ورکنگ وویمن: جب گاؤں کی ممعر خواتین نوجوان لڑکی کے دکان میں کام کرنے کے حق میں باہر نکلیں

شجاع ملک - بی بی سی اردو ڈاٹ کام، وہاڑی


پاکستان
یہ وہاڑی کا ایک دیہی علاقہ ہے جہاں ایک دکان کے اندر ایک نوجوان لڑکی دودھ میں چکنائی کا لیول چیک کر رہی ہے اور اسے ٹھنڈی جگہ محفوظ کر رہی ہے۔

اِسی دکان کے باہر ایک معمر خاتون لڑکی کی حفاظت کی غرض سے بیٹھی ہیں۔

اس معمر خاتون نے یہاں بیٹھنے سے قبل دکان میں موجود نوجوان لڑکی کو کہا تھا کہ ’اب اگر کوئی بھی آئے گا تو اس کو پہلے میرے سے بات کرنی ہو گی۔ میں دیکھتی ہوں کہ تمھیں اب کام سے کون روکتا ہے۔‘

دیہی علاقوں میں کسی خاتون کے لیے بھینس کا دودھ کو دوہنا اور لسی، مکھن اور دیسی گھی بنانا عام سی بات ہے لیکن اگر یہی خاتون بالٹی اٹھا کر گھر گھر دودھ پہنچانے جائے یا جدید سہولیات سے آراستہ کسی دودھ کلیکشن سینٹر میں کام کرنے لگے تو علاقے کے لوگوں کو یہ نالاں گزر سکتا ہے۔

کچھ ایسا ہی وہاڑی کی اقصیٰ کے ساتھ ہوا۔

اقصیٰ ایک مِلک کلیکشن سینٹر یعنی دودھ جمع کرنے کے سینٹر پر ملازمت کرتی ہیں۔ ان کا کام بھی یہی ہے کہ موسم جو بھی ہو، عید ہو یا چودہ اگست، انھیں علاقے کے لوگوں سے دودھ جمع کرنا ہے۔ اس کے بعد اقصیٰ اس دودھ کو سینٹر میں لگی مشین میں ڈال کر ٹھنڈا کرتی ہیں اور اس کے معیار کے ٹیسٹنگ کرتی ہیں۔

معمر خاتون

‘اب اگر کوئی بھی آئے گا تو اس کو پہلے میرے سے بات کرنی ہو گی۔ میں دیکھتی ہوں کہ تمھیں اب کام سے کون روکتا ہے’

مگر اس علاقے کے مقامی لوگوں نے اقصیٰ کے کام کرنے پر شدید اعتراض کیا۔

دوسری جانب ان کی بہن انسہ ہیں جن سے کوئی ناراض نہیں کونکہ وہ دیہی علاقوں کی روایت کے مطابق اپنے گھر کے اندر جانوروں کا دودھ دوہتی ہیں۔ آندھی ہو یا طوفان، کڑک دھوپ ہو یا شدید گرمی، چاہے گھر کے باڑے میں کیچڑ ہو، انسہ اپنے ہاتھ میں بالٹی تھامے جانوروں کے مزاج کو بھانپ کر ان کا دودھ دوہنے جاتی ہیں۔

اگر انسہ صحیح سے اپنے جانوروں کا دودھ جمع کر لیں تو سماجی طور پر انھیں ایک اچھی اور ذمہ دار بیٹی مانا جائے گا۔

جب اقصیٰ نے مِلک کلیکشن سینٹر پر کام کرنا شروع کیا تو علاقے کے مردوں نے اعتراض کیا کہ یہ لڑکی ایک دکان کیسے چلا سکتی ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ صورتحال اس نہج پر پہنچ گئی کہ علاقے کے مرد اُن کے سینٹر پہنچ گئے اور کہا کہ اقصیٰ یہاں کام نہیں کر سکتی۔

اقصیٰ بتاتی ہیں کہ اُن کے علاقے میں لوگوں کا خیال ہے کہ کسی بھی عورت کو گھر سے باہر کام نہیں کرنا چاہیے۔ اقصیٰ کے گھر سے اس مِلک کلیکشن سینٹر پر پیدل آنے میں پانچ منٹ سے بھی کم لگتے ہیں۔ مگر ان کے مطابق اس دوران بھی ان کو راستے میں بُرا بھلا کہا جاتا تھا۔

پاکستان

اقصیٰ کے ایک دکان پر کام کرنے پر علاقے کے مردوں کو اعتراض تھا مگر اب ان کی تنقید کم ہو گئی ہے

وہ بتاتی ہیں ’مجھے لوگ کہتے تھے کہ یہ تو مردوں کا کام ہے۔ ایک لڑکی یہ کیسے کر سکتی ہے۔ یہ کام تمھارے لیے اچھا نہیں ہے۔ تم یہ کام چھوڑ دو۔‘

حالات اس قدر بگڑ گئے کہ جس شخص نے کلیکشن سینٹر کے لیے دکان ایک نجی کمپنی کو کرائے پر دی تھی، اس نے آ کر یہ کہا کہ ’میں نے آپ کو دکان یہ سوچ کر دی تھی کہ کوئی مرد کام کرے گا، اگر آپ نے لڑکی سے کام کروانا ہے تو میری دکان چھوڑ دیں۔‘

’میری مدد کو علاقے کی عورتیں آئیں‘

اقصیٰ بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے کام شروع کیا اور ایسے مشکل حالات پیدا ہو گئے تو وہ پریشانی اور ابہام کا شکار ہو گئیں۔ ’میں گاؤں والوں سے ڈرتی بھی تھی۔ ایسے میں میری مدد میرے علاقے کی معمر عورتوں نے کی۔‘

اقصیٰ کا کہنا ہے کہ ’عورتوں نے آ کر میری مدد کی۔ انھوں نے مردوں سے کہا کہ یہ لڑکی آپ کے گاؤں کی بیٹی ہے اور اگر یہ (دودھ جمع کرنے) کا کام کر رہی ہے تو اس میں بُرا کیا ہے؟‘

پاکستان

اقصیٰ کہتی ہیں کہ مشکل وقت میں ان کی مدد کے لیے علاقے کی بڑی عمر کی خواتین اٹھ کھڑی ہوئیں

’ایسے میں ہمارے علاقے کی ایک بڑی عمر کی خاتون آئیں اور وہ کلیشکن سینٹر کے باہر بیٹھ گئی اور کہا ’اب اگر کوئی بھی آئے گا تو میں اس کو پہلے میرے سے بات کرنی ہو گی۔ میں دیکھتی ہوں کہ تمھیں اب کام سے کون روکتا ہے۔‘

اقصیٰ کہتی ہیں کہ ’عورتوں نے مجھے ہمت دلائی۔ انھوں نے کہا کہ اگر تمھیں شوق ہے تو تم کام کرو۔ اس سے ہم اپنی بچیوں کو بھی بتا سکیں گی کہ ہمارے گاؤں کی ایک لڑکی تھی جس نے یہ کام کیا۔‘

علاقے کی معمر خواتین کے اقصیٰ کے حق میں کھڑے ہونے سے حالات میں کچھ بہتری آئی اور آہستہ آہستہ مرد حضرات نے اپنی ضد چھوڑنا شروع کر دی۔

اس تبدیلی کا حقیقی معنوں میں فائدہ صرف اقصیٰ کو ہی نہیں ہوا۔ علاقے کی دیگر خواتین جو پہلے اپنے گھر کا دودھ سینٹر تک پہنچانے کے لیے مردوں پر انحصار کرتی تھیں، اب خود ہی سینٹر پر جا کر دودھ فروخت کرتی ہیں۔

ایسی ہی ایک خاتون نے بتایا کہ ’پہلے ہم انتظار کرتے تھے کہ گھر کے مرد گھر لوٹیں تب ہی ہم دودھ جمع کروانے جا سکتے ہیں۔ کبھی بیٹے کا انتظار ہوتا تھا تو کبھی بھائی کا۔ اب ہم آسانی سے سینٹر پر خود ہی دودھ دینے جا سکتی ہیں کیونکہ آگے ایک عورت کھڑی ہے۔‘

’ڈاکٹر بھی بنتی تو یہی ہونا تھا‘

اقصیٰ

اقصیٰ کہتی ہیں کہ ’میں سوچتی تھی کہ گندم کی کٹائی، مکئی کی چھلائی، کپاس کی چنائی وغیرہ جب ہم ہر کام کر سکتی ہیں تو یہ دکان چلانا کون سا مردوں کا کام ہے؟ میں کسی اور شعبے میں بھی ہوتی، چاہے میں ڈاکٹر بن جاتی، تو لوگوں نے یہی کہنا تھا کہ گھر سے باہر کام نہ کرو۔‘

یہ بھی پڑھیے

عورتیں اگر گھر کا کام کرنا چھوڑ دیں تو کیا ہوگا؟

’ضمیر نے جھنجوڑا کہ کیا میرے بچے دوسروں کے ٹکڑوں پر پلیں گے‘

’خدشہ تھا کہ گھر والے پولیس کی نوکری چھوڑ کر گھر بیٹھنے کا نہ کہہ دیں‘

’میں ٹی وی پر پروگرام سی آئی ڈی دیکھتی تھی۔ اس میں وہ لوگ لیب میں کیمیکل کے ساتھ کام کرتے تھے۔ مجھے یہ دیکھ کر بہت شوق تھا کہ میں کسی لیب میں کام کروں۔ اب میں اس سینٹر میں لیباٹری کی چیزوں کے ساتھ دودھ کا معیار اور اس میں چکنائی کا تناسب چیک کرتی ہوں۔‘

ادھر اقصیٰ کی بہن انسہ ابھی بھی گھر کے باڑے سے ہی دودھ جمع کرتی ہیں۔ مگر انسہ کے مزاج میں محنت اور ہمت شاید اتنی ہی ہے جتنی اقصیٰ میں۔ وہ اپنی بہن کی ہمت بڑھاتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’لڑکیاں کیوں ایسا کام نہیں کر سکتیں۔ وہ بالکل یہ کام کر سکتی ہیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32292 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp