میاں صاحب کو آخر کوئی کیوں نہیں پوچھ سکتا؟ (سیاسی افسانچہ)۔


”میاں صاحب، ہمارا انداز سیاست کچھ ٹھیک نہیں“ سینیئر پارٹی رہنما آج شکوے کے موڈ میں نظر آ رہے تھے۔
”کبھی ہم ایسی جارحانہ سیاست کرتے ہیں کہ لگتا ہے ہم سے بڑا کوئی انقلابی نہیں“ ۔
”اور کبھی ایسے خاموش ہو جاتے ہیں جیسے کبھی وجود ہی نہ رکھتے ہوں“ ۔

”اب تو جب ہم گرجتے ہیں تو لوگ سمجھنے لگتے ہیں ہم پس پردہ ڈیل مانگ رہے ہوتے ہیں اور جب خاموش ہو جاتے ہیں تو سمجھتے ہیں ڈیل مل گئی ہے یا مل رہی ہے“ ۔
”وہ سمجھتے ہیں کہ ہم انہیں جلسے جلوسوں میں کسی بڑے مقصد یا نظریے کے لئے نہیں بلکہ ڈیل کی غرض سے دباؤ ڈالنے کے لئے اکٹھا کرتے ہیں“ ۔

”نعرہ تو ہمارا ووٹ کو عزت دو ہے لیکن کوشش ہماری خدمت کو عزت دو کی لگتی ہے“ ۔
”ہم تاریخ میں امر ہو جانے کے بجائے اپنے ذاتی مفادات کی خاطر لمحۂ موجود میں زندہ رہنے کی جستجو کر رہے ہیں۔“

”کارکن گومگو کا شکار ہیں، اور سینیئر رہنما مشاورت میں شریک نہ کیے جانے پر نالاں، ہر طرف بے دلی پھیل رہی ہے“ ۔
”میڈیا اور تجزیہ کار بھی بدظن ہو رہے ہیں“ ۔
”ہماری ساکھ عوام میں تباہ ہوتی چلی جا رہی ہے، اور وہ وقت دور نہیں کہ جب ہم عوام کو آواز دیں اور وہ ہمیں سنجیدہ ہی نہ لیں“ ۔
سینیئر رہنما ایک ہی سانس میں سب کچھ کہہ کر خاموش ہو گئے۔

” ہماری مرضی ہے کہ پالیسیاں بناتے وقت عوامی امنگوں اور پارٹی کارکنوں کو خاطر میں لائیں یا نہ لائیں“ میاں صاحب کندھے اچکاتے ہوئے بولے۔
”پارٹی ہمارے گھر کی لونڈی ہی تو ہے۔“

مخفیؔ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

مخفیؔ

مخفیؔ سوچنے والا ذہن رکھتے ہیں اور دھڑکنے والا دل بھی، نہیں رکھتے تو بوجوہ اپنی شناخت آشکار کرنے کی ہمت نہیں رکھتے سو قلمی نام پر ہی اکتفا کیجئے۔ ویسے بھی شیکسپیئر فرما گئے ہیں، نام میں کیا رکھا ہے!

makhfi has 11 posts and counting.See all posts by makhfi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments