مہذب دنیا اور ہم


گزشتہ دنوں انٹاریو لندن، کینیڈا میں ایک مسلم خاندان کے چار افراد کو ایک قاتلانہ حملے میں ٹرک ڈرائیور نے قتل کر دیا جبکہ زندہ بچنے والا بچہ شدید زخمی ہے۔ پاکستان سمیت دنیا بھر نے اس اندوہناک واقعہ کی شدید مذمت کی ہے اور متاثرہ خاندان سے افسوس اور یکجہتی کا اظہار کیا۔ کینیڈا پولیس نے ٹرک ڈرائیور کے آدھے گھنٹے میں حراست میں لے کر گرفتار کر لیا اور اس واقعہ کو نفرت پر مبنی حملہ قرار دیا جبکہ اس کے ساتھ کینیڈین وزیر اعظم سمیت اعلیٰ عہدیداران فوراً واقعہ کا نوٹس لیتے ہوئے واضح طور پر بتایا کہ اسلاموفوبیا کی ہمارے ملک میں گنجائش نہ ہے۔ کینیڈا میں مقیم شہری اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔

وزیر اعظم عمران خان نے غم زدہ خاندان سے افسوس کا اظہار کیا اور واقعہ کی مذمت کرتے ہوئے اس حملے کو اسلاموفوبیا کا نتیجہ قرار دیا۔ اگر مغرب میں اسلاموفوبیا کا ذکر کریں تو حالیہ سالوں میں ایسے بہت سے واقعات ہوئے ہیں جن میں مسلمانوں کو ٹارگٹ کر کے قتل کیا گیا۔ نیوزی لینڈ میں تو مسجد میں گھس کر دوران نماز حملہ آوروں نے نمازیوں کو شہید کر دیا اس کے علاوہ ڈنمارک سمیت دیگر مغربی ممالک میں بہت سے واقعات ہوئے جنہوں نے اسلاموفوبیا کے بیانیے پر مہر ثبت کر دی۔

مگر اس سب میں ایک کردار جو قابل ذکر رہا وہ تو وہاں کی حکومتوں انتظامیہ اور مقامی لوگوں کا کردار۔ کینیڈا میں واقعہ کے فوراً بعد پولیس نے قاتل کو گرفتار کر لیا، وزیر اعظم سمیت اعلی عہدیداران نے افسوس کا اظہار کیا۔ آج وہاں مقامی کمیونٹی نے دعائیہ تقریبات کے ذریعے متاثرین سے یکجہتی کے کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ نیوزی لینڈ میں بے شمار قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا مگر جس طرح سے وہاں کی وزیر اعظم نے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی دکھائی پارلیمنٹ نے قانون سازی کی اور ملک کو چند دن میں ذاتی اسلحے سے پاک کر دیا، ملزمان کو عدالتوں نے سزائیں بھی دے دیں، وہاں کے معاشرے نے متاثرین کے ساتھ دعائیہ تقریبات اور چیریٹیز کے ذریعے اظہار یک جہتی کی اگرچہ اس سب سے وہ لوگ تو زندہ نہیں ہوئے مگر متاثرین کو ضرور تسلی اور تشفی ملی، اور مقامی کمیونٹی کو احساس محرومی اور عدم تحفظ کے احساس سے نکلنے میں مدد ملی۔

اگرچہ کینیڈا کا واقعہ انتہائی دلخراش واقعہ جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے اور پورے دل سے ان نیک روحوں کی مغفرت کے لئے دعا گو ہیں۔ اسی دور میں ہمارے ملک میں دیکھیں تو مذہب کے نام پر بلوچستان میں ہزارہ کمیونٹی کے لوگوں کو قتل کیا گیا، کراچی میں تابیتا نامی نرس پر دوران ڈیوٹی تشدد اور مقدمہ درج کیا گیا، فیصل آباد میں نرسز پر مقدمہ اور جان سے مارنے کا حملہ کیا گیا، لاہور میں ہسپتال میں نرسز کو عبادتی سرگرمیوں سے روکا گیا اور عدالت میں دوران ٹرائل ملزم کو قتل کر دیا گیا۔

مگر سٹیٹ کے کسی عہدیدار نے ضرورت محسوس نہیں کی کہ ایسے واقعات میں مذمت کر دیں یا واقعات کا نوٹس لے کر کوئی جامع تفتیش ہی کی گئی ہو۔ سندھ پولیس نے تابیتا کو بے گناہ کر بری کیا ہی تھا کہ دو دن بعد تابیتا پر پھر ایف آئی آر دے دی۔ شمع اور شفقت مسیح کو ہائیکورٹ نے 8 سال بعد ان پر الزامات سے بردی کر دیا۔ مگر مجال ہے کسی سرکاری فورم پر ان سب واقعات کو شہریوں کا ایشو مانا گیا ہو یا یہ سمجھا گیا ہو کہ کہیں ہمارے شہری عدم تحفظ کا شکار تو نہیں ہو رہے، اگر کسی سے پارلیمنٹ میں کوئی بل پیش بھی کر دیا تو وہ کثرت رائے سے خارج ہو جاتا ہے۔ بلکہ اسمبلی فلور پر اقلیتی ایم پی اے کو یہ کہہ کر بات کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ تم تو خیراتی سیٹ پر اسمبلی آئے ہو۔

مہذب دنیا اپنے ملک میں موجود شہریوں کو تحفظ دیتی اور ان کے بنیادی حقوق کی فراہمی کے ساتھ ان حقوق کا دفاع کرتی ہیں۔ مگر ہمارے ملک میں ہماری گورنمنٹ کو اپنے شہریوں سے زیادہ دنیا بھر کی فکر ہے اور ہم دنیا کو سکھانے چلے جاتے ہیں کہ شہریوں کی حفاظت کیسے کرنی ہے۔ یورپی یونین میں کچھ دن قبل پاکستان میں موجود اقلیتوں کے حفاظت پر زور دیا گیا تو حکومتی نمائندوں نے بجائے آئندہ اپنے شہریوں کے حفاظت کرنے کے دھمکیاں دینا شروع کر دیں کہ غلط رپورٹنگ کرنے والوں کے خلاف مقدمات درج ہوں گے اور ان دھمکیوں کو کچھ دن ہی گزرے تھے کہ یورپی قرارداد کے مرکزی کردار کو ہائیکورٹ نے بے گناہ قرار دے کر بری کر دیا۔ یہ ہیں ہم اور یہ ہیں ہماری ترجیحات کہ ہم ساری دنیا کو سکھائیں گے مگر ہمیں کوئی سکھانے کی غلطی نہ کرے کیونکہ ہم سے زیادہ مغرب کو کوئی نہیں جانتا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments