ملا عبدالسلام ضعیف: گوانتانامو بے اور ریڈ کراس کا کردار


\"\"

(پہلا حصہ: طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں)

طالبان کے سفیر ملا عبدالسلام کی کتاب ’مائی لائف ود دا طالبان‘ کے چند صفحات۔

گوانتانامو کے قید خانے میں دو ایسے قیدی بھی تھے جو ایک ٹانگ سے محروم تھے۔ ایک کا نام عبدالرؤف تھا اور دوسرے کا سلیمان۔ امریکیوں کا خیال تھا کہ ان میں سے ایک ملا داد اللہ ہے۔

قیدیوں کا یہ خیال تو نہیں تھا کہ سارے ریڈ کراس والے جاسوس ہیں مگر وہ یہ گمان کرتے تھے کہ کہیں امریکیوں نے ریڈ کراس میں اپنے جاسوس نہ گھسا دیے ہوں۔ لیکن ان تمام شبہات کے باوجود دیڈ کراس کا بہترین کام یہ تھا کہ وہ ہمارے خطوط بھیجتے اور لاتے تھے۔

وہ کتابیں بھِی لائے تھے مگر امریکیوں نے وہ چھین لیں۔ اگر ہم امریکیوں کے سلوک، خوراک یا بیماری کے متعلق کوئی شکایت کرتے تو اس کے نتیجے میں ہمارا برا حال کر دیا جاتا۔ مثال کے طور پر جب ہم نے ریڈ کراس سے شکایت کی کہ ہمیں مناسب مقدار میں کھانا نہیں دیا جا رہا ہے تو اس نے امریکیوں تک شکایت پہنچائی۔ امریکی غصے میں آ گئے اور اگلے ہفتے ہمارا مینیو پہلے سے بدتر ہو گیا۔

\"\"

مجھے یاد ہے کہ میرے بائیں پھیپھڑے اور کان میں درد تھا۔ میں واقعی اذیت میں تھا اور میں نے ریڈ کراس سے مدد مانگی۔ ریڈ کراس کے نمائندے نے میرا معائنہ کیا اور امریکیوں ڈاکٹروں کو میری مشکل سے آگاہ کیا۔ لیکن ڈاکٹروں نے میرا علاج نہیں کیا اور نہ تو میرا معائنہ کیا گیا اور نہ ہی دوائی دی گئی۔ ہر ہفتے میں اپنی صحت اور درد کے بارے میں شکایت کرتا لیکن کسی نے میری مدد نہ کی۔

ایک مرتبہ ریڈ کراس کا نمائندہ بدر الزمان بدر کا اس کے سیل میں انٹرویو لے رہا تھا۔ وہ اپنے حالات کے بارے میں شکایت کر رہا تھا اور ایسا کرتے ہوئے انگریزی بول رہا تھا۔ پنجرے کے باہر کھڑے سنتری نے سمجھ لیا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے اور اس کی بات ختم ہونے سے پہلے ہی سنتری اندر آیا اور بدر کو حکم دیا کہ وہ اپنے تمام کپڑے اور اشیا اس کے حوالے کر دے۔

بدر الزمان نے کہا کہ ’میں نے تو کچھ بھی نہیں کیا ہے۔ تم مجھے سزا کیوں دے رہے ہو؟‘
سنتری نے کہا ’باتیں مت کرو۔ مجھے اپنی چیزیں دو‘۔

اسے اپنے تمام کپڑے اور دوسری چیزیں ریڈ کراس کے نمائندے کے سامنے ہی سنتری کے حوالے کرنی پڑیں جو کہ بس کھڑا اس تمام معاملے کو دیکھتا رہا۔ وہ نہ تو کچھ کہہ سکتا تھا اور نہ کر سکتا تھا۔ جب انٹرویو ختم ہوا اور بدر اپنے سیل میں اکیلا تھا تو سنتری واپس آیا۔

\"\"

’پاگل آدمی! تم کس سے شکایت کر رہے تھے؟ تمہارا کیا خیال ہے کہ وہ تمہارے لئے کیا کر سکتا ہے؟‘ یہ کہہ کر سنتری نے بدر کو اس کی تمام اشیا لوٹا دیں۔

ہم نے اس واقعے کے بعد ریڈ کراس سے کوئی خاص شکایت نہیں کی۔ لیکن ہر ایک ان کی میٹنگ میں جانے کا منتظر رہتا تھا۔ یہ میٹنگ یکسانیت توڑ کر ایک مختلف ماحول میں لے جانے کا موقعہ فراہم کرتی تھیں۔ ہم سب بسکٹوں اور جوس سے واقعی خوب لطف اندوز ہوا کرتے تھے۔

گوانتانامو میں میرے آخری دو برسوں کے دوران انہوں نے دو پشتون ترجمان ڈھونڈ لئے تھے۔ ان میں سے ایک کا نام حبیب کبیر تھا اور دوسرا ارمان کہلاتا تھا۔ دونوں افغان تھے۔ ان میں سے ایک جرمنی میں رہتا تھا اور دوسرا فرانس میں۔ وہ دونوں اچھے انسان تھے۔ وہ قیدیوں سے محبت سے پیش آتے تھے۔

\"\"ہم ان کے چہروں کو دیکھ کر بتا سکتے تھے کہ وہ ہمارے مصائب دیکھ کر اذیت محسوس کرتے تھے۔ حبیب ہمارے پاس جب پہلی مرتبہ آیا تو اس کے بعد اس نے طویل عرصے تک چکر نہیں لگایا۔

اس نے بتایا کہ ’میں تمہیں اس حالت میں دیکھنا برداشت نہیں کر سکتا ہوں۔ جب میں کیمپ میں داخل ہوتا ہوں تو مجھے خوف آتا ہے کہ کہیں مجھے دل کا دورہ ہی نہ پڑ جائے‘۔

وہ ان پڑھ قیدیوں کی مدد کرتا تھا۔ تمام دن وہ ان کے گھر والوں کے لئے خط لکھتا تھا۔ بہت سے قیدیوں کو خبر ہی نہیں تھی کہ ان کے خاندان کہاں ہیں۔ حبیب ان کو تلاش کر کے ان کو پیغام پہنچانے کی کوشش کرتا تھا۔

\"\"

ارمان بھی قیدیوں کو ان کے خاندانوں سے ملانے کی کوشش کرتا تھا۔ وہ ہمارے مسائل کو، ہماری زبان کو اور ثقافت کو سمجھتا تھا اور ہم اس پر اعتبار کرتے تھے۔

جب میں گوانتانامو میں تھا تو مجھے علم نہیں تھا کہ ریڈ کراس قیدیوں کے لئے کتنا زیادہ کام کر رہی تھی۔ جب میں رہا ہوا تو پھر میں نے ان کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور مجھے پتہ چلا کہ وہ کتنا کام کر رہے تھے۔

ریڈ کراس ہماری اس وقت مدد کرنے کی کوشش کر رہی تھی جب ہمیں اس امریکہ کی جانب سے شدید تشدد کا نشانہ بنایا جا رہا تھا جو کہ خود کو آزاد لوگوں کی سرزمین کہتا تھا لیکن تمام قوانین اور انسانی حقوق کو اپنے بوٹوں تلے روندتا تھا۔

میں ریڈ کراس کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں اور مستقبل میں اس کی ہر کامیابی کے لئے دعا گو ہوں۔


طالبان کے سفیر عبدالسلام ضعیف اپنی گرفتاری کی روداد بیان کرتے ہیں
گرفتاری کے وقت ملا عبدالسلام ضعیف سفیر نہیں تھے
جب ملا عبدالسلام ضعیف امریکیوں کو دیے گئے
ملا عبدالسلام ضعیف: امریکی بحری جہاز کا قیدی
ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کا قیدی نمبر 306
ملا عبدالسلام ضعیف: ریڈ کراس، مسیحا یا جاسوس؟
ملا عبدالسلام ضعیف: قندھار کیمپ میں قرآن پاک کی بے حرمتی
ملا عبدالسلام ضعیف غداری پر آمادہ نہ ہوئے
ملا عبدالسلام ضعیف گوانتانامو بے میں 
عدنان خان کاکڑ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

عدنان خان کاکڑ

عدنان خان کاکڑ سنجیدہ طنز لکھنا پسند کرتے ہیں۔ کبھی کبھار مزاح پر بھی ہاتھ صاف کر جاتے ہیں۔ شاذ و نادر کوئی ایسی تحریر بھی لکھ جاتے ہیں جس میں ان کے الفاظ کا وہی مطلب ہوتا ہے جو پہلی نظر میں دکھائی دے رہا ہوتا ہے۔ Telegram: https://t.me/adnanwk2 Twitter: @adnanwk

adnan-khan-kakar has 1541 posts and counting.See all posts by adnan-khan-kakar

Subscribe
Notify of
guest
3 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments