بات تو سچ ہے مگر


ذرا سوچیں! مفتی اس عالم دین کو کہا جاتا ہے جو اسلام کے حوالے سے فتوے دینے کا اختیار رکھتا ہو۔ مفتی کے ایک فتوے سے کوئی فاسق، کافر یا واجب القتل قرار دیا جا سکتا ہے۔ لہذا ایک مفتی کا متقی، بلند کردار اور پاکیزہ شخصیت کا حامل ہونا انتہائی ضروری ہے۔

مگر حیرت ہوتی ہے کہ آخر یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی مفتی بھی ہو اور شرمناک حرکات میں ملوث بھی؟ مدرسے کا معلم بھی ہو اور اخلاقیات سے عاری بھی؟ پاکیزگی سے دور بھی ہو اور ناموس رسالت پر نکلنے والی ریلیوں کا مقرر بھی؟ مگر کس مفتی، مولانا یا علامہ کی بات کریں کیونکہ واقعات کوئی ایک یا دو نہیں بلکہ ساحل نامی ایک این جی او کے مطابق پچھلے دس سالوں میں مدارس میں زیادتی کے 359 واقعات رپورٹ ہوچکے ہیں اور جن واقعات کو دبا دیا گیا یا جن پر آواز ہی نہیں اٹھائی گئی ان کی تعداد کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔

پچھلے دنوں ایک بلاگ پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں بلاگر نے اپنے بچپن کی تلخ یاد دہراتے ہوئے بتایا کہ کس طرح اسے ایک مدرسے میں زیادتی کا نشانہ بنایا گیا اور جب اس نے گھر آ کر یہ بات بتائی تو کسی نے اس کی بات کا یقین نہیں کیا۔ نا جانے کتنے ہی بچے ایسے بھی ہیں جن کی آواز کو دبا دیا جاتا ہے۔ لیکن ذرا سوچیں کہ جن اداروں میں اللہ اور رسول کا نام لیا جاتا ہو اور جہاں مدرسے اور اسلام کو ایک ہی سمجھا جاتا ہو وہاں ایسے واقعات بچے کی نفسیات اور اسلام کے بارے میں اس کی فہم پر کیا اثرات مرتب کرتے ہوں گے۔

سوال یہ ہے کہ جو بچہ دین سکھانے والے استاد کو ایسی حرکتوں میں ملوث دیکھتا ہو گا تو کیا وہ خود کبھی دین کا احترام کر پائے گا؟ ایسے ماحول میں زیر تربیت بچے بڑے ہو کر پر تشدد جلسے جلوس نہیں کریں گے، ناموس رسالت کی ریلیوں میں آگ نہیں لگائیں گے تو اور کیا کریں گے۔ جب ناموس رسالت کے نام نہاد پروانے اور مدرسے کے سینئر استاد رذیل حرکتوں میں ملوث ہوں گے تو ان کے زیر تربیت بچوں سے آپ کیسی امید رکھ سکتے ہیں؟

ایسے ماحول میں پڑھنے والے بچوں سے آپ اسلام کی کس خدمت کی توقع کر سکتے ہیں؟ ریسرچ بھی یہی کہتی ہے کہ ایسے بچے جو بچپن میں زیادتی اور تشدد کا نشانہ بنتے ہیں ان میں بڑے ہو کر انہی کاموں میں ملوث ہونے کا رجحان عام بچوں کی نسبت بہت زیادہ ہوتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مدرسے میں ہونے والے واقعات کو یہ کہہ کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ ایسے واقعات تو لبرل اداروں میں بھی ہوتے ہیں مگر مدرسے میں ہونے والے واقعات کو اس لئے اچھالا جاتا ہے تاکہ مدرسوں کو بدنام کیا جا سکے۔

ادارے بدنام ہونے سے زیادہ آپ کو اس بات کی فکر کیوں نہیں ہوتی کہ مدرسوں میں اس طرح کے واقعات سے اسلام کے نام پر حرف آ تا ہے؟ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں ایک تاثر عام ہے کہ مدرسہ، مولوی اور اسلام کو ایک ہی سمجھا جاتا ہے اور ایسا اس لئے ہے کیونکہ لوگوں کی ایک اکثریت اسلام کا علم مدرسے یا مولوی سے ہی حاصل کرتی ہے، کسی کے پاس اتنی فرصت نہیں ہوتی کہ اس علم کی تصدیق کے لئے اصل کتابوں کے حوالہ جات کا مطالعہ ہی کر لیا جائے۔

اسی لئے ہمارے ہاں مولویت کو رواج ملا ورنہ اسلام میں مولویت کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مولویت عیسائیت میں موجود پاپائیت سے بہت مشابہ ہے۔ عیسائیت میں بھی چند مخصوص رسومات کے لئے اجرت پر پادریوں کی تقرریاں کی جاتی ہیں جیسے کے شادی یا میت کی رسومات وغیرہ۔ ہمارے ہاں بھی یہ تصور موجود ہے کہ نکاح اور نماز جنازہ وغیرہ مسجد کے امام کے بغیر ممکن نہیں۔ لہذا مساجد میں امام کی تقرری اجرت پر کی جاتی ہے۔ حالانکہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق کوئی بھی عاقل و بالغ مرد یہ امور سر انجام دے سکتا ہے اور اس کے لئے مدرسے سے سند یافتہ کسی امام کی تقرری کی ضرورت نہیں۔

دور رسالت میں کوئی ایک بھی مثال موجود نہیں کہ جب اجرت پر مسجد میں کوئی تقرری کی گئی ہو۔ مشہور عالم دین ڈاکٹر اسرار احمد کا کہنا تھا کہ ’جب دین پیشہ بن جائے تو کوئی خیر باقی نہیں رہتی‘ ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ دین جس شخص کے حلیے تک محدود ہو اور دل میں راسخ نہ ہوا ہو، اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ اسی شخص سے ہے کیونکہ حلیہ بدل کر تو ابلیس بھی صفوں میں گھس جاتا ہے

سیدنا علیؓ سے روایت ہے کہ رسول پاکﷺ نے فرمایا کہ اندیشہ ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی آئے گا جب اسلام میں اس کے نام کے سوا کچھ نہیں بچے گا، قرآن میں اس کے رسم الخط کے علاوہ کچھ باقی نہیں بچے گا ان کی مسجدیں آباد تو بہت ہوں گی لیکن ہدایت سے خالی ہو جائیں گی۔ اور ان کے علماء آسمان کے نیچے بد ترین انسان ہوں گے۔ فتنہ انہی کے اندر سے برآمد ہو گا اور انہی میں گھس جائے گا (حوالہ:مشکوۃ) ۔ ڈاکٹر اسرار احمد اور چند علماء حق کے علاوہ یہ حدیث پاک آپ کسی کے خطبے میں نہیں سنیں گے۔ لیکن غور و فکر کے لئے یہی حدیث کافی ہے۔

ڈاکٹر نازیہ نذر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ڈاکٹر نازیہ نذر

ڈاکٹر نازیہ نذر سے ان کی ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے nazianazar783@gmail.com

dr-nazia-nazar has 6 posts and counting.See all posts by dr-nazia-nazar

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments