہے اور ظاہری بات ہے کہ سب انہی کی ہوتی ہیں، اور حسب معمول سپر ہٹ ہوتی ہیں اور وہ سب ایسے مختلف موضوعات پر ہوتی ہیں کہ انسان سوچتا رہ جائے، یار قائد واقعی اینا ویہلا سی یا لکھن واسطے اینے پنج ست بندے بٹھائے نیں۔ مثلاً، ترکی اور اسلامی سوشلزم، عمران خان یو ٹرن نہیں مارتے، کیا عورت غلام ہے؟، جمیعت اور آج کل کے بہت سے مسائل وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب ایک ہی دن میں اوپر تلے آئیں گی اور مختلف جگہوں پر سج جائیں گی۔ شام کو قائد فیل خانے میں ایک رینکنگ شاٹ (تحریروں کی درجہ بندی بلحاظ مناظر۔ انگریزی بہتر تھی!) بھیجیں گے اور اس میں پانچ عنوانات کے گرد سرخ دائرے لگے ہوں گے۔ حسب معمول وہ سب عظیم قائد کی تحریریں ہوں گی اور وہ شروع کے پانچ نمبروں پر چھائی ہوں گی۔ باقی پانچ میں ایک نیوز ڈیسک ہو گا، ایک فرض کر لیجیے گوشہ ادب پورا کا پورا ہو گا، ایک آدھی تحریر وجاہت مسعود کی لڑکھڑا رہی ہو گی، دور کہیں فرنود عالم، رامش فاطمہ، لینہ حاشر، یا ظفر بھائی نے لکھ دیا ہو گا تو اس کے دوسرے دن کے ویوز جگمگا رہے ہوں گے، کیوں کہ لکھنے کے پہلے دن عموماً یہی لوگ ٹاپ ویور شپ پر موجود رہتے ہیں۔ ظفر اللہ خان کاکڑ اور عبدالحئی کاکڑ بھی سپر ہٹ پوسٹیں دیتے پائے گئے تو ایسے ہی کسی دن یہ سوچا گیا کہ بہت جلد ہم سب کا نام ہم سب کاکڑ ڈاٹ کام رکھ دیا جائے کیوں کہ مقبولیت کے سارے پائیدانوں پر تو قائد کی قیادت میں کاکڑ ہی چھائے ہوئے ہیں۔

قائد سے ویسے آپ جا کر ملیں، شاید کسی بات پر شرما بھی جائیں لیکن انکساری؟ اس سے انہیں نفرت ہے۔ وہ شرما بھی رہے ہوں گے لیکن ساتھ ساتھ اپنی عظمت کا اعتراف کروانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑیں گے۔

قائد کی زندگی کا دوسرا مقصد الاؤ جلا کر اس پر ہاتھ تاپنا ہے۔ پہلا مقصد حسب معمول اچھا لکھنا اور قوم کو کنفیوز رکھنا ہے۔ ان دو مقاصد کے حصول میں قائد لوگوں کے ہاتھ اس قدر لعنت ملامت کا نشانہ بنتے ہیں کہ عام بندہ ہو تو ان باکس میں ہی غش کھا جائے۔ یہ مگر تفریح لیتے ہیں۔ تفریح لینا ایک نیا سلینگ سمجھ لیجیے لیکن اس محاورے کا استعمال اگر کہیں بیٹھتے دیکھنا ہے تو وہ قائد ہیں۔ جس وقت کوئی نیا تبری ان پر ہوتا ہے ان کے چہرے پر نور دیکھنے والا ہوتا ہے۔ آنکھیں ایک دم چمک اٹھتی ہیں بلکہ اک چراغ جلتا ہے اور سو چراغوں کو یہ پھر خود جلا لیتے ہیں۔ قائد باقاعدہ اس وقت نشے میں ہوتے ہیں جب وہ کسی سے بحث کر رہے ہوتے ہیں۔ بعض اوقات چار چار جگہوں پر یک مکھی لڑتے ہیں اور کبھی ایک ہی جگہ ہمارے ساونت قائد چومکھی لڑ رہے ہوتے ہیں۔ مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ سامنے والا جس بھی راہ پر لگا ہوا ہے اسے اتنا کنفیوز کر دیں کہ وہ اپنے راستے پر چلتا بھی رہے تو ڈگمگ ڈولتا پھرے کہ یار واقعی ایسا ہے یا وہ کاکڑ کہیں سچ نہ کہہ رہا ہو۔

\"\"قائد کی عظمت کی ایک اور دلیل یہ ہے کہ اکیلے وہ آج تک اتنا پڑھے گئے ہیں جتنے کل ملا کر ہم سب کے باقی ادیب اور خبریں وغیرہ پڑھی جاتی ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ پہلی وجہ تو قائد کا حسب معمول اچھا لکھنا، زبان پر عبور، قلم پر گرفت، سوچ کا ارتکاز، معلومات عامہ پر نظر اور ایسی بہت سی چیزیں ہو سکتی ہیں لیکن ایک وجہ دوسری ہے۔

دوسری وجہ قائد کا بروقت لکھنا ہے۔ وہ سائٹ چلانا جانتے ہیں۔ قائد مری سے مری ویب سائٹ کے حکیم ہیں۔ وہ دوا دینے کے بجائے صرف نسخہ لکھتے ہیں۔ نسخہ تھوڑا طویل ہو سکتا ہے لیکن پڑھنے والا بے نقط سناتا ہے۔ قائد مہذب انداز میں جواب دیتے ہیں اور یوں بقول ان کے، فینز میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ وہی فین دوسرے فینز کو گھیر کر لاتے ہیں کہ یار ایس بندے دا کوئی علاج کرو۔ دوسرے فینز تیسرے فین کو یہ کیس ریفر کرتے ہیں اور یوں کہیں نہ کہیں سے قائد کے کسی ایک مضمون کا جواب تیار ہو کر پہنچ جاتا ہے۔ اصل میں یہ شروعات ہوتی ہے قائد کے نئے تین مضامین کی۔ اور یوں قائد بغیر تھکن کے موتی رولتے چلے جاتے ہیں۔ قائد کے فینز یاد رکھیں کہ ان سے بحث کا مطلب چڑ کر ہار ماننا ہے۔ وہ پہلے مان لیں تو ان کے توے سے بچا جا سکتا ہے۔ قائد کے ہتھے چڑھنا اس دائرے میں گھومنا ہے جسے انگریزی میں وشس سرکل کہا جاتا ہے۔

عام دانشور جانتے ہیں کہ وہ کچھ نہیں جانتے۔ قائد بھی یہ جانتے ہیں کہ وہ سب دانشور کچھ نہیں جانتے۔ قائد لیکن یہ بھی جانتے ہیں کہ وہ سب کچھ جانتے ہیں اور اپنا علم یا مرتبہ چھپانا ان کے نزدیک کفر ہے۔

اے قائد ولولہ انگیز، ہم سب آج کے مبارک دن آپ کی عظمت کو سلام کرتے ہوئے امن و آشتی کا پرچم لہراتے ہیں۔ ہم اعتراف کرتے ہیں کہ آپ کا ہر عمل ہم سب کی فلاح اور بہتری کی طرف ایک اٹھتا قدم ہوتا ہے۔ ہمیں تسلیم ہے کہ اس واہیات دور میں کہ جب ٹھیک آدمی نہیں ملتا، ہمیں آپ کی صورت ایک قائد نصیب ہوا۔ وہ قائد جس نے ہم سب کا ہاتھ پکڑ کر ہمیں چلنا سکھا دیا۔ اے قائد، اے ہم سب کے عظیم ترین لیڈر، خدا ہمیں آپ کے جھنڈے تلے ہمیشہ اکٹھا رکھے۔ ہم اگلے بیس برس ایسے ہی سالانہ فضائل و مناقب آپ کے بیان کریں اور آپ ہنس کر کہیں، یہ تو میں پہلے ہی جانتا ہوں۔ کوئی نئی بات کیجیے!

حسنین جمال

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

حسنین جمال

حسنین جمال کسی شعبے کی مہارت کا دعویٰ نہیں رکھتے۔ بس ویسے ہی لکھتے رہتے ہیں۔ ان سے رابطے میں کوئی رکاوٹ حائل نہیں۔ آپ جب چاہے رابطہ کیجیے۔

husnain has 496 posts and counting.See all posts by husnain

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments