گھوٹکی ٹرین تصادم: جائے حادثہ پر عینی شاہدین اور زخمیوں نے کیا دیکھا؟

ریاض سہیل - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی


’ٹرین کی رفتار سو کلومیٹر فی گھنٹہ سے زیادہ تھی، ڈرائیور نے بریک لگا کر بہت کوشش کی لیکن ہماری گاڑی ٹریک پر موجود بوگیوں سے ٹکرا گئی۔‘

عبد الرحمان فیصل آباد سے رات کو آٹھ بجے سرسید احمد ایکسپریس میں سوار ہوئے تھے۔ انھوں نے بتایا کہ ٹرین سو سے زیادہ سپیڈ میں جا رہی تھی اور وہ جاگ رہے تھے جب لگ بھگ صبح کے پونے چار بجے ایک زوردار جھٹکا لگا۔ ڈرائیور نے ٹرین کو روکنے کی کوشش کی لیکن وہ دوسری بوگیوں سے ٹکرا گئی۔

پاکستان کے صوبہ سندھ میں گھوٹکی کے قریب سرسید ایکپریس اور ملت ایکسپریس میں تصادم کے نتیجے میں 32 سے زائد افراد ہلاک اور سو سے زائد زخمی ہو گئے ہیں جنھیں میرپور ماتھیلو، رحیم یار خان سمیت دیگر ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ہے جبکہ متعدد مسافر تاحال بوگیوں میں پھنسے ہوئے ہیں جنھیں نکالنے کے لیے امدادی کارروائیاں جاری ہیں۔

دل دہلا دینے والے مناظر

عبد الرحمان نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ملت ایکسپریس کی کچھ بوگیاں ٹریک سے اُتر کر دوسرے ٹریک پر آ گئیں تھیں جبکہ ٹرین خود آگے چلی گئی تھی۔۔۔ دل دہلانے والے مناظر تھے اور کچھ لوگوں کے جسم حصوں میں بٹ گئے تھے۔۔۔ ہر طرف زخمیوں کی چیخ و پکار تھی، یہ مناظر دیکھنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔‘

اس واقعے کے عینی شاہد منیر احمد گرگیج نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ حادثے کے فوراً بعد جائے وقوع پر پہنچے تھے کیونکہ وہ جائے حادثہ سے تھوڑی دور ہی رہتے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ وہ جائے حادثہ کا منظر دیکھ کر برداشت نہیں کر سکے۔ ’میرے پاس وہ الفاظ ہی نہیں ہیں کہ اس دردناک منظر کو بیان کر سکوں۔‘

’ہر طرف انسانی خون پھیلا ہوا تھا، کچھ مسافر بوگیوں میں پھنسے ہوئے تھے اور زخمی درد سے کراہ رہے تھے، اس وقت امدادی کارکن بھی آ گئے اور مقامی سیاست دان بھی پہنچ گئے لہذا ان لوگوں کو ہٹایا جانے لگا جو صبح سے زخمیوں کو نکال رہے تھے۔‘

ہسپتال میں داخل ایک زخمی جو ٹرین میں اکیلے سفر کر رہے تھے، انھوں نے مقامی صحافی غلام حسن مہر کو بتایا ’ٹرین گری اور سیٹیں ٹوٹ گئیں۔ میں بڑی مشکل سے باہر نکلا ہوں لیکن میرے پیر ٹوٹ گئے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا ’بڑی حالت خراب تھی۔ پتا نہیں کتنی عورتیں اور بچے دب گئے ہیں اندر۔‘

ایک اور زخمی کے مطابق ’وہ کولڈ ڈرنک لینے کے لیے گاڑی سے نیچے اترے اور انھیں واپس آ کر بیٹھے ہوئے چند سیکنڈ ہی گزرے ہوں گے کہ اچانک ایک دم شور ہوا اور ٹرین پٹری سے اُتر گئی۔ کافی لوگ اوپر نیچے گر گئے۔۔۔ پھر دوسری ٹرین نے آ کر مارا جس سے اور زیادہ نقصان ہوا۔۔۔ بے شمار زخمی تھے۔۔۔ کوئی جا کر کھیتوں میں گرا تو کوئی اُدھر پڑا ہوا تھا۔‘

محمد نعمان بھی سر پھٹنے کے بعد زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے۔ انھوں نے مقامی صحافی غلام حسن مہر بتایا کہ ’ہم سرسید ایکسپریس کے کیبن میں تھے۔ تقریباً 3:45 پر ٹرین ٹکرائی اور کیبن دب گیا۔ میں، میری اہلیہ اور تین بچے پھنس گئے تھے۔۔۔ میں نے بڑی مشکل سے انھیں نکالا۔‘

بوگیاں دب گئیں

ڈھرکی کے صحافی لال قادر جو جائے وقوع پر موجود ہیں کا کہنا ہے کہ دو بوگیاں ایسی ہیں جو مکمل طور پر دب چکی ہیں اور جن میں سے ابھی لوگوں کو نکالا نہیں جا سکا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ روہڑی سے ہیوی مشنری طلب کی گئی تھی جو اب پہنچ گئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

گھوٹکی ٹرین تصادم: 32 افراد ہلاک، متاثرہ بوگی میں پھنسے مسافر نکالنے کے لیے آپریشن جاری

تیزگام حادثے میں قصوروار کون: مسافر یا ریلوے انتظامیہ؟

ٹرین میں سکیورٹی کی ذمہ داری کس کی؟

ڈی ایچ او گھوٹکی ڈاکٹر منظور احمد نے بتایا ہے کہ اب تک 32 لاشیں نکالی جا چکی ہیں جبکہ 100 سے زائد زخمی ہیں، ان کا کہنا تھا کہ جائے حادثہ مرکزی شہر سے دور ہے اس لیے امدادی گاڑیاں پہنچنے میں دشواری ہو رہی ہے۔

ایڈیشنل ڈی ایچ او عبدالرزاق نے بی بی سی کو بتایا کہ انجن ایک بوگی پر چڑھا ہوا ہے اور ہیوی مشنری کی عدم دستیابی کی وجہ سے لوگوں کو نکالنے میں مشکلات پیش آ رہی تھیں لیکن اب مشنری پہنچ رہی ہے۔

مقامی لوگ مدد کے لیے پہنچ گئے

مسافر عبدالرحمان نے بتایا کہ حادثے کے بعد مقامی لوگوں نے بہت مدد کی۔

اُن کا کہنا تھا کہ ’اس وقت بہت اندھیرا تھا اور آس پاس کے لوگ موٹر سائیکلوں پر پہنچنا شروع ہوئے۔ انھوں نے موٹر سائیکلوں اور موبائل کی روشنی سے زخمیوں اور لاشوں کو نکالا، پانچ بجے کے قریب سورج کی روشنی ہوئی اور اس وقت تک مقامی پولیس اور ایمبولینسیں بھی پہنچ گئیں۔‘

انھوں نے بتایا ’محفوظ رہنے والے مسافروں کو ٹریکٹر ٹرالیوں اور موٹر سائیکلوں پر سوار کر کے ڈھرکی پہنچایا گیا اور راستے میں انھیں چائے اور ناشتہ بھی کرایا گیا، اور اب وہ بس کے ذریعے کراچی کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔‘

مقامی صحافیوں کے مطابق آس پاس کے لوگوں نے اپنے گھروں سے اجرک اور چادریں لا کر لاشوں پر ڈالیں جبکہ مسافروں کے لیے پانی کے کولر اور ناشتے کا بھی بندوبست کیا گیا تھا۔

میں زندہ ہوں

حادثے میں متاثر ہونے والی بوگیوں میں دو بزنس کلاس کی بوگیاں شامل ہیں۔ صحافی الھورایو بزدار کے مطابق ایک خاتون نے دبی ہوئی بوگی سے اپنے رشتے داروں سے ٹیلیفون پر رابطہ کیا ہے اور بتایا ہے کہ وہ بوگی نمبر چھ کی نشست نمبر 13 پر موجود ہیں اور ان کی حالت خراب ہے۔

اس خاتون کے رشتے داروں نے ضلعی انتظامیہ سے رابطہ کیا ہے اور حکام اس بوگی کو کاٹ کر خاتون کو ریسکیو کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp