پاکستان میں ٹیلیویژن کے پہلے پانچ سال: چند یادیں


پاکستان میں ٹیلیویژن سروس کا آغاز 1964 میں لاہور سے ہوا ۔ تب میری عمر گیارہ برس تھی۔ یہ سن کر حیرت ہوتی کہ اب تک ہم ریڈیو کے ذریعے دور بیٹھے ہوئے جن لوگوں کی باتیں سنتے تھے اب انہیں بات کرتے دیکھ بھی سکتے تھے، بلکہ وہ سب کچھ دیکھ سکتے تھے جو سنیما ہاﺅس میں دکھائی جانے والی فلموں میں دیکھتے تھے۔ فلم کے معاملے میں میرا تجسس کافی کم ہو چکا تھا۔ میرے ننھیال ساہیوال ( منٹگمری ) میں تھے۔ وہاں ایک سنیما کے مالک کی بیٹی میری خالہ شکیلہ کی سہیلی تھیں۔ ان کے توسط سے ہمیں پروجیکٹر روم دکھایا گیا اور فلم بنانے اور اسے دکھانے کا طریقہ کار بتایا گیا۔ پھرجب میں نے تاریک ہال میں بیٹھ کر پروجیکٹر روم سے نکلتی ہوئی روشنی کی شعاعیں ہال سے گزر کر پردہ سیمیں تک جاتی دیکھیں تو یہ جادو کسی حد تک کھوپڑی میں اتر گیا۔ لیکن یہ ٹیلیویژن؟ یہ میرے لیے ناقابل فہم تھا۔

 اتفاق کی بات ہے کہ اسی سال پاپا کو ریڈیو پاکستان میں سٹاف آرٹسٹ کی حیثیت سے معقول مشاہرے (چار سو روپے ماہانہ) پر ملازمت مل گئی تھی۔ اس سے پہلے انہوں نے مختلف ملازمتیں کی تھیں جن کا معاوضہ بس اتنا ہوتا کہ ہم اپنی بنیادی ضروریات پوری کر تے۔ اب چند ماہ کی بچت کے بعد ہم ٹی وی خرید نے کے متحمل ہو سکتے تھے لیکن والدہ کا کہنا تھا کہ اس سے میری اور میرے چھوٹے بھائی حسن کی پڑھائی کا ہرج ہوتا۔ ان کا اصرار تھا کہ جب تک ہم اچھے نمبروں سے میٹرک پاس کر کے مطلوبہ کالج میں داخلہ لے کر نہ دکھا دیں، گھر میں ٹی وی کا داخلہ ممنوع سمجھا جائے۔

میں اس وقت ساتویں جماعت میں تھا۔ حساب لگایا تو جانا کہ میرے میٹرک کے امتحان مارچ 1968میں ہونا تھے اور حسن کے اس سے اگلے سال۔ چنانچہ اب چار ساڑھے چار سال ہمیں ٹی وی اپنے ان میزبانوں کے ہاں دیکھنا تھا جن سے ہم ملنے جاتے۔ ایک دن ہمارے ایک پڑوسی دوست طلعت فیاض نے دوستوں کے حلقے میں یہ خوشخبری سنائی کہ اس کے تایا نے ٹیلیویژن خرید لیا تھا۔ سو ہم باجماعت ان کے گھر پہنچے۔ ٹی وی سکرین بلیک اینڈ وائٹ تھی لیکن ہم نے اس سے زیادہ خوشنما مناظر پہلے کبھی نہیں دیکھے تھے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ روز روز کسی ایک گھر میں جا کے یہ تفریح نہیں ہو سکتی تھی لہذا ہم میں سے ہر ایک نے گویا یہ ذمے داری سنبھال لی کہ جب اس کا کوئی واقف ٹی وی خریدے تو وہ پوری ٹیم کے لیے کم از کم ایک دن کی بکنگ کا انتظام ضرور کرے۔ ہم یہ سوچ سوچ کے حیران ہوتے کہ جس گھر میں ٹی وی ہو اس میں رہنے والوں کو کیسا لگتا ہو گا۔ یعنی بس ایک بٹن دبانا ہوتا۔ کیا بات ہے!

ملک میں خشک سالی کی صورت حال پیدا ہو چلی تھی۔ کسی نے استاد امانت علی خان سے کہا کہ اکبر اعظم کے دور میں میاں تان سین نے راگ ملہار گایا تھا تو بادل کھنچے چلے آئے اور چھم چھم برسے۔ آپ اپنے عہد کے تان سین ہیں، کچھ کریں۔ انہوں نے کہا کہ دعا تو وہ روز کرتے ہیں، چلیں اس طرح بھی سہی۔ لیکن اگر نا صر کاظمی کچھ لکھیں تو تاثیر بڑھ جائے گی۔ ناصر نے دعا لکھی۔ اس زمانے میں تمام پروگرام براہ راست نشر ہوتے تھے۔ جس شام استاد کو گانا تھا اس دن صبح سے آسمان پراکا دکا بادل منڈلاتے نظرآئے۔ ہم نے ان کا پروگرام اپنے پڑوسی طفیل خان صاحب کے ہاں دیکھا۔ انہوں نے اپنا ٹی وی سیٹ چھت پر رکھاتھا تاکہ ان کے تمام اہل خانہ اور مہمان سہولت سے بیٹھ سکیں۔ وقت معینہ پر استاد نے آغاز کیا: اے داتا بادل برسا دے/فصلوں کے پرچم لہرا دے۔ ابھی گیت ختم نہیں ہوا تھا کہ بوندا باندی شروع ہوگئی۔ پوری قوم کی دعا ایک گائیک اور شاعرکے فن میں مرکوز ہو ہو گئی تھی۔ اس واقعے کا شہر میں کافی عرصہ تذکرہ ہوتا رہا۔ اس گیت کی تاریخ تصنیف ’کلیات نا صر‘ کے مطابق 2فروری 1967ہے۔

ہمارے گھر سے ملحق مکان کی دوسری منزل سبطین ماجد صاحب نے کرائے پر حاصل کر لی۔ وہ نوریچ انشورنس کمپنی میں مینیجر تھے۔ سیڑھیاں چڑھتے ہی جو کمرہ تھا اس کے ایک کونے میں ٹی وی رکھا تھا جو کمرے کے اندرونی دروازے کے ذریعے دوسرے کمرے سے بھی دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ انیس انچ سکرین کا فلپس ٹی وی تھا۔ سبطین صاحب، اللہ ان کے درجات بلند کرے، اتنے شفیق انسان تھے کہ انہوں نے اپنے جاننے والوں کو یہ دعوت دے رکھی تھی کہ وہ جب چاہیں ان کے گھر آکر ٹی وی دیکھیں۔ چنانچہ ان کے یہ دونوں کمرے اکثر مہمانوں سے بھرے ہوتے۔ ان کا گھر ایک طرح سے کمیونٹی سینٹر بن گیا تھا۔ پروگرام شام پانچ یا چھ بجے شروع ہوتے اور رات دس بجے قومی ترانے اور لہراتے ہوئے قومی پرچم کے ساتھ ختم ہوتے۔ ہفتے کی رات کو فیچر فلم بھی دکھائی جاتی۔ ہم دو پروگرام خاص طور سے دیکھتے؛ الف نون اور کسوٹی۔ خبریں معلومات افزا ہوتیں اور اشتہار پر لطف۔ کچھ اشتہار ہمیں ازبر ہو گئے۔ ”چائے چاہیے، کونسی جناب؟ لپٹن عمدہ ہے، لپٹن لیجئے۔ “ یہ خریدار روزینہ (اداکارہ ) اور دکاندار نرالا (اداکار ) کے مابین مکالمہ تھاجس کے بعد نرالا لکڑی کی ایک چھوٹی سی سیڑھی کی مدد سے شیلف پر سے چائے اتارتا ۔ ایک اینیمیٹڈ (animated) اشتہار فلپس کے بلب کا تھا۔ ایک شخص جس کا گھر مناسب روشنی سے محروم تھا اپنی ہمسائی کو مدعو کرتا ہے تو وہ انکار کر دیتی ہے:

Won’t you come to my house tonight?

 No, never, no.

 لیکن جب اس کا گھر روشن بلب سے جگمگانے لگتا ہے تو اسے اپنے سوال کا جواب Yes, Richard, yes! کی صورت میں ملتا ہے۔

کسوٹی کراچی ٹی وی کا ایک عمدہ پروگرام تھا جو تفریح کی تفریح تھا اور تعلیم کی تعلیم۔ اس کے میزبان قریش پور، افتخار عارف اور عبیداللہ بیگ تھے۔ مہمانوںکا تعلق زندگی کے مختلف شعبوں سے ہوتا۔ مہمان کسی شخصیت، چیز، جانور یا پرندے کا نام لکھ کر قریش پور کو دیتے اور یہ ناظرین کو بھی دکھایا جاتا۔ افتخار عارف اور عبیداللہ بیگ بیس ایسے سوالوں کی مدد سے ، جن کے جواب صرف ہاں یا نہیں میں دیے جا سکتے، اسے بوجھنے کی کوشش کرتے۔ اگر وہ اس کوشش میں کامیاب نہ ہو پاتے تو مہمان جیت جاتا اور اسے انعام کے طور پر کوئی تحفہ دیا جاتا۔ پروگرام لائیو ہوتا تھا۔ یہ ٹیم کبھی کبھی لاہور بھی آتی۔ ایک پروگرام میں پاپا کو بھی مدعو کیا گیا۔ انہوں نے لکھا: ” مرتجس: رسول اللہ کا گھوڑا جو انہوں نے امام حسینؑ کو دیا۔ “ میزبان سات آٹھ سوالوں میں ہی اس گھوڑے تک پہنچ گئے۔ ایک نے کہا، ”ذوالجناح۔ “ پاپا نے کہا ”نہیں۔ “ دوسرے نے کہا، ”دلدل“۔ جواب وہی رہا۔ قریش پور صاحب نے کہا کہ ناصر صاحب چاہتے ہیں کہ آپ اس کا نام بتائیں۔ یہ نام میزبانوں کے ذہن میں نہیں آیا۔ پاپا کو ایک الارم کلاک پیش کیا گیا۔ پاپا گھر لوٹے تو بہت خوش دکھائی دے رہے تھے۔ انہوں نے افتخار عارف اور عبیداللہ بیگ کے بارے میں کہا کہ ذہین لڑکے ہیں۔

کمال احمد رضوی (الن) اور رفیع خاور (ننھا) کی کامیڈی سیریز سے اس وقت تو میں صرف لطف ہی اٹھا سکتا تھا، اس کی قدروقیمت اور معیار کا اندازہ مجھے بہت بعد میں ہوا۔ مغربی ڈرامہ پڑھتے ہوئے، پھر مغرب کے تھیٹروں میں ’الف نون‘ یاد آتا۔ اس پر کبھی الگ سے لکھوں گا۔ فی الوقت اس کے بارے میں بس ایک لفظ کہوں گا: کمال!

میں میٹرک میں تھا جب لاہور ٹی وی سے ایک پروگرام ©’جواں فکر‘ کا آغاز ہوا۔ اس کی نظامت شوکت تھانوی مرحوم کے بیٹے خورشید شوکت کرتے تھے۔ میں نے اس میں بیت بازی کے ایک پروگرام میں شرکت کی اور ایک مشاعرے میں۔ مشاعرے میں گورنمنٹ کالج لاہور سے منظر صہبائی اور اشرف عظیم شریک ہوئے۔ ان سے باقاعدہ دوستی کا آغاز ایک برس بعد ہوا جب میں گورنمنٹ کالج لاہور میںداخل ہوا۔ ٹی وی سٹیشن پر جن معروف شخصیات سے ملاقات کے مواقع ملے ان میں ملکہ موسیقی روشن آرا بیگم، ملکہ پکھراج اور مولانا کوثر نیازی شامل تھے۔

 حسن کے میٹرک کے فائنل امتحان ہونے والے تھے۔ ہماری ضد تھی کہ جس روز اس کا آخری پرچہ ہو گا ٹی وی اسی روز خریدا جائے گا۔ اس میں ایک دن کی بھی تاخیر نہیں ہو گی۔ ایک دن بھی ’ضائع‘ نہیں کیا جائے گا۔ والدہ اس ضد پر محظوظ ہوتیں۔ میرے ایک دوست شکیل رضا غزالی نے، جو پرائمری سکول میں میرا ہم جماعت رہا تھا، بتایا کہ اس کے پڑوس میں ایک صاحب نے روسی ٹی وی الیکٹرون کی ایجنسی لی تھی۔ اکیس انچ سکرین والے الیکٹرون کی قیمت انیس انچ والے فلپس اور جاپانی ٹی وی سیٹوں کے مقابلے میں تین چار سو روپے کم تھی اور ریسیپشن (reception) بھی کم اچھی نہیں تھی۔ ہمیں یہ پسند آیا، سو یہی خرید لیا، بارہ سو روپے کا۔

گھر میں ٹی وی آ جانے کے بعد کئی دن بہت عجیب عجیب سا لگتا رہا۔ زیادہ سے زیادہ وقت اس کے سامنے گزرتا۔ والدہ کہتیں کہ اب تمہاری سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ یہ اب تک کیوں نہیں لینے دیا۔ پاپا بھی بہت شوق سے ٹی وی دیکھتے۔ انہیں ایک اشتہار خاص طور سے پسند آیا جسے وہ مزے لے لے کر سناتے: ہم تو جانیں سیدھی بات، صابن ہو تو سات سو سات۔ گھر کے سامان کی خریداری والدہ یا چاچا عنصر کے ذمے تھی۔ پاپا بس اپنے پان سگریٹ خریدتے ۔ کبھی کبھار پھل لے کے آتے یا ہاتھ کا کٹاہوا بکرے کا قیمہ ، جو وہ خود فرائینگ پین میں ٹماٹروں کے ساتھ بھون کے سب کو کھلاتے۔ ہاں، اپنے کبوتروں کے لیے چوری بھی وہ خود بناتے۔ ایک دن وہ کیپری صابن خرید کے لائے اور کہا کہ اس کا اشتہار ذہن میں رہ گیا تھا سو لے لیا، صرف سوا روپے کا۔

ایک دن ہم کسوٹی دیکھ رہے تھے۔ پاپا بھی موجود تھے۔ ایک مہمان نے ایک ہمعصر شاعر، غالباً قتیل شفائی، کا نام لکھا۔ میزبانوںکو بہت جلد اندازہ ہو گیا کہ انہیں کسی ہمعصر شاعر کا نام بوجھنا ہے۔ اب اگر وہ نام لے دیتے اور وہ درست نہ ہوتا تو وہ ہار جاتے۔ چنانچہ تصدیق کرنے کے لیے انہوں نے مزید سوال کرنے شروع کیے۔

 ”میر کے رنگ میں شعر کہتے ہیں؟ “

”نہیں۔“ مہمان نے جواب دیا۔

”گویا ناصر کاظمی تو نہیں ہیں۔“ عبیداللہ بیگ بولے۔

”لو، کمال ہے۔ میں میر کے رنگ میں لکھتا ہوں؟ “ پاپا نے کہا اور شاعر کا نام بوجھے جانے تک بے دلی سے بیٹھے رہے۔

سبطین صاحب کے مہمانوں میں سے بیشتر اب ہمارے ہاں آنے لگے تھے کیونکہ دیرینہ رہائشی ہونے کے سبب محلے والوں کے تعلقات ہم سے نسبتاً زیادہ قریبی تھے۔ اسی سال شوکت صدیقی کے ناول ’خدا کی بستی‘ پر مبنی ڈرامہ سیریل شروع ہوا۔ اس کی قسط دیکھنے زیادہ تعداد میں مہمان آتے۔ لیکن جس روز انسان نے پہلی بار چاند پر قدم رکھا اس روز ہمارے ٹی وی روم اور اس سے ملحقہ کمروں میں پاﺅں رکھنے کی جگہ نہ تھی۔ بیرونی دروازہ بھی کھول دیا گیا تھا اور کچھ لوگوں نے گلی میں کھڑے ہو کے پروگرام دیکھا۔ کیا زمانہ تھا کہ لوگ دوسروں کے گھروں یا ہوٹلوں میں ٹی وی دیکھ کے خوش ہوتے تھے، آج ہر گھر میں، اور بہت سے گھروں کے ہر کمرے میں، ٹی وی ہے لیکن لوگ خوش نہیں۔ کبھی ہمارے آپ کے دروازے اجنبیوں کے لیے بھی کھلے تھے، اب گھر والے بھی اپنی شناخت کراکے گھر میں داخل ہوتے ہیں۔

(زیر طبع کتاب ’ایک شاعر کی سیاسی یادیں‘ سے اقتباس)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments