دو ”غیر افسانوی“ شاہکار: ”مرنے کے بعد کیا ہوگا“ اور ”کوک شاستر“


نان فکشن کے لیے کسی اچھی اصطلاح سے ہم لاعلم ہیں۔

یہ دو ”غیر افسانوی“ کتابیں یعنی؛ ”مرنے کے بعد کیا ہوگا“ اور ”کوک شاستر“ مملکت خداداد اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ”بہت ہی زیادہ مشہور ترین“ ہیں، اتنی زیادہ کہ ہمیں لگتا ہے ”بہت ہی زیادہ مشہور ترین“ لکھ کر بھی ہم ان کتب کی شہرت کا حق ادا نہیں کرسکے۔ یا پھر دوسری کتاب مشہور کے بجائے بدنام بھی کہلا سکتی ہے۔

پہلی ہم اس وقت پڑھی جب کہ نابالغ تھے اور اب بھی ہمہ اقسام و عمر کے نابالغان کو یہ کتاب خریدتے اور پڑھتے دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس کتاب کا مطالعہ بھی عذاب قبر سے کم نہیں۔ یہ اور بات ہے کہ یہ کتاب پڑھنے کا بعد بندہ رات کو چونک چونک کر اٹھ بیٹھتا ہے جبکہ قبر سے یوں اٹھے گا کہ حیرت سے دریافت کرے گا کہ ”کہیں گے ہائے افسوس کس نے ہمیں ہماری خواب گاہ سے اٹھایا!“

ڈاکٹر طاہرہ کاظمی صاحبہ نے اس کتاب کی تعریف کچھ اس طرح فرمائی ہے :

”وطن عزیز میں ایک ہی کتاب بکتی ہے“ مرنے کے بعد کیا ہو گا ”۔ حالیہ زندگی کی کٹھنائیوں اور نارسائی سہنے والوں کو یہ کتاب کہیں اور پناہ لینے کے سپنے دیکھنے پہ اکساتی ہے لیکن مشکل یہ ہے کہ اس میں لکھے گئے فسانے پڑھنے کے بعد رواں زندگی ہی جنت کا ٹکڑا محسوس ہونا شروع ہو جاتی ہے۔“

(اور یہی مختصر سا تعارف / تعریف ان سطور کا محرک بھی بنا)

سو قرآنی تعلیم اور دیگر دیومالائی قسم کی کتابوں میں فرق صاف ظاہر ہے۔

دوسری کتاب کی بعد از بلوغت تلاش جاری ہے کہ یہ کتاب نایاب ترین ہے اور بازار میں دستیاب کوک شاستر، مہا کوک شاستر اور خفیہ کوک شاستر نامی نسخہ جات مع پی ڈی ایف، کشتہ جات کی طرح ہی ناقابل بھروسا ہیں۔

مشہور اردو ویب سائٹ ”ریختہ“ پر اس کتاب کا تعارف ان لفظوں میں کیا گیا ہے، آپ بھی دیکھیے ریختہ اس میں کیا دیکھتا ہے : (بریکیٹس میں راقم الحروف کی وضاحتیں ہیں )

یہ خفیہ کوک (یہ ہندی/سنسکرت والا کوک ہے ) شاستر جنسیات پر محمول (معمول سے گڈمڈ نہ کیجیے گا) ایک کتاب ہے۔ کوک شاستر کا لفظ دو اجزا سے مل کر بنا ہے۔ اول کوک جس کے معنی پہلو اور مجازا عورتوں کی شرمگاہ (حقیقت میں یہ کوئی مقام شر (م) نہیں) کے ہیں اور شاستر کتاب کو کہتے ہیں۔ اس لئے اس کے معنی ہوئے ایسی کتاب جو عورتوں کے اجزائے مخصوصہ (کے بیان) پر مشتمل ہو۔ اس فن شریف (یہاں فن انگریزی والا بالکل بھی نہیں) کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ یہ وہ علم ہے جس سے ہم یہ جان سکیں گے کہ اولاد نرینہ کس طرح سے پیدا کی جائے (کیوں کہ اولاد غیر نرینہ تو پیدا ہو ہی جاتی ہے) اور اس کے لوازمات کیا کیا ہیں۔

اب یہ ظاہر ہے کہ یہ علم مرد، عورت، نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لئے کتنا اہم ہے۔ یورپ وغیرہ میں جنسیات کو باقاعدہ (اور ہمارے ہمہ اقسام تعلیمی اداروں میں بے قاعدہ ) سلیبس میں پڑھایا جاتا ہے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ نوجوان نسل کے اندر بیداری پیدا ہوئی اور وہ ان غلطیوں سے بچ جاتے ہیں جو وہ انجانے میں کر جاتے تھے۔ اسی لئے کوک شاستر کی ہر سماج اور ہر طبقے میں اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر ہمارے ہندوستانی سماج میں جہاں کوک شاستر کو ایک طرف فن شریف کا درجہ دے دیا گیا ہو اور دوسری طرف جنسیات کے نام پر ہزاروں وڈم بنائیں (ستم ظریفیاں) رائج ہوں۔

اس کتاب میں بھی مصنف نے جنسیات کے موضوع پر بہت کھل کر بات کی ہے اور میاں بیوی کے درمیان سنتوشٹی (آسودگی ) کس طرح سے ہو سکتی ہے اس کے طریقے بھی بتائے گئے ہیں۔ اور یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ہمبستری کن کن اوقات میں کرنا چاہیے اور کن اوقات میں پرہیز کرنا چاہیے۔ اس کے علاوہ صحت حمل پر بہت کھل کر بات کی گئی ہے اور آخر میں بہت سے نسخے قوت باہ کو بڑھانے کے لئے اور بچوں کے امراض کے بارے میں بتائے گئے ہیں۔ ایک خوشحال ازدواجی زندگی جینے کے لئے ہر اس نوجوان کو جو شادی کرنا چاہتا ہو، (شادی والی بات پرانی ہو گئی ہے، اب تو جو نوجوان شادی نہ کرنا چاہتا ہو اس کے لیے زیادہ) ضروری ہے کہ کوک شاستر کا مطالعہ کرے تاکہ وہ اس کی نزاکت اور اس کی اہمیت کو سمجھ سکے اور اس کو اچھے سے برت سکے۔ نیز وہ ازدواجی زندگی کو اپنے لئے آسان بنا سکے۔ (آخری بات کہ کتاب میں درج تمام اعمال، عملیات اور نسخہ جات پر عمل اپنے رسک پر کریں )

یہاں اس بات کی وضاحت کرنا ضروری ہے کہ اس کوک شاستر میں نہ تو کوکا کولا کا ذکر ہے اور نہ ہی کسی اور انگریزی کوک کا۔

دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ اس کتاب سے نہ صرف نوجوانوں اور جوانوں کی دلچسپی ضرب المثل ہے بلکہ ”ناجوانوں“ کی دلچسپی بھی کبھی کم نہیں ہوتے دیکھی۔ ہم نے عصا بردار اور ”مرتعش البدن“ حضرات کو بھی اس کتاب کے بارے میں بہ لکنت دریافت کرتے دیکھا ہے۔

لرزش نگہ میں، لہجے میں لکنت عجیب تھی
اس ”رنگینی خیال“ کی وحشت عجیب تھی
(امجد اسلام امجد صاحب سے معذرت کے ساتھ)

اور ہمیں یقین ہے کہ ایسے بہت سے حضرات اگر اس کتاب کا نام نہاد اصل نسل نسخہ پا لیں تو شاید خوشی سے مر ہی جائیں۔ لیکن صد شکر کہ یہ نام نہاد کتاب نایاب اور نسخہ کیمیائی کہیں پارس پتھر کے ساتھ ہی دفن دفعان ہو گئی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments