شمال مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں


شمال مغربی یورپ کے ممالک ناروے، آئس لینڈ، سویڈن، فن لینڈ اور ڈنمارک کے اجتماعی حکومتی نظام بین الاقوامی منظر نامے میں نارڈک ماڈل کے برانڈ کے طور پر ابھرا۔ اس نارڈک فلاحی ریاست کے نظام کو سمجھنے کے لیے دنیا کے سیاستدان، سیاست، سماجیات، معاشیات اور قانون کے محققین یہ تحقیق کر رہے ہیں کہ کس طرح ان ممالک نے اپنے اپنے ملک کے باشندوں کو دنیا کی ہر بنیادی سہولت مہیا کی اور کس طرح نارڈک ممالک اپنے ملکوں کو فلاحی ریاستیں بنانے میں کامیاب ہوئے۔

نارڈک ماڈل کے بطن سے تشکیل پانے والی فلاحی ریاستوں میں عدل و مساوات کی جنت کہلاتی ہیں، یہ ریاستیں نجی و اجتماعی اخلاقیات کے اونچے معیار پر کھڑی ہیں۔ جہاں پر مزدور اور منیجر کی تنخواہوں میں بڑا فرق نہیں، جہاں پر انسان کو پیدا ہونے سے لے کر قبر تک کسی بھی قسم کے مشکل وقت میں ریاست فرد کی ہر طرح کی مدد کرتی ہے۔ ان ممالک میں شخصیات نہیں اجتماعی ادارے مضبوط ہیں۔

نارڈک ماڈل پر مشتمل شمال مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں، جمہوریت، انصاف، تعلیم، صحت، ہر شہری کے لیے ہر جگہ پر یکساں مواقع کی بین الاقوامی درجہ بندی میں مسلسل پہلے نمبروں پر براجمان ہیں، ان ممالک میں سیاسی استحکام ہے، فرد اور ریاست کا رشتہ مضبوط، فرد کا ریاستی نظام پر اعتماد ہے اور حکومتوں کی کارکردگی پر شہری مطمئن۔ حالانکہ دنیا کے دوسرے بڑے ممالک میں ریاست اور فرد کا تعلق کمزور ہو رہا ہے، ریاست کے باشندوں کا ریاستی نظام پر اعتماد اٹھ رہا ہے، معاشی عدم توازن بڑھ رہا ہے، عدم مساوات بڑھ رہی ہے۔

نارڈک ماڈل پر مشتمل شمال مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں آبادی کے لحاظ سے چھوٹے یونٹس پر مشتمل ہیں۔ ان ممالک میں ایک ہی نسل کی اقوام آباد ہیں۔ ان ممالک کے باشندے نئی سوچ، نئے تصورات کو اپنے اندر جلد انضمام کر لیتے ہیں۔ نئے تصورات کو اپنے اندر انضمام کرنے کے ساتھ ان پر جلد عملدرآمد بھی کیا جاتا ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال حالیہ عرصے میں ان ممالک کے نجی و سرکاری سیکٹر میں ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔ حالانکہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی شروع کرنے والے دوسرے ممالک تھے۔

فلاحی ریاستوں کا برانڈ نارڈک ماڈل، جس ماڈل کا نقطہ مساوات یعنی امیر اور غریب میں کم فرق، مرد و عورت کے ہر سطح پر یکساں حقوق اور مواقع، لسانی و نسلی تعصب کم ہے۔ شمال مغربی ممالک کی حکومتیں اپنے اس حکومتی نظام کو اقوام عالم میں سوچ سمجھ کر تشہیر کرتے ہیں، جس سے ان ممالک کے معاشی، سیاسی مفادات کو مسلسل تقویت ملتی رہتی ہے۔

شمال مغربی یورپ کی فلاحی ریاستوں کا نہ صرف ریاستی فلاحی نظام اقوام عالم میں یہ تجسس پیدا کر رہا کہ کس طرح یہ ممالک اتنا معیاری نظام حکومت ترتیب دینے میں کامیاب ہوئے، بلکہ اقوام عالم میں یہ تجسس بھی پیدا کر رہا ہے کہ ان ممالک کے باشندوں کے رہن سہن کے بارے میں بھی معلومات حاصل کی جائیں۔ جیسے شمال مغربی یورپ کے لوگ کیونکر صحت مند اور تندرست ہیں، کیونکر یہ لوگ صاف گو، صفائی پسند اور سادگی اختیار کیے ہوئے ہیں۔

ان ممالک میں امیر اور غریب کے درمیان فرق کم، ان ممالک میں معاشی عدم مساوات زیادہ نہیں، ان ممالک کے 80 % باشندے ہر سال چھٹیاں منانے اپنے ملک یا دوسرے ممالک کے سیاحتی مقامات کا سفر کرتے ہیں۔ یہ ایسے ممالک ہیں جہاں کے لوگ حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن ہیں، ان ممالک میں جمہوری طرز حکومت اور جمہوری اقدار مضبوط ہیں، ان ممالک کی فلاحی ریاستیں ہر فرد کو زندگی کی بنیادی سہولیات فراہم کرتی ہیں۔

یہ ایسے ممالک ہیں جہاں پر مزدور کی فی کس پیداواری صلاحیت معاشی طور پر مضبوط سرمایہ دار نظام کے مزدور کی پیداواری صلاحیت سے کم نہیں۔ ان ممالک کا مزدور علم و آگہی سے لیس، ہنر مند اور پیشہ ور ہے، جس کی وجہ سے یہ مزدور جلد ہی نئے علوم اور ٹیکنالوجی کو سیکھ لیتے ہیں۔ نئے علوم کا علم حاصل کرنے کے بعد ان کی پیداواری صلاحیت کی استعداد میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے۔ جس سے دوسرے ممالک کے مزدور ان ممالک کے مزدوروں کی قابلیت کا مقابلہ نہیں کر سکتے اور ترقی و ٹیکنالوجی کی دوڑ میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔

اتنی ترقی، خوشحالی، مساوات، جمہوری روایات، جرائم کی شرح میں کم، 100 % شرح خواندگی کیونکر ممکن ہو سکی، حالانکہ ان ممالک کی آبادی کم، زرعی پیداوار کم، قدرتی بڑے وسائل اتنے زیادہ نہیں۔ ان ممالک کو عرف عام میں نارڈک ممالک کہا جاتا ہے، ان ممالک کی اس خوشحالی اور فلاحی ریاستی ماڈل کو سمجھنے کے لیے ان ممالک کی حکومتوں نے یورپی اقتصادی یونین کے تعاون سے ایک تحقیقی کمیشن نارڈک ماڈل کے نام پر تشکیل دیا۔ اس کمیشن کی سربراہی ناروے کی اوسلو یونیورسٹی کے شعبہ اقتصادیات کے پروفیسر و محقق کارل اوئے مون کو سونپی گئی۔

ماہر اقتصادیات پروفیسر کارل اوئے مون جنہوں نے اپنی ساری زندگی یہ تحقیق کرتے ہوئے گزاری کہ آخر کیا وجہ ہے کہ شمال مغربی ممالک دنیا میں کیونکر خوشحال معاشرے اور بہترین فلاحی ریاستیں بنانے میں کامیاب ہوئے، جیسے پچھلے 15 سال سے ناروے اقوام متحدہ کے خوشحالی و ترقی کے انڈیکس میں مسلسل پہلے نمبر پر رہا۔ جبکہ بقیہ دنیا کے اکثر ممالک اپنے ہم وطنوں کو زندگی کی بنیادی سہولیات دینے سے قاصر ہیں۔

پروفیسر کارل اوئے مون کے مطابق دراصل نارڈک گورننگ ماڈل یا نارڈک ماڈل اتنا اہم نہیں جتنا اہم بذریعہ نارڈک ماڈل معاشرے کو ایک منظم ڈھانچے میں ڈھالنا اور ترتیب دینا ہے۔ پروفیسر کارل اوئے مون کے مطابق نارڈک گورننگ ماڈل کی بنیاد درج ذیل 4 نکات پر کھڑی ہے۔

1) ملک گیر سطح پر مزدور یونینز اور آجر یونینز کا قائم ہونا۔
2) قومی و مقامی سطح پر مزدور اور آجروں کے درمیان مذاکرات۔
3) حکومت، آجروں اور مزدور یونینز کے درمیان مشاورت اور مذاکرات کا تسلسل۔
4) فعال فلاحی ریاست کا وجود۔

اب ہم دیکھیں گے کہ کس طرح اور کن معاشی، سیاسی پالیسیوں کی وجہ سے نارڈک گورننگ ماڈل وجود میں آیا۔ تاریخی طور پر نارڈک گورننگ ماڈل کا طریقے کار ڈنمارک، ناروے اور سویڈن میں ایک جیسا ہے۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیان نارویجین لیبر مارکیٹ انتہائی مشکلات کا شکار تھی۔ لیبر مارکیٹ کے دونوں حصہ دار مزدور اور آجر کسی ایک بھی نقطے پر آپس میں متفق نہیں ہو رہے تھے۔ جس سے ایک طرف مزدور اپنی تنخواہوں اور دوسری سہولیات کو حاصل کرنے کے لیے مکمل طور پر ہڑتال پر تھے، جبکہ دوسری طرف کچھ آجروں نے مزدوروں پر دباؤ رکھنے کی کوشش میں اپنے کارخانے اور کاروبار بند کر دیے تھے۔ جس کی وجہ سے ملک ناروے بند ہو گیا اور ساری معاشی سرگرمیاں رک گئی۔ ساتھ ہی پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے میں عالمی کساد بازاری کی وجہ سے مزدور، کاروباری طبقہ، حکومتی ادارے مشکلات سے دوچار ہو گئے۔

1930 کے مزدور انقلابی راہنماؤں کے مطابق ملکی معاشرتی، معاشی ڈھانچے کو ازسرنو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے، جس سے پہلے ہر حال میں سرمایہ دار طبقے کو مکمل طور پر ختم کرنا ضروری تھا۔ جبکہ اصلاحاتی مزدور راہنماؤں کے مطابق ملک کو شورش اور خانہ جنگی میں دھکیلنے کی بجائے ملکی سرمایہ داروں اور آجروں سے مذاکرات کر کے اصلاحات پر کام کیا جائے۔ جس سے پہلا کام مزدور تنخواہوں میں اضافہ، مزدوروں کے لیے مفت تعلیم اور صحت کی سہولیات کا مہیا ہونا تھا۔ اصلاحاتی راہنماؤں کے ان نکات نے مزدوروں یونینز کے ایک بڑے حصے میں کافی پذیرائی حاصل کی۔ جس کی وجہ سے مزدور انقلابی راہنماؤں کو بھی اپنے انتہا پسندانہ نظریات چھوڑنے پڑے۔

ساتھ ہی لیبر مارکیٹ کے دونوں بڑے حصے داروں یعنی مزدور اور آجروں کو اپنے انتہا پسند اقدامات، مسلسل ہڑتالوں، معاشی سرگرمیاں رکنے سے سب لوگوں کو معاشی نقصان اٹھانا پڑ رہا تھا، تو اس وقت مجبوری کے حالت میں اس معاشی نقصان کو روکنے کے لیے مزدوروں اور آجروں کو آپس میں معاملات طہ کرنے پڑ گئے۔

آبادی کے لحاظ سے چھوٹا ملک ہونے اور معاشی لحاظ سے دوسرے ممالک سے برآمدات، درآمدات پر انحصار کی وجہ سے نارویجین مزدوروں اور آجروں کو اپنے معاشی مفادات کے اختلافات کو کم کرنا پڑ گیا۔

جس سے ناروے میں ایک ایسا معاہدہ طے پا گیا، جس معاہدے کی بدولت ناروے ایک فلاحی ریاست بننے میں کامیاب ہوا۔

(جاری ہے )


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments