سہیل تنویر شاید یونائیٹڈ کے گمان میں بھی نہ تھے

سمیع چوہدری - کرکٹ تجزیہ کار


چیمپئینز ٹرافی میں جب پاکستان غیر متوقع طور پہ فاتح ٹھہرا تو اظہر محمود نے کہا تھا کہ بلے باز آپ کو میچ جتواتے ہیں لیکن بولرز اگر چل پڑیں تو آپ کو ٹورنامنٹ جتوا جاتے ہیں۔ تب اظہر محمود پاکستان کے بولنگ کوچ ہوا کرتے تھے۔

حسنِ اتفاق ہے کہ اب اظہر محمود ملتان سلطانز کے بولنگ کوچ ہیں اور ان کا بولنگ یونٹ ایک بار پھر ٹورنامنٹ جیتنے کے عین قریب ہے۔ اگرچہ یہ ساری کامیابی صرف ان کے بولنگ یونٹ کے ہی مرہونِ منت نہیں ہے مگر یہ اعتراف کرنا ہو گا کہ ان کا بولنگ یونٹ اس وقت ویسی ہی فارم میں ہے جیسے چیمپئینز ٹرافی کے اہم مراحل میں پاکستانی بولنگ یونٹ کی تھی۔

جس وقت پی ایس ایل کا رواں ایڈیشن شروع ہوا، ملتان سلطانز ٹیبل کے نچلے خانوں میں براجمان تھی۔ پاکستان میں مکمل شدہ میچز کے بعد ملتان کے گوشوارے میں خسارہ نمایاں تھا اور کسی کایا کلپ کی امید بھی کم ہی تھی۔

لیکن بڑے ٹورنامنٹس میں عموماً یہ ہوتا ہے کہ جو ٹیمیں دھواں دھار آغاز کیا کرتی ہیں، اگر بیچ میں اچانک کہیں ان کا تسلسل ٹوٹ جائے تو ان کے لیے واپس اٹھنا مشکل ہوتا ہے جیسے لاہور قلندرز کا معاملہ رہا۔ لیکن اگر متواتر ہارتی ٹیمیں اچانک جیت کی پٹڑی پہ چڑھ جائیں تو بسا اوقات انہیں روکنا بہت مشکل ہو جایا کرتا ہے۔

یہی قصہ ملتان سلطانز کا بھی رہا جو ٹورنامنٹ کے اوائل میں پے در پے مات کھا رہی تھی مگر جب سے ابوظہبی میں باقی ماندہ پی ایس ایل شروع ہوئی، تب سے ملتان سلطانز کا سفر یکسر مختلف رہا ہے۔

بیٹنگ کی مشکلات کا خاصا ازالہ صہیب مقصود نے کر ڈالا کہ جن کی فارم میں واپسی ملتان کے لیے بہت خوش بختی کا باعث رہی ہے ورنہ اس سے پہلے بڑے مجموعوں کے لیے یہ ٹیم زیادہ تر محمد رضوان کی بیٹنگ پہ ہی انحصار کر رہی تھی۔ اس کے علاوہ شان مسعود کی پلئینگ الیون میں شمولیت بھی ایک مثبت فیصلہ رہا ہے۔

بعینہٖ شاہنواز دہانی اگرچہ کچھ عرصے سے سرکٹ میں موجود تھے مگر حالیہ پی ایس ایل کو ان کی دریافت کا سیزن کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ وہ ٹورنامنٹ کے کامیاب ترین بولر ہیں جن کی جیب میں بہت سے گُر موجود ہیں۔ رفتار تو پہلے ہی ان کا خاصہ تھی مگر اب کی بار رفتار کے ساتھ جو گرفت اور ضبط ان میں دکھائی دے رہا ہے، یہ یقیناً کچھ نیا ہے جو پاکستان کے لیے نہایت خوش آئند ہے۔

جب دہانی جیسے ٹیلنٹ کو سہیل تنویر اور عمران طاہر جیسے تجربے کا ساتھ بھی میسر آ جائے اور سونے پہ سہاگہ کہ بلیسنگ مزربانی جیسا باصلاحیت نوجوان بھی ان کے ہم رکاب ہو تو یقیناً ایک ناقابلِ شکست بولنگ یونٹ کے خدوخال ابھرنے لگتے ہیں۔

یہاں اسلام آباد یونائیٹڈ کو ہرانے کے لیے بھی کچھ ایسا ہی اٹیک درکار تھا۔ بہرحال یونائیٹڈ اس سیزن کی کامیاب ترین ٹیم رہی ہے جو لیگ سٹیج میں اپنے 80 فیصد میچز جیتنے میں کامیاب رہی۔ اسے ہرانا واقعی بہت دشوار تھا۔

کیونکہ یونائیٹڈ ہی نے چار روز پہلے پی ایس ایل کی تاریخ کا سب سے بڑا مجموعہ تشکیل دیا۔ اس کی بولنگ لائن بھی شاندار ہے اور بیٹنگ میں گہرائی تو واقعی قابلِ رشک ہے۔

مگر کوالیفائر جیسے اہم ترین میچ میں یونائیٹڈ کی حکمتِ عملی خاصی کمزور دکھائی دی۔ پہلے پہل تو صہیب مقصود کی جارحیت کے آگے بند باندھنا ہی دشوار ثابت ہوا جو پاور پلے میں ہی میچ پہ حاوی ہو گئے۔ شاداب خان نے پورے سیزن اچھی کپتانی کی مگر اس اہم ترین میچ میں کئی مواقع پہ ان کے آئیڈیاز گڑبڑا گئے۔

شاداب خود تو بہترین سپیل پھینک گئے اور میچ کا توازن بھی بہتر کر گئے مگر بدقسمتی یہ ہوئی کہ پورے میچ میں بہترین بولنگ کرنے والے عاکف جاوید جب اپنے سپیل کے آخری اوور کے لیے آئے تو وہ کنٹرول سے بالکل عاری تھے۔

عاکف جاوید کے اوور کا فائدہ البتہ خوشدل شاہ کو خوب ہوا جو اپنے بازو کھولنے میں کامیاب رہے اور اسی ایک اوور میں میچ کا سارا توازن بدل کر رکھ دیا۔

یہ ہدف یقیناً قابلِ تعاقب تھا مگر اس مجموعے کے جواب میں اسلام آباد کی بلے بازی کو جو جارحانہ روش اپنانا تھی، وہ گیم پلان سے یکسر غائب رہی اور سہیل تنویر کے پہلے سپیل نے ہی بازی پلٹ دی۔

ایسے اہم ترین میچز میں عموماً اہم کھلاڑیوں کے حوالے سے پوری منصوبہ بندی کی جاتی ہے مگر یونائیٹڈ نے سہیل تنویر کے حوالے سے کوئی پلان ہی نہیں بنا رکھا تھا کہ جب وہ گیند سے رفتار کو ہٹا لیں گے تو رن ریٹ برقرار رکھنے کے لیے کیا حکمتِ عملی اپنائی جائے گی۔

لیکن چونکہ اسلام آباد کے پاس کل شام کے دوسرے الیمینیٹر میں ایک اور موقع بھی ہو گا، سو ابھی ان کا سفر ختم نہیں ہوا۔ البتہ محمد رضوان ابھی سکھ کا سانس لے سکتے ہیں کہ ان کی ٹیم ٹرافی سے صرف ایک میچ دور رہ گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).