دور حاضر میں توازن کا فقدان اور اس کی وجوہات


انسان کی مصروفیات اور مشاغل اس کی عادات اور رجحانات کو ظاہر کرتے ہیں۔ نفسیات کا علم اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ انسان کی شخصیت کا اندازہ اس کے کھانا کھانے کے انداز سے اور یہاں تک کے اس کے لکھنے کے انداز سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی طوفانی لہریں گزشتہ صدی سے پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لیتی آ رہی ہیں جس کے باعث ہماری بہت سی مصروفیات میں تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جو بالآخر ہماری عادات و اطوار پر بھی اثر انداز ہوتی ہیں۔

بہت سے کام جو پہلے گھنٹوں پر محیط انتھک محنت کرنے کے بعد انجام پاتے تھے اب ایک کلک سے ہو جاتے ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے میں ٹیکنالوجی نے آسانیاں پیدا کی ہیں۔ کھانا پکانے سے لے کر دیگر تحقیقات اور حتیٰ کہ ایجادات بھی بے حد آسان ہوتی جا رہی ہیں۔ انسان چونکہ فطری طور پر سہل پسند ہے، سو ان آسانیوں کی دلدل میں ایسا دھنستا چلا جا رہا ہے کہ اس نے ان پہلوؤں پر نگاہ کرنے کی زحمت نہیں کی جو ان آسانیوں کے باعث بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں۔

یہ ہی وجہ ہے کہ ہم نے اپنے مزاجوں اور رویوں میں اس تبدیلی کو یکسر نظر انداز کر دیا ہے جو ٹیکنالوجی کے بے دریغ استعمال کی وجہ سے پیدا ہو رہی ہے۔ دور حاضر کا انسان بے حد جلد باز ہو گیا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ پانچ منٹ کا وڈیو کلپ اس کی زندگی بدل دے۔ آج کل بہت سے موٹیویشنل سپیکرز سر گرم عمل نظر آتے ہیں۔ کوئی دو منٹ میں اپنی کامیابی کی داستان سناتا ہے، کوئی تین منٹ میں اپنی چوبیس گھنٹے کی روٹین بتاتا ہے اور کوئی کچھ بھی نہیں بتاتا لیکن پھر بھی لوگ اس سے متاثر ہو رہے ہوتے ہیں صرف اس لئے کہ وہ ہمیں سکرین پر نظر آتا ہے۔

ہر دور میں کامیابی کے مختلف معیار ہوتے ہیں۔ آج کل ہمیں کامیاب انسان وہ لگتا ہے جو کامیابی کی ٹپس بتاتا ہے۔ جب ہم ایسے لوگوں کو ان کی چند منٹوں کی محنت پر بے تحاشا داد وصول کرتا ہوا دیکھتے ہیں تو ساتھ یہ اثر بھی لیتے ہیں کہ ہمیں بھی ایسا ہی کچھ کرنا ہے جو ہم دنیا کو بڑھ چڑھ کر بتا سکیں۔ یوں کہنا مناسب ہوگا کہ ہم کامیاب ہوئے بغیر لوگوں کو کامیابی کا راز بتانا چاہتے ہیں۔ دوسروں کو متاثر کرنے کی ایک جنگ چھڑ چکی ہے اور ہم سب اس کا حصہ بن رہے ہیں۔

ایسے میں جب زندگی کی حقیقتیں ہمیں جھنجھوڑتی ہیں تو اپنے آس پاس سب کچھ پھیکا لگتا ہے۔ ہم مزید اپنی زندگی جینا نہیں چاہ رہے ہوتے۔ جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ جو ہم ظاہر کرنا چاہ رہے ہیں اور جو ہم اصل میں ہیں، ان دونوں کے درمیان بڑا فاصلہ ہے تو ہم مایوس ہو جاتے ہیں اور مایوسی ناکامی تک لے جاتی ہے۔ دراصل ہم سے محنت کی تھکن کا مزہ چھن گیا ہے۔ اس جلد بازی کی سیڑھی پر چڑھنے سے پہلے کی زندگی پر نظر دوڑائیں تو بیشتر ہاتھوں اور تقریباً ہر گھر کی الماریوں میں کتابیں نظر آتی تھیں۔

تب رویے بھی کتابی ہوا کرتے تھے۔ ایک مطالعہ کرنے والا شخص یہ اچھے سے سمجھتا ہے کہ بہت سے اسرار پہلے صفحے پر ہی نہیں کھلیں گے، بہت سی الجھنیں سلجھانے کے لئے پوری کتاب کو غور سے پڑھنا ہوگا اور صحیح نتیجہ تب ہی اخذ ہو گا جب کہانی کے ہر موڑ اور ہر کردار کو توجہ سے سمجھا جائے گا۔ اس طرح سے پڑھنے والے کی صبر کی مشق ہوتی ہے۔ اس میں ایک ٹھہراؤ آتا ہے۔ وہ حالات اور انسانوں کو جلدی پرکھنے کی غلطی نہیں کرتا۔ وہ اپنی کم علمی کو بھی قبول کرتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس کا علم، ضبط، صبر اور جستجو سب پروان چڑھتے ہیں۔ ان عادات سے اس کی شخصیت اور رشتوں دونوں میں توازن آتا ہے۔

جب سے دنیا ایک گلوبل ولیج بنی ہے تب سے علم کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر ہم سب کے لئے دستیاب ہو گیا ہے۔ اب کوئی بھی لاعلمی کا عذر پیش نہیں کر سکتا جس سے انسان کو بہت فائدہ حاصل ہوا ہے لیکن اس سہولت نے کہیں نہ کہیں میرٹ کو بحال رکھنا بھی مشکل کر دیا ہے۔ کچھ لوگوں کا علم بہت جامع ہوتا ہے لیکن وہ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق اس کو ترتیب دینا اور اس کی نمائش کرنا نہیں جانتے جس کی وجہ سے بیشتر میدانوں میں پیچھے رہ جاتے ہیں جبکہ بہت سے لوگ اپنے سطحی علم کی کرافٹنگ اس قدر دلکش انداز میں کرتے ہیں کہ سب کو متاثر کر کے کامیاب ہو جاتے ہیں۔

بہر حال یہ دنیا بے یقینیوں اور ناگہانی آفات کا گھر ہے۔ ہر شخص حالات کے بھنور میں ہے جس میں ثابت قدم وہ ہی رہ پاتا ہے جو اپنے اندر کے انسان کو مضبوط بناتا ہے، جو توازن کی لاٹھی پکڑ کر چلتا ہے، جو صبر کے مراحل سے گزرتا ہے۔ اس نازک دور میں جہاں ہر کوئی کسی نہ کسی کا Mentor بننا چاہتا ہے، لازم ہے کہ ہم اپنے لئے سچے اور کھرے لوگوں کا ساتھ تلاش کریں۔ اپنی بے ہنگم عادات میں توازن پیدا کریں اور غیر ضروری ترغیبات سے کنارہ کشی اختیار کریں۔ اپنی اور دوسروں کی کم رفتار والی حقیقی ترقی کو سراہیں۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھام کر ہی اس دشوار رستے کو طے کیا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments