من ترا حاجی بگویم حکومت کی عجلت بازیاں


ٹٹیری ایک خوبصورت پرندہ ہے، رات کو دیہاتوں میں اس کی آواز سننے کو ملتی ہے، مانا جاتا ہے کہ یہ پرندہ سوتے وقت ٹانگیں آسمان کی طرف کر لیتا ہے، وہ سمجھتا ہے کہ اگر اس نے ٹانگیں سیدھی کیں تو آسمان نیچے گر جائے گا۔ پاکستان میں فوجی آمر یا اس کی سوچ کے سویلین آمر جب بھی اقتدار یا بڑے عہدوں پر آتے ہیں ٹٹیری کی طرح کا سوچتے ہیں، میں آپ کو چند مثالیں دے کر یہ ثابت کروں گا وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اگر انہوں نے یہ کام نہیں کیا تو خدانخواستہ ملک گر جائے گا۔

اس سوچ کو اگر سادہ الفاظ میں پرفیکشن کہا جائے تو بھی چل جائے گا، یعنی وہ لوگ جو خود کو عقل کل، ہر لحاظ سے پرفیکٹ سمجھتے اور سوچتے ہیں ان کا خیال ہے کہ وہ نہیں تو پیچھے اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔

جنرل ایوب سے بات شروع کریں، جنرل یحییٰ کو لیں، جنرل ضیا الحق، جنرل پرویز مشرف، اب یہ تو ہوئے جنرل خود ذوالفقار بھٹو اس سوچ کے مالک تھے، آج کے وزیراعظم کی بات بعد میں کرتے ہیں، ملک کی سب سے بڑی عدالت کے قاضی جسٹس افتخار چوہدری رات دن یہ ہی سوچتے تھے کہ وہ نہیں ہوں گے تو ملک کا کیا بنے گا، ثاقب نثار کو بھی راتوں کو نیند اس لیے نہیں آتی تھی۔

پرویز مشرف نے ایوان صدر سے بے دخل ہوتے ہوئے جو پریس کانفرنس کی تھی اس میں بھی پاکستان کا خدا ہی حافظ لفظ کہے تھے۔ آج کے وزیراعظم جن کے آئیڈیل ملک کے سارے آمر ہیں وہ یہ نہیں سوچتے کہ ان کو کیوں کس طرح اور کن مقاصد کے لیے اقتدار میں لایا گیا لیکن وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کو سر کے اوپر لے کر کھڑے ہیں، یہ سچ ہے کہ اگر عمران خان نہیں ہوتے تو یہ پاکستان نہیں ہوتا پھلتا پھولتا پاکستان ہوتا۔

وزیراعظم کے کئی ساتھی، وزرا، مشیران و ترجمان ایسے ہیں جو ”من ترا حاجی بگویم تو مرا ملا بگو“ کہتے نہیں تھکتے۔ اربوں روپوں کے اسکینڈلز آ جائیں، حکمران زندگی بچانے والی دوائیں کھا جائیں، اشتہارات کے کمیشن کھا جائیں، کورونا کے ماسک کھا جائیں، چینی پر ڈاکا مار دیں، دال آٹا ہڑپ کر لیں، رات کے اندھیرے میں تیل کی مد میں ہزار ہا ارب روپے دبوچ لیں لیکن پھر بھی وہ ایماندار ہیں، کیوں کہ ثاقب نثار نے ان کے لیڈر کو صادق و امین قرار دیا تھا اس لیے ان کی جماعت، ان کے اتحادی، ان کے حامیوں اور سہولت کاروں کے سوا سب کرپٹ، چور، بدکار، بدعنوان اور مجرم ہیں۔

وزیراطلاعات فواد چوہدری کا بھی کیا کہنا ہے، وہ کبھی اپنی ذہنی اختراع الیکٹرانک ووٹنگ مشینز اور ای ووٹنگ مشینز کو فعال کرنے کی جلدبازی میں ہیں، کبھی کسی پر فتوے جاری کر رہے ہوتے ہیں، یہی وزیر سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے اور یوٹیوب کو محدود کرنے کا سوچ رہے ہیں پھر اور انٹرنیٹ ووٹنگ کی بات بھی کرتے ہیں۔

اب تو حکومت نے پارلیمنٹ کے اختیارات بھی چھین لیے جس کا برملا اعلان کابینہ کے اجلاس کے بعد وزیر اطلاعات نے کیا، جب کہ دوسرا بڑا بلنڈر الیکشن کمیشن کے اختیارات چھینے کا کیا گیا ہے۔

وفاقی کابینہ کے اجلاس میں باقی عمومی فیصلوں کے ساتھ یہ خصوصی فیصلہ یہ ہوا کہ پارلیمنٹ میں کون بولے گا اور کون نہیں بولے گا، یہ فیصلہ ہم کریں گے۔ یعنی پارلیمنٹ کی خود مختاری، آزادی، فعالیت گئی تیل لینے، کسٹوڈین آف ہاؤس اسپیکر اپنے آئینی اختیار گھر چھوڑ کر آئیں، فیصلہ وزیراعظم کر رہے ہیں کہ 22 کروڑ عوام کے نمائندہ پارلیمنٹ کو کس طرح چلانا ہے۔ ایسا جنرل ضیا الحق کے گھٹنے کے نیچے چلنے والی پارلیمنٹ کے ساتھ بھی نہیں ہوا، پرویز مشرف کی کوکھ سے جنم لینے والی جماعت ق لیگ کی جس پارلیمنٹ میں اکثریت تھی اس میں بھی وہ کچھ نہیں ہوا جو عمران خان کر رہے ہیں۔ عمران خان اب وزیراعظم کے ساتھ اسپیکر بن چکے ہیں، خیر اسپیکر کا چارج تو انہوں نے سال پہلے ہی لے لیا تھا جب انہوں نے کہا تھا کہ کسی ملزم ممبر کے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کیے جائیں گے اور اس کے بعد پروڈکشن آرڈر جاری ہونا بند ہوچکے ہیں۔

کابینہ نے جو فیصلہ کیا پارلیمنٹ میں وہ ہی کچھ ہوا، نہ کم ہوا نہ زیادہ ہوا۔ پارلیمنٹ کو حکومتی وزرا اور ممبران نے میدان جنگ بنا لیا، اپوزیشن پر حملے ہوئے، گالم گلوچ کی گئی، سنجیدہ سمجھے جانے والے وزیر بھی سامنے آ گئے اور اپنی اصلیت دکھا دی۔ پارلیمنٹ کا پندرہ جون کا اجلاس اس کالک کا دن تھا جو دھونے سے نہیں اتر سکتی، اسپیکر کی بے بسی کا عالم بھی کمال کا تھا اگر انہیں آئینی، قانونی اختیارات کا تھوڑا بھی علم ہوتا تو وہ پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے ہو جاتے انہیں پارلیمنٹ کو یرغمال کرنے والی سرکار کا سہولت کار نہیں بننا چاہیے تھا۔

اب آتے ہیں دوسرے فیصلے پر جس کا انکشاف الیکشن کمیشن نے کیا ہے، تحریک انصاف سمجھتی ہے ان کے پاس فروغ نسیم، بابر اعوان، علی ظفر، ملیکہ بخاری جیسے بڑی قانونی دماغ ہیں ان دماغوں نے وزیراعظم اور صدر پاکستان کی جو عزت افزائی کرائی ہے اس کے باوجود ان کے مشوروں پر عمل کیا جا رہا ہے، قومی اسمبلی نے دس جون کو اپوزیشن کو دیوار سے لگا کر جس طرح قانون کی دھجیاں بکھیر کر قانون سازی کی اس میں ایک قانون الیکشن ایکٹ 2020 ع میں ترامیم کا بھی شامل ہے، جس پر الیکشن کمیشن نے اپنا نقطہ نظر یا رد عمل دے دیا ہے اس قانون کے تحت حکومت نے الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات چھیننے کی کوشش کی ہے، وہ اس طرح کہ قانون کے تحت الیکشن کمیشن سے حلقہ بندیوں، انتخابی فہرستوں کے اختیارات کو چھین لیا گیا ہے، اس قانون سازی کے تحت سینیٹ انتخابات کو اوپن بیلٹ کے ذریعے کروانے کا کہا گیا جو کہہ نہ صرف آئین بلکہ سپریم کورٹ کے صدارتی ریفرنس پر جاری فیصلے کی بھی خلاف ورزی ہے، حکومت دھونس دھاندلی سے الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے انتخابات کروا کر اپنے حلقوں جانے سے بچنا چاہتی ہے یا سمندر پاکستانیوں کے ووٹوں سے کچھ مدد حاصل کر کے سیاسی طور پر جینا چاہتی ہے لیکن یہ سب کچھ اتنی عجلت میں نہیں ہو سکتا۔

اس قانون سازی پر الیکشن کمیشن نے اجلاس کر کے جاری کردہ بیان میں بتا دیا ہے کہ اسمبلی سے منظور شدہ قانون میں آئین کی شقوں کی خلاف ورزی کی گئی ہے، الیکشن کمیشن کے آئینی اختیارات پر قدغن لگائی جا رہی ہے، اس بل کے ذریعے الیکشن کمیشن کو کہا گیا ہے کہ انتخابی فہرستوں پر نظرثانی نہیں ہو سکتی، حلقہ بندیاں آبادی کے بنیاد پر نہیں رجسٹرڈ ووٹوں کے بنیاد پر کی جائیں۔ سینیٹ میں اوپن بیلٹ استعمال کیا جائے۔ یہ سب کچھ اتنی جلدی میں ہو رہا ہے جیسے پارٹی ختم ہونے والی ہے اور ثابت ہو چکا ہے کہ یہ کمپنی اب نہیں چلنی۔

ابراہیم کنبھر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ابراہیم کنبھر

ابراھیم کنبھرموئن جو دڑو کی وارث سندھ دھرتی کے مٹی جیسے مانھو ہیں۔ کل وقتی صحافی ہیں۔ پیشہ ورانہ فرائض کے ضمن میں اسلام آباد میں مقیم ہیں۔ سندھی ٹی وی چینل کے ٹی این نیوز کے لئے کام کرتے ہیں اور سندھی روزنامے کاوش میں کالم لکھتے ہیں۔

abrahim-kimbhar has 57 posts and counting.See all posts by abrahim-kimbhar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments