فلسطین اور آزادی کا خواب


مسئلہ صرف فلسطین نہیں ہے، ظلم صرف کشمیر میں ہی نہیں ہو رہا، صرف افغانستان ہی خانہ جنگی کا شکار نہیں ہے، پاکستان کے علاوہ بھی اسلامی ممالک میں انسانی جانیں بے قیمت ہیں، ایران اور سعودی عرب کے علاوہ بھی بہت سے ممالک باہم دست و گریباں ہیں، خوراک کی قلت یمن سے باہر بھی بہت ہے، مغربی اور امریکی افواج عراق کے علاوہ بھی موجود ہیں۔ مسلم ممالک اندرونی اور بیرونی سطح پر کثیر الجہتی مسائل میں بری طرح گھرے ہوئے ہیں۔

کشمیر، فلسطین، چیچنیا، بوسنیا، شام، یمن، لیبیا، عراق، افغانستان، چین، میانمار کوئی بھی تو ایسی جگہ نہیں جہاں مسلمان سکون کی زندگی گزار رہے ہوں۔ مسلمان مصلحتوں کا شکار ہیں لیکن ایک امت ہونے کے ناتے ایک دوسرے کا دکھ ضرور سمجھتے ہیں۔ کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن کر نہیں سکتے۔ عام آدمی تو چاہتا ہے کہ وہ ابھی تلوار اٹھائے اور ظلم و ستم کے شکار مسلمانوں کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کروا لے۔ شاندار ماضی کو یاد کر کے ہر کسی کا دل چاہتا ہے کہ پھر سے کوئی صلاح الدین ایوبی آئے اور وہ اس لشکر کا حصہ بن جائے۔

صبح سے شام نہ ہو اور نیل سے لے کر کاشغر تک پھر سے اسلام کا جھنڈا لہرا دیا جائے۔ کیا ایسا ممکن ہے۔ جی ہاں بالکل ممکن ہے۔ لیکن اس کے لئے اپنے اسلاف اور فاتحین کے بارے میں جاننا اور ان جیسا بن جانا بہت ضروری ہے۔ ہمارے بڑوں نے سلطنت عثمانیہ کیسے قائم کی، سپین پر آٹھ سو سالہ حکومت کیوں کر ممکن ہوئی، ہندوستان پر ہم کیسے غالب رہے اور بغداد کیسے علم کا گہوارہ کہلایا، یہ تمام باتیں توجہ طلب ہیں۔ وہ مسلمان علم و عمل کا گہوارہ تھے جو پوری دنیا میں فاتح ٹھہرائے گئے۔

وہ سیاست و معیشت، فصاحت و بلاغت، علم و تحقیق، جنگ و حکمت میں کمال مہارت رکھتے تھے۔ لیکن آج کا مسلمان ان تمام علوم سے قطعی نا آشنا ہے۔ اور دوسری طرف اسلام مخالف قوتیں knowledge based طاقت رکھتی ہیں۔ علم و تحقیق، غور و فکر اور عقل و شعور کی بنیاد پر حاصل کی گئی طاقت کو آسانی سے شکست نہیں دی جا سکتی۔ آپ فقط جنگ و جہاد کے سہارے کشمیر و فلسطین کو آزاد نہیں کروا سکتے۔ شام و یمن میں امن نہیں قائم کر سکتے۔

پاکستان اور افغانستان کے باہمی مسائل حل نہیں کر سکتے۔ ایران اور سعودی عرب کے تنازعے کا پر امن حل تلاش نہیں کر سکتے۔ آپ کو علم و تحقیق اور سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں خودکفیل ہونا ہو گا۔ اپنی درسگاہوں کو پھر سے آباد کرنا ہوگا۔ نئے عمرانی معاہدے کرنے ہوں گے۔ دفاع اور عدل و انصاف کے ادارے مضبوط کرنا بھی انتہائی ضروری ہیں۔ اسلامی ملکوں میں کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ادارہ جاتی اصلاحات متعارف کروائی جائیں۔

طب، دفاع سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں دوسروں پر انحصار کم سے کم کرنا ہوگا۔ احساس ذمہ داری، آئین کا احترام، قانون پر عمل درآمد، اور میرٹ ترقی یافتہ اور فلاحی معاشروں کی اساس ہوتے ہیں جو کہ اسلامی دنیا میں ناپید ہو چکے ہیں، ان عوامل کو قابل عمل حالت میں بحال کرنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ عیش و عشرت کو ترک کر کے کفایت شعاری اپنائی جائے تاکہ غربت کا خاتمہ ممکن بنایا جا سکے۔ نظام حکومت جیسا بھی ہو، بادشاہت ہو یا جمہوریت، اسلام پسندوں کی حکومت ہو یا لبرلز کی فلاحی ریاست کا قیام ناگزیر ہے جہاں ہر شخص اپنی زندگی آزادانہ گزار سکے، ہر امیر غریب کو سستا اور معیاری انصاف گھر کی دہلیز پر ملے اور صحت و تعلیم کی سہولیات عام ہوں۔

آپ کو یہ سب کرنا پڑے گا۔ سوشل میڈیا سے نکل کر لائبریریاں آباد کرنا اور علم کے معتبر ذرائع پر انحصار کرنا آپ کی اہم ترجیحات کا حصہ ہو۔ مذہبی جنونیت اور فرقہ واریت ایک عفریت کی شکل اختیار کر چکے ہیں ان کا خاتمہ کیا جائے اور اسلام پراس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ کساد بازاری رشوت کا خاتمہ کر کے ہر شعبے میں احترام انسانیت کا جذبہ بیدار کیا جائے تاکہ انسانی ضروریات ہر ایک کی دسترس میں ہوں۔ اجتماعی مفاد ذاتی مفاد سے بالا تر ہو۔

وباؤں اور قدرتی آفات سے نمٹنے کی صلاحیت میں اضافہ نہ کیا گیا تو آپ ہمیشہ اغیار پر انحصار کریں گے جو آزادی کی جدوجہد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اسی طرح خدمات کے شعبے کو جدید بنیادوں پر استوار کر کے انسانی زندگیوں میں آسانیاں پیدا کی جائیں۔ اور سب سے اہم آزادانہ داخلہ و خارجہ پالیسی ہیں جو ہم ہر شعبے میں خودکفیل ہوئے بغیر اپنی مرضی سے ترتیب نہیں دے سکتے۔ دور حاضر میں درج بالا عوامل سے بے اعتنائی ہی مسلمان ممالک کی سب سے بڑی ناکامی کی وجہ ہے اور یہی عوامل ترقی یافتہ معاشروں کو ہم سے ممتاز کرتے ہیں۔

انہی کمزوریوں اور ناکامیوں کی وجہ سے اسلامی دنیا مغلوب اور مظلوم ہے۔ یہ سب کر کے آپ بغیر جنگ کے دنیا تسخیر کر لیں گے اور اپنی اصلاح کیے بغیر آپ جنگ کا حصہ تو بن سکتے ہیں مگر جیت نہیں سکتے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے انفرادی، اجتماعی اور عالمی معاملات میں اسلام کی روح پر عمل کرنے اور اپنے اسلاف کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments