اسمبلیوں کی بے توقیری، کس نے کیا پا کر کیا کچھ کھو دیا؟


نوے کی دہائی کے دوران ہمارے صحافت میں نئے نئے دن تھے پشاور میں ایک بڑے قومی اخبار کے لئے جرائم کی خبریں کور کرنا بھی ہماری ڈیوٹی ہوا کرتی تھی یہ وہ وقت تھا جب ہمیں پولیس کی جانب سے اپنی بہترین کارکردگی اور جرائم پیشہ لوگوں یا بے گناہ پکڑے جانے والوں کی طرف سے پولیس کے مبینہ مظالم کے بارے میں خطوط ملتے رہتے تھے اسی دوران پشاور کے سنٹرل جیل میں ایک دن بہت بڑا ہنگامہ ہوا انتظامیہ کہہ رہی تھی کہ بعض قیدیوں نے منشیات بیچنے کی اجازت نہ دینے پر جیل میں ایسی صورتحال بنائی جبکہ قیدیوں کی جانب سے یہ الزام لگے کہ ان کے لئے جو راشن آتا ہے اس میں غبن کر کے انتظامیہ ان کو بہت ناقص کھانا کھلاتی ہے اور ان کے علاج کے لئے بھی جیل کے سرکاری ہسپتال میں کوئی بندوبست نہیں ہے جبکہ قیدیوں کو مارا پیٹا بھی جاتا ہے۔

الغرض جو بھی ہو دونوں طرف سے الزامات کی بھرمار تھی اور کسی کے پاس ان کی تصدیق کا ذریعہ نہیں تھا اس دوران بعض قیدیوں کو پکڑ کر دوسری جیل منتقل کیا جانے لگا تو انہوں نے جیل کے باہر جمع ہونے والے ہزاروں فکرمند لوگوں کو جیل کی جنگلے لگی بسوں کی کھڑکیوں سے آواز دی کہ جیل میں سینکڑوں قیدیوں کی لاشیں پڑی ہیں اور انتظامیہ معاملے کو چھپانے کے لئے انہیں دوسری جیلوں میں منتقل کر رہی ہے بس پھر کیا تھا جیل کے باہر جمع ہونے والے قیدیوں کے رشتے داروں نے تو آسمان سر پر اٹھالیا۔

بعد میں جب دوسرے دن کچھ دھول بیٹھی اور انتظامیہ کو سانس لینے کا موقع ملا تو پریس کانفرنس کے دوران ہمیں بتایا گیا کہ جیل میں کوئی نہیں مرا تھا بس کچھ لڑائی ہوئی تھی جس میں چند لوگ زخمی ہوئے تھے اور انہوں نے اپنے دیگر ساتھیوں کے ساتھ مل کر بلوہ کر دیا تھا۔ واقعے میں کچھ سرکاری لوگ بھی کچھ ملوث نکلے تھے۔ قصہ مختصر اس دوران ہم نے سپرنٹنڈنٹ جیل سے پوچھا کہ وہ ان قیدیوں پر ظلم کیوں کرتے ہیں تو وہ مسکرائے اور کہا کہ کسی علاقے میں کوئی ایک غنڈہ ہو تو پورا علاقہ اس سے تنگ ہوتا ہے میرے پاس تو قریبا تین ہزار ایسے لوگ ہیں جنہیں ان کی حرکتوں کی وجہ سے جیل لایا گیا ہے میں ان کو سنبھال رہا ہوں۔ اس دن ہمیں احساس ہوا کہ جیل میں اگر آدھے بھی بے گناہ لوگ ہوں تو پھر بھی پندرہ سو تو وہ تھے جن سے لوگ تنگ تھے یا وہ جرائم میں ملوث تھے اس لئے ان کو سنبھالنا مشکل ترین کام تھا۔

واقعہ یاد آنے کی وجہ کوئی اور نہیں بلکہ دو تین سے قومی اسمبلی میں جاری ہنگامہ آرائی ہے جس کا معاملہ پشاور کی جیل سے بالکل الٹ ہے لیکن نتائج اس کے بھی وہی والے ہیں جو اس جیل کے تھے۔ جیل میں مجرم تھے لیکن قومی اسمبلی کا ایوان کوئی عام ہال نہیں تھا بلکہ یہاں پر آنے والے پاکستان کے تمام قومی اسمبلی کے حلقوں سے منتخب لوگ تھے جنہیں ان کے حلقے والوں نے سب میں سب سے زیادہ معزز سمجھ کر اس ایوان کے لئے چنا۔ وہ اسمبلی پہنچے ان کی کار پر ممبر قومی اسمبلی کا بورڈ بھی لگا جہاں جاتے ہیں وہاں پر عزت بھی وہی والی ملی، چاہے یہ حکومتی بنچز کے لوگ تھے یا اپوزیشن کے ان سے توقعات بھی سب سے زیادہ تھیں اور خصوصاً جب ان کا تعلق اعلی اخلاقی اقدار کی دعویدار تحریک انصاف سے تھا تو توقعات مزید بھی بڑھ گئیں کیونکہ وہ تو اس کلچر اور نظام کو بدلنے آئے تھے جو ان سے پہلے ان کے مطابق ”نا اہل اور برے لوگوں“ نے سیٹ کیا تھا انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ کسی بھی برے کو ناکام کرنے کے لئے اس سے زیادہ برا نہیں بنا جاتا بلکہ اپنی اچھائی کی طاقت سے پہلے دنیا کو فرق بتایا جاتا ہے اور پھر اس برے کو بے نقاب کر کے اس سے زیادہ بہتر اخلاق اور کردار کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

قومی اسمبلی کے ایوان میں جو لوگ گزشتہ عام انتخابات میں منتخب کر کے ایوان میں بھیجے گئے ان میں تحریک انصاف اپنے بہترین لوگوں یعنی لاٹ کے ساتھ یہاں آئی تھی اس لئے یہ اسی کا فرض تھا کہ اخلاقی اور قانونی تقاضوں کو ہر وقت پورا رکھے اور جہاں بھی اپوزیشن کوئی ایسی کوشش کرے جس سے ان کی موجودگی میں عوامی مسائل کے حل کے اس نظام کو کوئی زک پہنچتی ہوتو یہ اسے ٹھیک رکھیں۔ لیکن ایسا نہ ہوسکا تحریک انصاف جو اچھی منصوبہ بندی کر کے یہ جنگ جیت سکتی تھی اس نے ایک کمزور فیصلہ کر کے یہ ثابت کیا کہ وہ اپنے سے پہلے والوں کے مقابلے میں نہ ہی اخلاقی لحاظ سے بہتر ہے اور نہ ہی اس کی منصوبہ بندی ان سے اچھی ہے۔

ان سے پہلے کے ”برے“ نواز شریف نے بھی عمران خان کے دھرنے کے دنوں میں اپنی حکومت کے دوران اپنے کارکنوں کو ڈی چوک میں نہیں بلایا اگر وہ یہ جنگ جیتنے کی کوشش کرتے جس کے نتیجے میں ان کی حکومت کو ختم کیا گیا تو شاید وہ اس کا کوئی جواز بھی رکھتے تھے لیکن انہوں نے تحریک انصاف کے مقابلے میں بہتر منصوبہ بندی کر کے صرف سرکاری وسائل ہی سے کام چلایا اور آج اس معاملے میں وہ تحریک انصاف کے مقابلے میں زیادہ بہتر پوزیشن میں ہے۔

ان پر کرپشن کے کیسز ہیں اور وہ ثابت ہوں تو ان کو سزا بھی ضرور ملنی چاہیے لیکن بہتر منصوبہ بندی اور اخلاقیات کے معاملے میں تحریک انصاف ان سے کمزور ثابت ہوئی۔ تحریک انصاف کے وزرا نے اسمبلی کے اندر اپوزیشن کا ہی رویہ اختیار کر کے وہ جنگ ہار دی جو وہ جیت سکتے تھے اب ہر اس حکومتی چہرے کی کسی عوامی بات کا کوئی اثر نہیں ہو گا جو قومی اسمبلی کی ان ویڈیوز میں نظر آئے ہوں گے ۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ایوان بے وقعت ہوئی، حکومتی پارٹی کی پوزیشن خراب ہوئی اور سپیکر قومی اسمبلی اور وزیراعظم کا وقار متاثر ہوا۔

سپیکر اور وزیراعظم کی ملاقات نے سپیکر کو مزید کمزور کر کے پیش کیا کہ ان کے وقار کا تقاضا تھا کہ وہ وزیراعظم کے پاس نہ جاتے اور ان تمام لوگوں کے خلاف کارروائی کرتے جو ویڈیوز میں نظر آ رہے ہیں۔ ملکی سیاست اور جمہوریت پر داغ لگے اور اب کے بعد اگر کوئی اسمبلیوں کو چلتا کرنا چاہے تو شاید ہی عوام میں سے کوئی ان اسمبلیوں کو بچانے کو نکلنے کے لئے تیار ہو۔ اس وقار کو جن لوگوں نے خراب کیا اسمبلیاں نہ رہیں تو وہ بھی کہیں کے نہیں رہیں گے ہاں چند ”پسندیدہ“ لوگ کہیں کھپا دیے جائیں تو وہ دوسری بات ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments