نریندر مودی کے سات سالہ دور حکومت کے بعد آج انڈین معشیت کہاں کھڑی ہے؟

نکھل انعامدار اور اپرنا الوری - بی بی سی نیوز، دہلی


India's Prime Minister Narendra Modi waves at the crowd during a ceremony to celebrate country's 73rd Independence Day, which marks the of the end of British colonial rule, at the Red Fort in New Delhi on August 15, 2019.

نریندر مودی نے انڈیا کی سیاسی بساط پر آتے ہی روزگار، خوشحالی میں اضافے اور سرخ فیتے کے خاتمے جیسے بلند بانگ وعدوں کی مدد سے تہلکہ مچا دیا تھا۔

آج سے سات برس قبل سنہ 2014 اور پھر سنہ 2019 کے انتخابات میں نریندر مودی کی جمات کو ملنے والے بھاری مینڈیٹ سے عوام میں یہ امید ہو چلی تھی کہ وہ ملک میں قابل ذکر اصلاحات لائیں گے۔

لیکن اپنی وزارت اعظمی کے ان سات برسوں میں اُن کی حکومت کا معاشی ریکارڈ کچھ زیادہ قابل ذکر نہیں ہے۔ اور پھر کورونا وائرس کی وبا نے اُن کی کارکردگی کو مزید نقصان پہنچایا۔

مندرجہ ذیل چارٹس کی مدد سے ہم یہ دیکھ سکتے ہیں کہ وزیر اعظم مودی کی سات برسوں کی کارکردگی کے بعد اب ایشیا کی تیسری سب سے بڑی معاشی طاقت (انڈیا) اِس وقت کہاں کھڑی ہے۔

شرح نمو سست روی کا شکار ہے

انڈیا

وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے سنہ 2025 تک مجموعی قومی پیداوار یعنی جی ڈی پی کا طے شدہ ہدف 50 کھرب ڈالر کی معیشت قائم کرنے کا تھا لیکن اب یہ محض ایک خواب لگتا ہے۔

کووڈ کی وبا آنے سے قبل ماہرین نے اندازہ لگایا تھا کہ اگر حالات ٹھیک چلتے رہے تو زیادہ سے زیادہ وہ لگ بھگ 26 کھرب ڈالر تک پہنچ سکیں گے، اور اب وبا آنے کے بعد اس تخمینے میں سے دو سو سے تین سو ارب ڈالرز کی مزید کمی ہو گئی ہے۔

ماہر معیشت اجیت رنادے کہتے ہیں کہ عالمی منڈی میں تیل کی بڑھی قیمتوں کی وجہ سے ملک میں مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔

لیکن صرف کووڈ ہی اس صورتحال کا ذمہ دار نہیں ہے۔

انڈیا کی مجموعی ملکی پیداوار یعنی جی ڈی پی وزیر اعظم مودی کے عہدہ سنبھالنے کے وقت سات سے آٹھ فیصد تھا لیکن 2019-20 کی آخری سہ ماہی تک یہ گر کر 3.1 فیصد تک پہنچ گیا تھا۔

انڈیا

پانچ برس قبل 2016 میں انھوں نے ملکی کرنسی پر پابندی لگائی تھی جس کی وجہ سے ملک میں استعمال ہونے والی نقد رقم میں 86 فیصد کمی آئی تھی اور ساتھ ساتھ ایک نیا ٹیکس لاگو کیا جس سے کاروباری طبقے کی مشکلات میں کافی اضافہ ہوا۔

ان فیصلوں نے دوسرے بڑے مسئلہ کو جنم دیا۔

بے روزگاری میں اضافہ

سینٹر فار مانیٹرنگ دا انڈین اکانومی (سی ایم آئی ای) کے سربراہ مہیش ویاس نے بتایا کہ انڈیا کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز میں سے ایک 2011-12 کے بعد سرمایہ کاری میں ہونے والی کمی تھی۔

’اور پھر 2016 کے بعد سے معیشت کو متواتر جھٹکے لگے، جیسے کرنسی پر پابندی، جی ایس ٹی ٹیکس اور لاک ڈاؤن وغیرہ جیسے فیصلوں سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا۔‘

تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق بے روزگاری کی شرح گذشتہ 45 سالوں میں سب سے زیادہ دیکھی گئی جب وہ 2017-18 میں 6.1 فیصد تک پہنچ گئی۔ اور سی ایم آئی ای کی جانب سے کیے گئے سروے کے مطابق اب یہ شرح دگنی ہو چکی ہے۔

رواں برس کے آغاز کے بعد سے ڈھائی کروڑ افراد بے روز گار ہو چکے ہیں اور مزید ساڑھے سات کروڑ انڈین افراد خط غربت سے نیچے چلے گئے ہیں۔

انڈیا

تحقیقی ادارے پیو ریسرچ کے مطابق غربت کا شکار ہونے والوں میں سے ایک تہائی انڈیا کے متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے تھے جنھوں نے گذشتہ کئی دہائیوں میں انڈیا میں ہونے والی معاشی ترقی کی بنا پر اپنے معاشی حالات کو بہتر بنایا تھا۔

اجیت رنادے کے مطابق انڈین معیشت کو سالانہ کم از کم دو کروڑ نئی نوکریوں کی ضرورت ہوتی ہے لیکن نریندر مودی کی حکومت ایسا کرنے میں ناکام رہی ہے۔

گذشتہ ایک دہائی میں انڈیا سالانہ صرف 43 لاکھ نوکریاں پیش کرنے میں کامیاب ہوئی ہے۔

یہ بھی پڑھیے

انڈیا میں معاشی بحران کی وجہ صرف کورونا یا حکومت کی خراب پالیسیاں بھی؟

کیا 2024 تک انڈیا پانچ کھرب کی معیشت والا ملک بن سکے گا؟

انڈیا میں کورونا بحران نے ’مودی برینڈ‘ کی ساکھ کو کیسے نقصان پہنچایا؟

انڈیا کی برآمدات میں اضافہ نہیں ہو رہا

وزیر اعظم نریندر مودی کا ایک بڑا مشن تھا کہ وہ ’میک ان انڈیا‘ یعنی انڈیا میں بنائی گئی مصنوعات کے فروغ کو ترجیح دیں گے اور انڈیا کو عالمی طور پر ایک ایسے طاقتور ملک کے طور پر پیش کریں گے جہاں سرخ فیتے یعنی سرکاری اور بیوروکریٹک رکاوٹوں کو کم سے کم کیا جائے گا اور ملک کو برآمدات کا مرکز بنانے کے لیے بڑی سرمایہ کاری کی جائے گی۔

نریندر مودی کا مقصد تھا کہ وہ ملک میں صنعت و حرفت یعنی مینوفیکچرنگ کے شعبے کو اتنی وسعت دیں کہ وہ جی ڈی پی کا 25 فیصد حصہ بن جائے۔ لیکن حکومت میں سات برس رہنے کے بعد یہ حصہ 15 فیصد سے زیادہ بڑھ نہیں سکا ہے۔

اس سے بھی زیادہ بری خبر سینٹر فار اکنامک ڈیٹا اینڈ انالسسز کی جانب سے کی گئی تحقیق میں سامنے آئی جس میں کہا گیا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں مینوفیکچرنگ کے شعبے میں آدھی نوکریاں ختم ہو گئی ہیں۔

انڈیا کی برآمدات گذشتہ ایک دہائی سے تین سو ارب ڈالر سے بڑھ نہیں سکی ہیں۔

انڈیا

نہ صرف ان میں اضافہ نہیں ہوا ہے، بلکہ نریندر مودی کے دور میں انڈیا بنگلہ دیش جیسے علاقائی حریفوں کے ہاتھوں مارکیٹ شئیر بھی ہار رہا ہے۔

بنگلہ دیش جس نے برآمدات پر توجہ دے کر قومی شرح نمو میں تیزی سے اضافہ کیا ہے، اُن کی خاص توجہ ملک کی گارمنٹس کی صنعت پر تھی۔

لیکن دوسری جانب نریندر مودی کی حکومت میں انفراسٹرکچر کی تعمیرات میں اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔

ان کے دور حکومت میں یومیہ اوسطاً 36 کلومیٹر روڈ تعمیر ہو رہی ہے جبکہ ماضی کی حکومتوں میں یہ اوسط آٹھ سے 11 کلومیٹر یومیہ تھی۔

معاشی ماہرین نے مودی حکومت کی جانب سے چند ایسے عوامی فیصلوں کی بھی تائید کی جن میں ملک بھر میں بیت الخلا کی تعمیر کرنا، اور غریبوں کے لیے بہت کم نرخ پر گیس اور پانی فراہم کرنا اور گھروں کے لیے قرضے دینا شامل ہے۔

لیکن اخراجات میں اضافے اور ٹیکسز کی مد میں آمدنی نہ آنے کی وجہ سے ماہر معیشت انڈیا کے تیزی سے بڑھتے ہوئے مالی خسارے کے بارے میں پریشان ہیں۔

انڈین معیشت کے بارے میں مزید پڑھیے

بنگلہ دیش اور انڈیا میں زیادہ خوش حال کون؟

’کورونا وائرس انڈیا کی معیشت کو تباہ کر کے رکھ دے گا‘

باضابطہ معیشت میں لوگوں کی شمولیت

نریندر مودی کے دور میں ایک بڑا کام ان کی حکومت نے یہ کیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل ادائیگی میں عالمی طور پر ایک بڑی قوت بن کر سامنے آیا ہے۔ ان کی ’جن دھن سکیم‘ کی مدد سے ملک میں لاکھوں غریب خاندانوں کو بینک اکاؤنٹس بنانے کی سہولت میسر ہوئی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ یہ درست سمت کی جانب سے ایک بڑا اہم قدم ہے۔

صحت پر اخراجات نہیں کیے جا رہےانڈیا نے صحت کے شعبے میں کبھی بھی زیادہ رقم نہیں لگائی. مجموعی ملکی پیداوار میں صحت کے اخراجات کی شرح فیصد، 2014-2021.  .

معاشی ماہر ریتیکا کھیرا کا کہنا ہے کہ ماضی کی حکومتوں کی طرح اس حکومت نے بھی صحت کے شعبے کو نظر انداز کیا ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی ترجیح تیسری سطح کی صحت کی صورتحال پر ہے بجائے پرائمری درجے پر کام کرنے کے۔

ریتیکا کہتی ہیں کہ یہ امریکی ماڈل ہے جو کہ نہایت مہنگا ہے اور اس میں مجموعی طور پر عوامی صحت بھی بہتر نہیں ہوتی۔

ابھی بھی بڑی تعداد میں لوگ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں

انڈیا میں وہ لوگ جو نوکری کرنے کی عمر تک پہنچ چکے ہیں ان میں سے نصف سے زیادہ زراعت کے شعبے سے منسلک ہیں لیکن یہ شعبہ جی ڈی پی میں زیادہ حصہ نہیں دے پا رہا۔

انڈیا

تقریباً ہر کوئی اس بات سے اتفاق کرتا ہے کہ انڈیا کا زرعی شعبہ اصلاحات کا متقاضی ہے۔ مارکیٹ نواز قوانین کو گذشتہ برس منظور کیا گیا تھا لیکن اس کے بعد ہونے والے احتجاج کے باعث وہ سلسلہ آگے نہیں بڑھا کیونکہ کسانوں کا کہنا ہے کہ اس سے ان کی آمدنی میں کمی ہو گی۔

نریندر مودی نے عہد کیا تھا کہ کسانوں کی آمدنی دگنی ہو جائے گی۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ان اصلاحات سے زیادہ کچھ حاصل نہیں ہو گا اور حکومت کو اس شعبے کو سودمند بنانے کے لیے زیادہ خرچہ کرنا ہو گا تاکہ یہ زیادہ منافع بخش بن سکے۔

ڈیٹا: کیئرن لوبو

چارٹس: شاداب نظمی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32291 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp