پیاسا بندر اور بوسیدہ حویلی


اور جو منکر ہو گئے، ان کے اعمال چٹیل میدان میں ریت کی طرح ہے، جسے پیاسا (دور سے ) پانی گمان کرتا ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ اس کے پاس آتا ہے تو وہاں کچھ بھی نہیں پاتا۔ (سوائے اسی ریت کے )

۔ قرآن مجید سے

زندگی کے صحیح فلسفے کا سراغ مجھے کہیں سے نہ مل سکا تھا۔ بہت کٹھن وقت تھا کہ میں نے زندگی کی تلاش شروع کی کہ ایک صنف نازک کا پیٹ مجھ جیسے صنف کرخت سے بوجھل ہو گیا۔ مجھے پوری طرح سے اس کا احساس تھا کہ میرا وجود ابھی ناقص و نا تمام کی سرحد میں سانسوں کے سناٹے پر جھول رہا ہے اور ابھی میری حیثیت، ایک غلیظ قسم کے مادہ منویہ سے زیادہ کچھ بھی نہیں ہے۔ میں خون بستہ کا ایک لوتھڑا ہوں۔ اور پھر میں گہرے اندھیرے والی خون آلود کوکھ میں ایک حیوان کے حجم میں بڑھنے لگا۔

کچھ روز بعد مجھے ایک تیز روشنی محسوس ہوئی۔ اور اچانک میں نے دیکھا کہ میرے دونوں پاؤں جو میرے باقی اعضاء سے کافی حد تک دبلے پتلے تھے اور میرے دونوں ہاتھ جو شاید کسی کنگارو کے بچے کے چھوٹے ہاتھ سے بھی زیادہ کمزور اور چھوٹے رہے ہوں گے، ہوا میں لہرانے لگے۔ میں ایک جھولے میں تھا اور ایک نہایت تیز قسم کی روشنی نے میری آدھی بند آنکھوں کو چوندھیا دیا تھا۔

’یہاں اتنی روشنی کیوں؟ مجھے اندھیرے کی ضرورت ہے۔ اور میں انسان کہاں؟ کوئی مجھے اندھیرے میں لے جاؤ۔‘

میں نے چیخنا چلانا شروع کیا۔ اس نے میری ایک نہیں مانی۔

’تو میری کمزوری ہے اور جس وقت تک تو اچھلنا اور کودنا نہ سیکھ لے گا میں تجھے ہرگز خود سے دور نہیں ہونے دوں گی۔‘

یہ اس کا جواب تھا۔

میں پیدا ہو چکا تھا اور سورج ہر روز میرے جھولے کی جالی دار کھڑکیاں بدلتا اور اجالا دور کہیں مغرب میں گم ہو کر رہ جاتا۔ اور جس وقت چاند آسمان کے وسط میں آ جاتا اور اس کی سطح پر موجود ستاروں کی جھلمل قطاریں دنیا کو سبز رنگ میں غرقاب کر لیتیں تو میں پھر چیختا۔

’مجھے اندھیرے کی ضرورت ہے۔‘

پھر جب وہ مجھے اپنے خواب گاہ میں لے آتی اور یہاں اندھیرے میں لے کر لوریاں سنانے کے بے کار عمل سے وقت گزاری کرتی تو ساکت درختوں کا جمود ٹوٹتا اور بہت سارے چمگادڑ اس پر حملہ آور ہو جاتے۔ اور وہ اس کے ساتھ میرا بھی پورا خون چوس لیتے۔ وہ اس تکلیف سے بے نیاز ہو کر مجھے خواب کا لبادہ اوڑھا نے کی ناممکن کوشش سے ہر روز گزرتی۔

مجھے یاد نہیں کہ میں کب سے بندروں کی جون میں شامل ہو گیا اور ان کی طرح اچھل کود کرنے لگا۔ ایک روز کی بات کہ میں جنگل کے سبز درختوں پر اچھل کود کرتے وہاں تک پہنچ گیا، جہاں کوئی سبز رنگ وادی یا کسی جزیرے کا نشان تک کھوجنے سے دریافت نہ ہوتا تھا۔ اور اسی وقت میں نے اپنے گلے میں ایک مخدوش پھل کے اٹک جانے کی وجہ سے عجیب خارش محسوس کی، اور میری ادھ کھلی آنکھیں پانی کی تلاش میں پہلے سے کہیں زیادہ کھلی اور بڑی معلوم ہونے لگی۔

میں نے چمکیلی دھوپ کے ریگستان میں دور تک اپنی نگاہ اٹھائی۔ اور خوب زور سے چلایا۔
’پانی۔ آب۔ ماء۔‘

اب صرف انگریزی میں پانی کا ترجمہ کرنا باقی رہ گیا ورنہ میں کم و بیش تمام علاقائی زبان میں پانی کی مانگ کرچکا تھا۔ مجھے پانی کی ضرورت تھی اور وہ مجھے کہیں نہ مل سکا۔ مجھے وہ عورت یاد آئی۔ میں اس کے پاس آیا۔ مگر وہ بھی ایک ریگستانی علاقے میں داخل ہو چکی تھی۔ اس کے سفید کپڑے اور اس کے پیٹھ کے دونوں اطراف سے دو پر نکل آئے تھے اور وہ اسی سے فضاء میں اڑتی جا رہی تھی۔

’میں آب حیات کی جستجو میں بھٹکتی یہاں آ گئی ہوں۔ مگر تم۔ یہاں کیسے۔ ؟‘
اس نے ایک لمحہ مجھے مڑ کر دیکھا۔
’میں بھی زندگی کا پیاسا ہوں اور مجھے شدت کی پیاس لگی ہوئی ہے۔‘
’ہاں۔ وہاں پانی ہے۔ میں دیکھتی ہوں۔‘

اس نے اشارہ کیا۔ اور میں اس کے پیچھے چل پڑا۔ سورج اپنی زور افشانی پہ تھا اور تند ہواؤں میں لپٹے گرم ریت میرے جسم کے روؤں اور میری ساخت کے خد و خال تک کو بگاڑ رہے تھے۔ وہ اڑتی ہوئی ہوا کی زد میں تیرتی بہت دور نکل گئی۔

میں نے اپنے بگڑتے جلد کی ساخت کو بندر کے حجم سے ریچھ کے جون میں تبدیل ہوتے دیکھا اور پوری طاقت سے پکارا۔

’اے معبود میرے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے؟‘
کوئی جواب نہیں آیا۔
’مجھے اندھیرے سے روشنی میں لانے والا کون تھا؟
میں نے خود سے سوال کیا۔
’ایک تم ہی نہیں مجھے بھی عدم سے وجود میں لانے والا وہی ہے۔‘
خود کا جواب آیا۔
’مگر وہ ہے کون؟ کیا اس کا کوئی نام نہیں؟‘
’وہ خدا ہے اور اس کا نام اللہ ہے۔‘
’اور تم کون ہو؟‘
میں نے سختی سے کہا۔
’میں تمہارا ہمزاد ہوں، تمہارا سایہ اور ایک نادیدہ ریگستانی صحراء میں بھٹکتی ہوئی آتما ہوں۔‘

یہ سن کر میرا اپنا آپ توازن کھو بیٹھا اور مجھے دور ایک دریا نظر آیا۔ میں اس کی طرف لپکا اور قریب پہنچ کر دیکھا تو وہاں چمکتے ہوئے گرم ریت کے سوا کچھ نہ تھا۔ پھر وہاں مجھے ایک عورت ملی۔ وہ اتنے کم وقت میں جوان سے بوڑھی ہو چکی تھی۔ اس نے مجھے بتایا کہ میں وہی عورت ہوں جو مجھے اس ریگستان میں چھوڑ کر آب حیات کی تلاش میں بہت دور نکل گئی تھی۔

’آپ کو آب حیات کا کوئی سراغ دریافت ہوا؟‘ میں نے اس سے پوچھا۔
’نہیں۔‘ ہاں ایک بوسیدہ حویلی کا سراغ لگانے میں، میں کامیاب ہو گئی ہوں۔ ’
’بوسیدہ حویلی؟‘
’ہاں بوسیدہ حویلی۔‘
’خیر۔ وہاں آب حیات نہیں تو کم ازکم پانی تو ملے گا۔‘ میں نے کہا۔
’نہیں وہاں آب حیات جیسی امرت سے بھی زیادہ کئی غیر متوقع چیزیں ہیں۔‘ وہ ہنسی۔

’پھر تو اپنی زندگی کا آخری سورج دیکھنے سے پہلے پہلے میں اس بوسیدہ حویلی میں، ضرور جانا چاہوں گا۔‘ میں نے بھی مسکرا کر اس کا ساتھ دینا چاہا۔

میں اس کے ساتھ ہو لیا۔ اب میں اس حویلی کے بالکل قریب آ چکا تھا۔ وہ حویلی بہت زیادہ کشادہ اور روشن نہیں تھی۔ اس کا کوئی محراب تھا اور نہ اس پر گاڑھے آرائشی پلستر کا کوئی نشان۔ وہ جگہ بالکل سپاٹ اور دوسرے زمین کے مقابلے کچھ غیر ہموار تھی۔ ایک مصنوعی گڑھا تھا اور وہاں کچھ کچے اور ہرے بانس کے پپوٹے اور بیلی کے خاردار پتے رکھے ہوئے تھے۔ اور عجیب یہ کہ وہاں کچھ سفید پوش انسان رقص کر رہے تھے۔ رقص کرنے والوں کی بھیڑ میں سبھی عمر کے لوگ شامل تھے۔

بھیڑ سے نکل کر ایک بوڑھا میرے سامنے آیا۔
’میں تمہارا ہمزاد ہوں۔‘ اس نے ایک زور دار ٹھہاکا لگایا۔
’مگر ابھی تو مجھ میں عمر شباب کے لہو کا ایک قطرہ تک داخل نہیں ہوسکا۔‘
’تم بچے سے بوڑھے بنا دیے گئے ہو۔‘ وہ پھر سے ہنسا۔ اور غائب ہو گیا۔
’یہ کس حد تک مضحکہ خیزی والی بات ہے اور یہ حویلی بھی۔‘ میں بھی ہنسا۔
’اسی بوسیدگی سے آب حیات کو پا لینے کا سفر شروع ہوتا ہے اور یہیں سے تمہاری پیاس ختم ہوگی۔‘
بوڑھی عورت بھی ہنسی اور غائب ہو گئی۔ اور اس کے بعد وہ دونوں مجھے کبھی نظر نہ آئے۔

اسے آپ میرا واہمہ سمجھیے کہ میں اس گم نام حویلی میں داخل ہوا۔ مجھے یاد نہیں کہ کب میرا اپنا آپ اس بوسیدہ حویلی نما گڑھے میں ڈھیر ہو گیا۔ اور میں اس گڑھے میں ہمیشہ کے لیے سو رہا۔ مجھے احساس ہے کہ جب تک موت کا رقص تسلسل دوبارہ سے رک نہیں جاتا، میں کبھی اپنی نیند سے بیدار نہ ہو سکوں گا۔ میں نے زندگی نہیں دیکھی۔ اور موت مجھے اپنے پاس لے آئی۔ اب مجھے یقین ہو گیا ہے کہ زندگی بھیانک خواب میں آ کر تڑپا دینے والی ایک خلائی روشنی ہے اور موت اس روشنی کو ہمیشہ کے لیے غائب کردینے والا اندھیرا۔ مجھے اندھیرے کی ضرورت تھی، تاکہ میں آرام سے نیند لے سکوں۔ اور میں یہاں آرام کی نیند لے رہا ہوں۔ یہاں اندھیرا ہے، موت ہے اور میرا ٹھنڈا وجود۔ اس مخدوش پھل کی کڑواہٹ میرے حلق سے ابھی بھی دور نہ ہو سکی۔ مجھے ابھی بھی شدت کی پیاس لگی ہوئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments