آسام کے وزیراعلیٰ کی مسلمانوں میں زیادہ بچوں کی پیدائش سے متعلق دعووں کی حقیقیت

نصیرالدین - سینیئر صحافی، آسام سے بی بی سی ہندی کے لیے


انڈیا کی شمال مشرقی ریاست آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتو بسوا سرما نے گذشتہ ہفتے ایک پریس کانفرنس میں اقلیتوں کی آبادی، خاندانی منصوبہ بندی، آبادی سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں بات کی تھی۔ ان کے بیان کا نچوڑ اس طرح ہے:

  • ‘آبادی کے دھماکے’ کو روکنے کے لیے مہاجر مسلمانوں کو خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اپنانے چاہییں۔ کنبے کو چھوٹا رکھنے کے طریقہ کار پر کام کرنا چاہیے۔
  • اگر ’آبادی کا دھماکہ‘ جاری رہا تو ایک دن کاماکھیا مندر کی اراضی پر بھی قبضہ کرلیا جائے گا۔
  • ’آبادی کے دھماکے‘ پر قابو پانے کے لیے اقلیتی مسلم برادری کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔
  • ’آبادی کا دھماکہ‘ غربت اور تجاوزات جیسی معاشرتی برائیوں کی جڑ ہے۔
  • اس مسئلے پر بدرالدین اجمل کی پارٹی ‘اے آئی یو ڈی ایف’ اور آل آسام اقلیتی سٹوڈنٹس یونین (اے اے ایم ایس یو) کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔

ریاست اور ملک میں مسلمانوں کی آبادی کے بارے میں متعدد بار مختلف طرح کے دعوے کیے جاتے رہے ہیں۔ آئیے اس تازہ بیان کے پیش نظر آسام میں مسلم آبادی کی حقیقت کا جائزہ لیں۔

کیا مسلمانوں کے ہاں زیادہ بچے پیدا ہو رہے ہیں؟

اس سلسلے میں پہلا سوال یہ سامنے آتا ہے کہ کیا آسام کے مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے؟

اس کے تعلق سے سب سے اہم دستاویز تین دہائیوں پر محیط قومی فیملی ہیلتھ سروے (این ایف ایچ ایس) کی پانچ رپورٹس ہیں۔ یہ شواہد بہت سارے زمینی حقائق پیش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق آسام میں بچوں کی پیدائش کی شرح ملک کی اوسط شرح کے ساتھ مطابقت رکھتی ہے۔

پیدائش کی شرح کا مطلب یہ ہے کہ 15 سال سے 59 سال کی عمر والی خواتین کے ہاں اوسطاً کتنے بچے پیدا ہوتے ہیں۔ سنہ 2005-06 میں جب قومی سطح پر پیدائش کی شرح 2.7 تھی تو آسام میں یہ شرح 2.4 تھی۔ تازہ ترین رپورٹ میں تو یہ شرح 1.87 تک جا پہنچی ہے۔

یعنی پیدائش کی شرح 2.1 کے خط سے نیچے چلی گئی ہے جس کے حصول کی مسلسل کوششیں کی جارہی تھیں۔ اس طرح یہ کہا جاسکتا ہے کہ آسام میں بچوں کی پیدائش کی شرح آبادی کے استحکام کی سمت بڑھ رہی ہے۔

مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں تیزی سے کمی آرہی ہے

سوال یہ ہے کہ جس ریاست کی آبادی کی تقریباً ایک تہائی آبادی مسلمانون کی ہے وہاں بچوں کی پیدائش کی شرح کو کنٹرول کرنے میں ایسی کامیابی کیسے ممکن ہوسکی؟ کیا یہ صرف غیر مسلموں کی وجہ سے ممکن ہوا؟ ماہرین کا خیال ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا ہے۔

ان اعدادوشمار پر ایک نظر ڈالیں:

آسام

آسام میں تقریباً تین دہائیوں کے دوران بچوں کی پیدائش کی شرح میں نصف فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ سنہ 1992-93 میں جہاں یہ شرح 3.53 تھی وہین این ایف ایچ ایس کی تازہ ترین رپورٹ سے پتا چلتا ہے کہ سنہ 2019 – 2020 میں یہ شرح 1.87 تک جا پہنچی ہے۔

یہ درست ہے کہ مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح دوسرے مذاہب کے پیروکاروں سے زیادہ ہے۔ لیکن مسلمانوں میں اس میں کی کمی کی شرح بہت تیز ہے۔

آسام میں ہندوؤں میں بچوں کی پیدائش کی شرح 15 برسوں میں 0.36 پوائنٹس کم ہو کر 2 سے 1.59 ہوگئی ہے۔ جبکہ مسلمانوں میں اس شرح میں تقریباً سوا پوائنٹ کی کمی واقع ہوئی ہے اور یہ 64۔3 سے کم ہو کر 38۔2 پر ہے۔ واضح رہے کہ 2.1 کی مطلوبہ شرح سے یہ معمولی حد تک زیادہ ہے۔

این ایف ایچ ایس کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق آسام میں مسیحی برادری میں بچوں کی پیدائش کی شرح سب سے کم ہے۔ اس کے بعد شیڈول کاسٹ یعنی (پسماندہ ذاتیں) اور شیڈول ٹرائب (پس ماندہ قبائل) ہیں۔ اور اس کے بعد ہی ہندو اور مسلمان آتے ہیں۔

چنانچہ بچوں کی پیدائش کی کم ہوتی شرح سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آسام میں مسلمان بچے پیدا کرنے میں مشغول نہیں ہیں۔ ان کی شرح کہیں سے بڑھتی ہوئی نظر نہیں آتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

امریکی کمیشن: انڈیا میں مذہبی آزادی کی صورتحال ’پریشان کن‘

کیا انڈیا کی تاریخ دوبارہ لکھی جائے گی؟

آسام میں مندر تعمیر کروانے والے ایک مسلمان جوڑے کی کہانی

آسام مسلمان

تعلیم اور عمل تولید کا رشتہ

لیکن ہاں مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح باقی لوگوں سے کہیں زیادہ ہے۔ لیکن اس کا تعلق بہت ساری چیزوں سے ہے۔ دوسرے مذاہب کی پیروی کرنے والوں کے مقابلے میں مسلمان ان دو محاذوں پر یعنی تعلیم اور معیشت میں پیچھے ہیں۔

بچوں کی پیدائش کی شرح میں اضافہ اور کمی کے مابین ایک واضح چیز خواتین کی تعلیم ہے۔ این ایف ایچ ایس نے اپنی رپورٹ میں اس نکتے پر خصوصی توجہ دلائی ہے۔

این ایف ایچ ایس 5 کے مطابق 12 ویں پاس ہونے والی خواتین کے مقابلے میں ان خواتین کے زیادہ بچے ہیں جو سکول نہیں جا پائی ہیں۔ یعنی اگر کسی معاشرے میں تعلیم یافتہ افراد اور خصوصاً تعلیم یافتہ خواتین کی تعداد کم ہے تو اس برادری میں پیدائش کی شرح زیادہ ہوسکتی ہے۔

اس سلسلے میں سنہ 2011 کی مردم شماری سے کچھ سمجھا جاسکتا ہے۔

سنہ 2011 کی مردم شماری کے مطابق آسام میں ہندوؤں میں خواندگی کی شرح 77.67 فیصد ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں خواندگی کی شرح 61.92 فیصد ہے۔ یعنی خواندگی کے معاملے میں دونوں مذاہب کے درمیان 15.75 فیصد کا بہت بڑا فرق ہے۔ صرف یہی نہیں آسام کے مسلمانوں میں خواندگی کی شرح دوسرے تمام مذہبی گروہوں سے کم ہے۔

یہ فرق انسان کی معاشرتی ترقی کے ہر پہلو کو متاثر کرتا ہے۔ چاہے یہ کنبے کو چھوٹا رکھنے کی بات ہو یا اسے اپنی بس میں رکھنے کی بات ہو یا زندگی کے کسی اور شعبے میں آگے بڑھنے کی بات ہو۔

مسلم خواتین

آسام کے مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو کتنا اپناتے ہیں

بہتر تعلیم، اچھی مالی حالت کے ساتھ ساتھ حمل سے متعلق معلومات کے ذرائع کی بہ آسانی دستیابی اور استعمال سے بھی ان کا تعلق ہے۔

عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ مسلمان خاندانی منصوبہ بندی کے طریقہ کار پر عمل نہیں کرتے ہیں۔ کیوں نہیں اپناتے؟ اس بارے میں مختلف لوگوں کی رائے مختلف ہے۔ اور آسام کی کہانی بھی مختلف ہے۔

آسام میں مانع حمل کا استعمال سنہ 2005-06 کے دوران تقریباً قومی اوسط کے برابر تھا۔ یعنی قومی سطح پر اگر یہ شرح 56 فیصد تھی تو آسام میں یہ 57 فیصد تھی۔

مانع حمل کے استعمال میں این ایف ایچ ایس-4 (52 فیصد) کے مقابلے میں این ایف ایچ ایس-5 (61 فیصد) میں اضافہ ہوا ہے۔ صرف یہی نہیں مانع حمل کے استعمال کے معاملے میں ریاست کے شہری اور دیہی علاقوں کے مابین کوئی فرق نہیں پایا گیا۔

این ایف ایچ ایس-5 رپورٹ کے مطابق آسام میں ہندوؤں، مسلمانوں، مسیحی، شیڈول کاسٹ اور شیڈیول قبائل کے درمیان مانع حمل کے استعمال میں فرق بہت کم ہے۔

جو شبیہہ بنائی گئی ہے اس کے برعکس مسلمان (60.1)، ہندوؤں (61.1) سے صرف ایک فیصد پیچھے ہیں جبکہ مسیحی اور اور شیڈول قبائل کی خواتین حمل سے بچنے کے طریقے ہندوؤں سے زیادہ استعمال کرتی ہیں۔

اور اگر ہم این ایف ایچ ایس- تین اور پانچ کے 15 برسوں کے اعدادوشمار پر نظر ڈالتے ہیں تو، ہندوؤں میں خاندانی منصوبہ بندی کے طریقوں کو اپنانے میں تھوڑی بہت کمی ہی واقع ہوئی ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں میں تقریباً 14 فیصد کا بڑا اضافہ ہوا ہے۔

این ایف ایچ ایس-3 کے وقت ہندوؤں میں مانع حمل کے استعمال کے کی شرح 63.3 فیصد تھی تو مسلمانوں میں یہ فیصد 46.1 تھی۔ مسلمانوں میں خاندانی منصوبہ بندی کے لیے اپنائے جانے والے طریقوں میں سال بہ سال لگاتار اضافہ ہوا ہے۔ اب یہ شرح 60 فیصد تک پہنچ چکی ہے جبکہ ہندوؤں میں یہ شرح 63 سے کم ہو کر 61 پر پہنچ گئی ہے۔

مسلم خواتین

حمل سے بچنے کے جدید طریقے اپنانے میں سب سے آگے مسلمان

حمل سے بچنے کے جدید طریقے استعمال کرنے کے معاملے میں آسام کی مثال سے ایک اور نکتہ واضح ہوتا ہے۔

اگر ہم گذشتہ ڈھائی دہائیوں کے اعدادوشمار پر نظر ڈالیں تو مانع حمل کے جدید طریقوں کو اپنانے والے مسلمانوں کی تعداد میں تقریباً ساڑھے تین گنا اضافہ ہوا ہے۔ این ایف ایچ ایس-2 کے وقت جدید طریقہ اختیار کرنے والے مسلمان صرف 14.9 فیصد تھے۔

این ایف ایچ ایس-5 کے تازہ ترین اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ایسے مسلمانوں کی تعداد 34.7 فیصد سے بڑھ کر 49.6 فیصد ہوگئی ہے جو مانع حمل کے جدید طریقے اپنا رہے ہیں۔ دوسری طرف ہندوؤں میں جدید طریقوں کو اپنانے والے 33 فیصد سے بڑھ کر 42.8 فیصد ہوگئے ہیں۔

جدید طریقوں کو اپنانے کے معاملے میں آسام کے تمام مذہبی گروہوں میں مسلمان سب سے آگے ہیں۔

آسام

حمل سے بچنے کے جدید بمقابلہ روایتی طریقے

آسام کے بارے میں ایک اور دلچسپ چیز ہے اور وہ بہت اہم بھی ہے۔

این ایف ایچ ایس رپورٹس کے ابتدائی مراحل سے یہ دیکھا جارہا ہے کہ آسام میں مانع حمل کے روایتی طریقوں کا استعمال کرنے والے افراد کی ایک بہت بڑی تعداد ہے۔

این ایف ایچ ایس-3 کے مطابق آسام میں ہندوستان کی تمام ریاستوں کے مقابلے میں زیادہ روایتی طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔

آسام کی مخصوص کہانی جو اب تک نہیں بتائی گئی

این ایف ایچ ایس-5 کی اب تک آنے والی رپورٹس کے مطابق آسام میں:

  • مسلمانوں میں بچوں کی پیدائش کی شرح میں سال در سال مسلسل کمی آ رہی ہے۔ یہ کم ہو کر آبادی کو مستحکم کرنے کے خط تک پہنچ گئی ہے۔ شرح میں یہ کمی باقی مذہبی برادریوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔
  • خواندگی کی شرح میں اتنے بڑے فرق کے باوجود بھی آسام کے مسلمانوں میں یہ شرح باقیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ نہیں ہے۔ نہ صرف یہ بڑھ نہیں رہی ہے بلکہ اس میں مسلسل کمی آرہی ہے۔
  • مسلمانوں کے بارے میں پھیلائی جانے والا ایک اور باطل تصور اور غلط فہمی کو آسام نے توڑ دیا ہے کہ وہ خاندانی منصوبہ بندی کے جدید ذرائع کو اپناتے نہیں ہیں۔ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ تمام مذہبی گروہوں کے مقابلے میں وہ انتہائی جدید ذرائع زیادہ اختیار کر رہے ہیں۔

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32558 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp