کووڈ 19: پاکستان میں کورونا وائرس ویکسین میں اچانک کمی کی وجوہات کیا ہیں؟

سحر بلوچ - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد


کووڈ 19، ویکسین

پاکستان کے مختلف شہروں میں گذشتہ چند روز میں کورونا وائرس ویکسین کی کمی سامنے آئی ہے۔ اس کمی کی ابتدا 16 جون کو کراچی اور ملک کے دوسرے شہروں میں بھی دیکھنے میں آئی جہاں مختلف سینٹرز میں کورونا وائرس سے بچنے کے لیے لگائی جانے والی ویکسین ختم ہو گئی اور کئی افراد یا تو لائن میں لگے رہے یا پھر مایوس ہو کر گھروں کو نکل گئے۔

کراچی کے ایکسپو سینٹر میں ویکسین نہ ہونے کی صورت میں دیگر چھوٹے سینٹرز کو بھی مجبوراً بند کرنا پڑا۔

اس بارے میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بتایا ہے کہ ’16 اور 17 جون کو پاکستان میں چار لاکھ ویکسین لگیں اور چین سے ویکسین کی کھیپ آنے میں دیر ہو گئی جس کا سب سے زیادہ اثر پنجاب، خیبر پختونخوا اور سندھ پر پڑا اور چند شہروں اور سینٹرز میں ویکسین کی کمی دیکھنے میں آئی۔‘

وزیرِ اعظم پاکستان عمران خان کے معاونِ خصوصی برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان نے بی بی سی کو اس بارے میں بتایا کہ چند ماہ پہلے کے مقابلے میں ویکسین سینٹرز کی تعداد بڑھ چکی ہے۔

’ملک بھر میں اس وقت دو ہزار سے زیادہ ویکسینیشن سینٹرز ہیں اور ظاہر ہے کہ جب موجودہ اعداد و شمار سے تھوڑا بھی نمبر بڑھے گا تو ویکسین کی کمی بھی واقع ہو گی۔‘

انھوں نے کہا کہ ’16 جون کو جب شور برپا ہوا کہ ویکسین کی کمی ہو گئی ہے تو اس دن ملک بھر میں سوا چار لاکھ ویکسین لگ چکی تھیں۔ یہ بہت بڑی تعداد ہے۔ پھر 17 جون کو بھی سوا سے ڈھائی لاکھ کے قریب ویکسین لگی ہیں۔‘

ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ایک وجہ ویکسین کی کچھ روز دیر سے آمد بھی ہے کیونکہ جب معاہدہ کیا جاتا ہے تو کمپنی کی جانب سے دیر سویر ہو جاتی ہے۔

ویکسین

اس بارے میں صوبہ سندھ کے پارلیمانی سیکرٹری برائے صحت قاسم سومرو نے بی بی سی کو بتایا کہ حالیہ ماہ میں ویکسین لگانے کی تعداد بھی بڑھائی گئی تھی۔

’قومی رابطہ کمیٹی (نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی) کے اجلاس کے دوران ہم نے پوچھا کہ سردیوں کے لیے ویکسین کا کیا ٹارگٹ سیٹ کرنا چاہیے؟ تو اسد عمر صاحب نے کہا کہ آپ ویکسین کی فکر نہ کریں آپ ویکسین لگوانے کے بارے میں سوچیں۔‘

اس کے نتیجے میں سندھ حکومت نے ایک کروڑ اسی لاکھ افراد کو ویکسین لگانے کا ہدف طے کیا اور ہر روز دو لاکھ افراد کو ویکسین لگانے کے لیے مختلف اضلاع میں 75000 ڈوزز لگانے کا ہدف طے کیا گیا۔‘

کراچی میں ویکسین لگانے کا ہدف چالیس ہزار سے شروع ہوا تھا اور جب یہ ہدف ایک لاکھ دس ہزار تک پہنچا تو ویکسین کی کمی واقع ہو گئی۔

اسی ہدف میں مختلف ڈویژن، ٹریڈ پارٹنر اور ان کمپنیوں کو بھی شامل کیا گیا جہاں ملازمت پر مامور افراد کو ویکسین لگانا ضروری تھی۔

ویکسین

کیا نیا ہدف طے کرنے سے پہلے مزید ویکسین خریدنے کی تیاری کی گئی؟

لیکن اب سوال یہ ہے کہ ویکسین خریدنے کا عمل صوبوں کے دائرہ کار میں آتا ہے تو کیا ہدف طے کرنے سے پہلے مزید ویکسین خریدنے کی تیاری کی گئی تھی؟

قاسم سومرو نے بتایا کہ ویکسین خریدنے کے دو طریقے ہیں: ایک طریقہ یہ ہے کہ سندھ حکومت خود سے ویکسین خریدے اور دوسرا پاکستان کی وفاقی حکومت سے مدد لے۔

’ہم نے پہلے پچاس کروڑ روپے ویکسین خریدنے کے لیے رکھے اور سائنو فارم ویکسین خریدنے کے لیے چینی قونصل خانے سے بات کی۔ چینی قونصل خانے نے کہا کہ ایسے ویکسین کا معاہدہ نہیں ہو سکتا کیونکہ ہم براہِ راست حکومتِ پاکستان کے ذریعے ویکسین دیں گے۔ کمپنی نے کہا کہ سندھ حکومت لکھ کر دے کہ وہ ویکسین خریدنے کی مجاز ہے۔ اس کے نتیجے میں وزیرِ اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے خط لکھا جس کا انھیں جواب موصول نہیں ہوا۔‘

قاسم سومرو نے بتایا کہ پھر وفاق سے رجوع کیا گیا کہ پاکستان کی ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے جو ویکسین وفاقی حکومت خریدے گی، وہ سندھ سے معاوضہ لے کر صوبے کے لیے خرید لیں لیکن اس بارے میں بھی ہمیں نہیں بتایا گیا۔

یہ بھی پڑھیے

کورونا وائرس: کیا انڈیا پاکستان کو اپنے خرچے پر مفت ویکسین فراہم کرے گا؟

کووڈ ویکسین سے کس کی چاندی ہونے والی ہے؟

کووڈ ویکسین پر خدشات: ’لوگوں نے جتنا ڈرایا، ایسا تو کچھ بھی نہیں‘

صورتحال میں بہتری کیسے آ سکتی ہے؟

قاسم سومرو نے کہا کہ اس وقت سندھ حکومت کے پاس دو راستے ہیں کہ یا تو ’وفاقی حکومت کی معاونت سے بین الاقومی کمپنی سے ویکسین خرید کر وفاقی حکومت کو اس کا معاوضہ ادا کر دیا جائے یا دوسرا راستہ یہ ہے کہ اس وقت دنیا بھر سے ویکسین کی طلب بڑھتی جارہی ہے تو ایسا نہیں ہو سکتا کہ ہم پیسے رکھیں گے اور ہمیں ویکسین مل جائے گی۔

انھوں نے کہا کہ ’اگر وفاقی حکومت نے کمپنیوں سے معاہدے کیے ہوئے ہیں تو سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کی حکومت کو بھی بتائیں تاکہ مل کر اس کمی کو پورا کیا جا سکے۔‘

اس بارے میں وفاقی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے بی بی سی کو بتایا کہ ’ہمیں ان سے پیسے نہیں چاہیے بلکہ ہم انھیں مفت ویکسین دے دیں گے جیسے کہ اب تک دیتے آرہے ہیں۔‘

انھوں نے کہا کہ ویکسین خریدنا صوبائی سبجیکٹ ہے اور ’ہم انھیں کہتے آ رہے ہیں کہ آپ ویکسین خرید لیں اور جو مدد چاہیے ہم کر دیں گے لیکن اب تک ایسا نہیں کیا جا رہا۔‘

ویکسین

کیا پاکستان میں مزید ویکسین آ رہی ہے؟

ڈاکٹر فیصل سلطان کے مطابق ویکسین کی ایک سپلائی 20 جون تک آ رہی ہے جس کے نتیجے میں ویکسین کی موجودہ کمی کو پیر یعنی 21 جون تک قابو کر لیا جائے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ آنے والی اس کھیپ سے 12 سے 13 لاکھ تک کی آبادی کو ویکسین لگائی جا سکے گی۔ اس سے حکومت کو موجودہ کمی کو پوراکرنے میں مدد ملے گی اور جون کے اواخر اور جولائی کے وسط تک کافی لوگوں کو ویکسین لگائی جا سکے گی۔

’اس کے علاوہ پاکستان نے تقریباً ایک ارب روپے کی اضافی ویکسین مختلف ممالک سے منگوانے کا بھی معاہدہ کیا ہے۔ ان میں سائنو فارم، سائنو ویک، کین سائنو، فائزر اور سپوتنک شامل ہیں اور یہ ویکسین رواں ماہ جون کے آخری دس دن میں پاکستان پہنچنا شروع ہو جائیں گی۔‘

انھوں نے کہا کہ آنے والی ویکسین معاہدے کے تحت آ رہی ہیں جن میں پاکستان نے فائزر سے براہِ راست رابطہ کر کے معاہدہ کیا۔

’پھر عالمی ادارہ صحت کے گلوبل ویکسین پروگرام کوویکس کے ذریعے بھی جولائی تک ویکسین کی 12 لاکھ خوراکیں آرہی ہیں لیکن روس، چین اور فائزر کمپنی کے ساتھ ہونے والے معاہدوں سے اگلے چند ماہ بھی کوور ہو جائیں گے۔‘

واضح رہے کہ پاکستان کو اس وقت تین طریقوں سے ویکسین موصول ہو رہی ہے: ایک ہمسایہ ملک(چین) سے، دوسرا ایشین ڈویلپمنٹ بینک اور ورلڈ بینک کی امداد کے ذریعے خریدی گئی ویکسین جبکہ عالمی ادارہ صحت کے کوویکس پروگرام کے تحت بھی ویکسین موصول ہو رہی ہیں۔

یاد رہے کہ رواں سال مئی میں جب فائزر ویکسین کی ایک لاکھ خوراکیں ملک پہنچی تھیں تو حکام نے اس بارے میں لاعلمی کا اظہارکیا تھا۔

یہ ویکسین کوویکس کے گلوبل ویکسین پروگرام کے تحت یونیسیف کے ذریعے پاکستان پہنچی تھی لیکن پھر ویکسین کی کلیئرنس اور رجسٹریشن پر محکمہ صحت کی جانب سے سوال اٹھنے پر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی نے جلد از جلد فائزر ویکسین کو رجسٹر کرانے کا عمل شروع کیا۔

اس بارے میں ڈاکٹر فیصل سلطان نے کہا کہ ’کوویکس کے ویکسین بھیجنے سے ہمیں کوئی مسئلہ نہیں لیکن جو پہلے ہوا ایسے واقعات کو نہ دہراتے ہوئے پاکستان کی کوشش ہے کہ نوے سے پچانوے فیصد ویکسین ہمارے دیگر ممالک اور کمپنیوں کے ساتھ طے شدہ معاہدوں کے ذریعے آئے۔اور ہر روز تقریباً پانچ لاکھ خوراکیں دی جائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp