اسلامی دنیا کا جمود اور اس کا حل


کائنات ایک مستقل جہد اور ربط مسلسل کا نام ہے جو رک نہیں سکتا۔ نظام دنیا ہر وقت بہتری کی طرف گامزن رہتا ہے اس میں ابتری کی گنجائش قطعی نہیں ہے۔ غور و فکر اور عقل و دانش انسانی معاشروں کا جزو لازم ہے جو ہر وقت آپ کو بہتری کا راستہ دکھاتا ہے۔ لیکن اس کے برعکس اسلامی معاشرے تنزلی کا شکار ہیں۔ ایک جمود کی سی صورتحال ہے جس میں بہتری کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ مسلمانوں کی زندگیوں میں جمود کیوں طاری ہے۔ ہمارے ہاں بڑھوتری کا عمل سست روی کا شکار کیوں ہے۔

ہم نے کبھی سوچا کہ ہمارے معاملات دن بدن کیوں الجھتے جا رہے ہیں۔ ان میں سلجھاؤ کی کوئی تدبیر نہیں ہو پا رہی۔ کہیں سے کوئی امید کی کرن بھی نظر نہیں آ رہی۔ ایسا کیوں ہے اور کب تک رہے گا۔ یہ جمود کب ٹوٹے گا۔ آئیے ہم ان سوالوں کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انسانی معاملات میں ماضی، حال اور مستقبل کا پہلو سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہوتا ہے۔ ماضی سے سبق سیکھنا، حال کا جائزہ لینا اور مستقبل کی منصوبہ بندی کرنا دنیا میں کامیابی کا سب سے کارگر فارمولہ ہے۔

آج دنیا کے ترقی یافتہ یا مہذب معاشرے اسی فارمولے کی بدولت ہی یہ مقام حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ دوسری طرف اس فارمولے سے بے اعتنائی نے ہمیں ناکامیوں اور مایوسیوں کے گڑھے میں پھینک دیا۔ آج مسلمان نوجوان اپنی تاریخ سے قطعی نا آشنا ہیں جبکہ دوسری طرف یہودی پکار پکار کے کہہ رہے ہیں کہ فتح خیبر تمھاری آخری کامیابی تھی۔ موجودہ دور کا ہندو ماضی کے جھروکوں سے باہر نہیں نکلا۔ وہ محمد بن قاسم سے لے کر بہادر شاہ ظفر تک کے تمام بدلے آپ سے لینا چاہتا ہے۔

صلیبی جنگیں، گیارہویں صدی میں پوپ اربن دوئم کی ترک سلجوقیوں کے خلاف ناکام مہم جوئی اور بارہویں و تیرہویں صدی میں خلافت عثمانیہ کی مضبوط بنیادیں آج بھی عیسائیوں کے ذہنوں میں نقش ہیں۔ حال پر نظر دوڑائیں تو ہر مذہب و خطے کے لوگ ایک مربوط و نتیجہ خیز منصوبہ بندی کے ساتھ مستقبل کی تیاری میں مصروف عمل ہیں۔ دوا سازی سے لے کر دفاع تک، سیاست سے لے کر معاشرت تک، مذہب سے لے کر معیشت تک اور کھیل سے لے کے صحت و تعلیم تک غرض کہ زندگی کے تمام شعبہ ہائے زندگی میں بتدریج بہتری لائی جا رہی ہے۔

دوسری طرف مسلم دنیا تاریخ سے ناآشنا، حال سے غافل اور مستقبل سے بے پرواہ ہو کر خواب غفلت میں جی رہی ہے۔ دنیا کے ہر خطے میں موجود اور بیش قیمتی قدرتی وسائل کے مالک ڈیرہ ارب سے زائد مسلمانوں میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو کرونا ویکسین بنا سکے۔ اوج ثریا کی بلندیوں کی مانند عروج پانے والی امت کا ایک بھی ملک ایسا نہیں جو اپنی زمیں میں چھپی معدنیات خود نکال سکے۔ اسلامی دنیا کے بیشتر ممالک دفاعی ساز و سامان تک مخالفین سے خریدنے پر مجبور ہیں۔

سائنسی ایجادات، ادویات اور جدید طبی آلات تو ایک طرف، کتابیں، کھیلوں کا سامان، صاف پانی اور اشیائے خورد و نوش تک برآمد کی جا رہی ہیں۔ پوری دنیا میں مسلمان ظلم و ستم، غربت و افلاس اور جہالت و لاعلمی کے گھپ اندھیروں میں بھٹک رہے ہیں۔ فرقہ واریت، نا اتفاقی اور باہمی اختلافات مسلمان معاشروں کو بری طرح زخمی کر چکے ہیں۔ مسلمان جس بے بسی اور لاچارگی کی تصویر بنے ہوئے ہیں اس کی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ مسلمانوں نے اپنی چودہ سو سالہ تاریخ میں بے شمار مشکل ادوار دیکھے لیکن اس وقت اسلامی تاریخ کا بدترین جمود طاری ہے۔

تاہم یہ بات ذہن نشین کر لی جائے کہ یہ صورتحال مستقل نہیں عارضی ہے صرف غور و فکر اور جدوجہد کی ضرورت ہے۔ اس پیچیدہ صورتحال سے نکلنے کے لئے تمام مسلمان معاشروں میں اجتماعی کوششوں کی ضرورت ہے۔ اسلام کا فلسفہ تاریخ، فلسفہ غور و فکر اور عقل و شعور، فلسفہ اخلاق اور فلسفہ جہاد کی روح کو سمجھنا ناگزیر ہو چکا ہے۔ ماضی، حال اور مستقبل کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کا جامع تصور عام فہم زبان میں پیش کیا جائے۔ مضبوط عقلی دلائل کے ساتھ ہر مسلمان کو باور کروایا جائے کہ وہ کہاں غلط ہیں اور کہاں ٹھیک۔

معاملات میں سلجھاؤ کے لئے کیا کرنا بہتر ہے اور کہاں اجتناب کیا جانا چاہیے۔ اپنے مقاصد اور لگن میں پختگی اور مستقل مزاجی لانا پڑے گی۔ نوجوان نسل دنیا کی رنگینیوں سے نکل کر عملی زندگی میں ایک فعال کردار ادا کرے۔ ہر نوجوان لیبارٹری اور لائیبریری کو اپنی زندگی کا جزو لازم بنا لے۔ علما اور مفکرین کے بعد سب سے اہم ذمہ داری روشن خیال طبقے پر عائد ہوتی ہے۔ اس طبقے پر لازم ہے کہ اسلام کی تشریح مغرب کی نظر سے نہ کی جائے۔

نام نہاد روشن خیالی اور ضعیف الاعتقادی کی جڑیں ختم کرنا پڑیں گی۔ یہود ہنود کا طرز زندگی اسلامی معاشروں میں بری طرح سرایت کر چکا ہے۔ ہماری کمزوریوں سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اصنام پرستوں نے بھی اپنے نقش چھوڑ دیے ہیں۔ ان عوامل کی وجہ سے ہم میں جذبہ حب الوطنی اور جذبہ حب اسلام معدوم ہو رہا ہے جو ہماری ناکامیوں کا سب سے خطرناک عنصر ہے۔ اس المیے سے ترجیحی بنیادوں پر نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اسلام کی مدلل اور سائنسی بنیادوں پر تشریح اور اشاعت ہی مسلم امت کو اس مایوس کن صورتحال سے نکال سکتی ہے۔

مسلمان حکمرانوں اور اشرافیہ کو چاہیے کہ وہ مطلق العنانیت ترک کر کے اپنی تر توانائیاں امت کی فلاح پر صرف کریں۔ قومی معاملات ہوں یا عالمی، بات معیشت کی ہو یا سیاست کی، مسئلہ کشمیر کا ہو یا فلسطین کا، آپ کے قول و فعل میں انفرادیت کی بجائے اجتماعیت کا عنصر غالب ہونا چاہیے۔ مغرب کے اصول انصاف اسلامی معاشروں میں قابل عمل نہیں ہو سکتے۔ اسلام کا متعین کردہ نظام عدل ہی اسلامی ممالک کی ڈوبتی ناؤ کو کنارے لگانے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ آج کا مسلمان ایک دوراہے پر کھڑا ہے۔ دنیا و آخرت کی کامیابی کا انحصار بھی اس کے طرزعمل پر ہے۔ میرا پختہ ایمان ہے کہ امت مسلمہ کی فلاح اسلامی تعلیمات، غور و فکر اور عقل و دانش میں پنہاں ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments