کیا ہم زومبی ہیں؟ (خط نمبر 3)


محترم ڈاکٹر خالد سہیل!

مجھے آپ کا جواب پڑھ کر ایک الگ سی خوشی ہوئی۔ اس خوشی میں الگ بات یہ تھی کہ شاید زندگی میں پہلی مرتبہ مجھے یہ موقع مل رہا ہے کہ میں اپنے اور اپنے ہم عمر لوگوں کے مسائل کی کھل کر ترجمانی کر سکوں۔ ان مسائل کی تہہ پر اپنے نمبر کٹوائے جانے یا گستاخ قرار دے دیے جانے کے خوف کے بغیر سوال کر سکوں۔ میں آپ کی شکر گزار ہوں کہ آپ اپنی مصروف زندگی میں سے قیمتی وقت ہم نوجوانوں کے مسائل کے ممکن جوابات کی نذر کر رہے ہیں۔ چونکہ آپ نے پچھلے خط میں مجھ سے نوجوانوں کے اہم مسائل کے متعلق دریافت کیا ہے سو میں اپنی اس تحریر میں کچھ اپنے تجربات کی روشنی میں اپنے خیالات پیش کرنا چاہوں گی۔

سر۔ میں بچپن میں کارٹون دیکھا کرتی تھی جن میں کچھ zombies ہوتی ہیں اور وہ ایک گاؤں پر حملہ کر دیتی ہیں۔ گاؤں کے ہنستے مسکراتے لوگوں کو جب جب zombies کاٹتی ہیں اور ان کا خون چوستی ہیں تو وہ عام ہنستے مسکراتے لوگ بھی zombies کی طرح بے رنگ ہو جاتے ہیں۔ ہنسنا، مسکرانا چھوڑ دیتے ہیں اور ایک ہی سمت میں چلنے لگ جاتے ہیں۔ یہ نئی بننے والی zombies نئے نئے لوگوں کو ٹارگٹ کرتی ہیں۔ ان کو کاٹتی ہیں، ان کا خون چوستی ہیں اور انھیں بھی اپنے جیسا ہی بنا دیتی ہیں۔

سر۔ میں اگر اپنے ماضی کی طرف نظر دوڑاؤں تو میں جتنی بھی پیچھے چلی جاؤں، خود کو قید ہی پاتی ہوں۔ مجھے اپنے ساتھ بوجھ بندھا محسوس ہوتا ہے۔ میرے والدین بتاتے ہیں کہ میں ساڑھے تین سال کی تھی جب مجھے سکول میں داخل کرا دیا گیا تھا۔ میرے ذہن میں میری بچپن کی کوئی یاد ایسی نہیں جس میں سکول، ٹائم ٹیبل اور بہت سارے ہوم ورک کی فکر شامل نہ ہو۔ ویک اینڈ پر الگ سے ہوم ورک ملا کرتا تھا اور گرمیوں کی چھٹیوں میں بھی لکھنے کو بہت کچھ ملتا اور چھٹیوں کے فوراً بعد امتحانات ہوتے۔

ساری چھٹیاں اسی سب میں گزر جاتیں۔ اسکول اور کالج کے کئی سال اسی طرح کے پریشر میں گزرے۔ میرا اسکول گھر سے تقریباً تیس کلو میٹر دور تھا۔ روز صبح بہت جلدی اٹھ کر ہم گاڑی میں بیٹھ جاتے۔ میں ہمیشہ گاڑی کی کھڑکی والی طرف بیٹھا کرتی تھی۔ یہ عادت اب بھی میرے ساتھ موجود ہے۔ میں باہر آتے جاتے لوگوں کو سارا سفر دیکھتی جاتی۔ سفر کے دوران ایک جگہ وہ آتی تھی جہاں کچھ خانہ بدوش رہتے تھے۔ ان کے بچے صبح صبح اپنے ٹینٹ نما گھروں کے باہر کھیل رہے ہوتے اور ہنس رہے ہوتے۔

وہیں میں کبھی کسی ہوم ورک کی فکر میں اور کبھی کسی ٹیسٹ کی سوچوں میں ہوتی۔ ان بچوں کو ہنستے ہوئے دیکھتی تو حیران ہوتی کہ شاید ان بچوں کی زندگی میں کامیابی کا کوئی تصور ہی نہیں۔ میں جو صبح صبح تیار ہو کر اتنا سفر کر کے اسکول پہنچتی ہوں، پھر اکیڈمی پڑھتی ہوں اور اتنے سفر کے بعد گھر پہنچ کر قاری صاحب سے قرآن پڑھتی ہوں۔ بچا ہوا ہوم ورک کرنے کے بعد رات گئے سوتی ہوں اور اگلی صبح پھر سے یہی روبوٹ جیسی زندگی شروع ہو جاتی ہے۔

آخر یہ کامیابی کے لیے ہی تو ہے۔ جیسے سب بڑے کہتے ہیں کہ اپنا آج قربان کر کے ہی کل کو حسین بنایا جا سکتا ہے۔ میں نے اس سوچ کے تحت دوسروں کی طرح ہمیشہ اپنا آج قربان کیا مگر دل ہی دل میں میں ان خانہ بدوش بچوں کی قسمت پر رشک بھی کرتی تھی کہ ان کی مسکراہٹیں وقت کی قید سے آزاد تھیں اور وہ اپنے آج میں تھے اور میں پتا نہیں کہاں تھی۔ مجھے ایسا لگا کہ شاید امیر اور غریب صرف پیسے کی تقسیم نہیں۔ شاید یہ تقسیم کچھ اور ہی ہے۔

آج قربان کر کے ہی کل حسین ہو گا! اس فلسفے کو ذہن میں بسائے میں اپنے اردگرد بڑوں پر غور کرنے لگی تھی۔ میں ڈھونڈ رہی تھی کہ کون بھلا اپنے اس حسین کل میں جی رہا ہے جو مجھے بھی کل کو نصیب ہو گا؟ میں آج بھی ایسوں کو ڈھونڈتی ہوں اور مجھے مکمل لوگ دکھائی نہیں دیتے۔ ہر کوئی ادھورا سا ہے اور آگے کو دیکھ کر چلتا جا رہا ہے۔ میرے دادا ابو نے 2019 میں ایک سو پانچ سال کی عمر میں وفات پائی۔ میں جب ان سے زندگی کے مختلف پہلوؤں پر بات کرتی تو مجھے اتنی طویل زندگی میں کچھ نیا دکھائی نہ دیتا۔

ہر بڑے سے زندگی پر سے بات کر کے کچھ منفرد نہیں ملتا تھا جیسے زندگی ایک ندی کی مانند بہہ رہی تھی اور ہم بھی اس میں بہتے گئے اور آج میں جب چھوٹے چھوٹے بچوں کو ان کی مسکراہٹیں کھوتے دیکھتی ہوں کہ کس طرح ان کے کندھوں پر بھی کامیاب آدمی اور بڑے آدمی جیسے بڑے بڑے بوجھ ابھی سے لاد دیے گئے ہیں تو مجھے اپنا بچپن یاد آ جاتا ہے کہ میں بھی اس پریشر سے گزری تھی۔ نہ ہی اپنے موجودہ حالات میں کوئی سکون دکھائی دیتا ہے اور نہ ہی بزرگوں کو دیکھوں تو تسلی ہوتی ہے۔

میں سمجھ نہیں پاتی ہوں کہ آخر زندگی کا کون سا حصہ ہے جو انسان بخوشی گزار سکتا ہے؟ مجھے وہی بچپن والے کارٹون اب اپنے اردگرد دکھتے ہیں کہ روایتی لوگ zombies کی طرح دوسرے لوگوں کے اندر سے اپنے حال کو جینے کا لطف نکال پھینکتے ہیں اور انھیں کاٹ کر اپنے جیسا بنا دیتے ہیں۔ یہ بھی پھر zombies بن جاتے ہیں اور ایک ہی سمت میں چلنے لگتے ہیں۔ سب حال سے بے خبر ہوتے ہیں اور کھلی آنکھوں کے ساتھ بھی کچھ الگ اور نیا نہیں دیکھ پاتے۔ ایسا لگتا ہے کہ معاشرہ ہی zombies کا بن گیا ہے۔ ہم سب بغیر passion کے بس زندگی گزارتے جا رہے ہیں یہاں تک کہ موت ہمیں گلے لگانے آ جائے۔

سر۔ یہ سوال ہمیشہ سے میرے ذہن میں رہا ہے کہ آخر ”کامیابی“ کیا ہے؟ ”زندگی“ کیا ہے؟ حال میں جینا کیا ہے اور کیا واقعی حال کو ذبح کر کے ہی مستقبل حسین بنتا ہے؟

آپ کے جواب کی منتظر
مقدس مجید
24 مئی 2021

اس سیریز کے دیگر حصےکامیاب زندگی کے راز (خط نمبر 4)بری عورت کی کتھا (خط نمبر 5)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
1 Comment (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments