عہد ساز فن کار کیا ہوتا ہے؟


\"\"ہمارے ایک دوست نے ہمیں کل پرسوں فیس بک پر ان فرینڈ کر دیا کیونکہ ہم نے استاد فتح علی خان مرحوم کے بارے میں کچھ ایسا لکھا جو ان سے برداشت نہیں ہوا۔ ہم نے استاد مرحوم کی شان میں کوئی گستاخی نہیں کی ۔ اصل میں ہم اپنے گائیک دوست طاہر خان سے اپنی ٹائم لائن پر گفتگو کر رہے تھے اور ایک جگہ ہم نے طاہر سے یہ کہہ دیا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ فتح علی کوئی لیجنڈ (عہد ساز ) گائیک تھے۔ اب ہمارے یہ دوست چاہتے تھے کہ ہم اپنی ٹائم لائن پر بھی ان سے پیشگی اجازت لیکر کچھ لکھیں۔ چلو جو ہوا، اچھا ہوا۔

ہماری نظر میں عہد ساز انسان وہ ہوتا ہے جو اپنے شعبے میں کوئی ایسی اختراع کرے جسے دنیا اپنانے پر مجبور ہو جائے نہ چاہتے ہوئے بھی۔ انیسویں صدی میں جاتے ہیں۔ اس وقت کلاسیکل موسیقی کے طلبا اور یہ کام کرنے والے اگر کسی کے نقشِ قدم پر چلتے تھے تو وہ تھے کیرانہ گھرانے کے بانی خان صاحب استاد عبدالکریم خان ۔ ان کے 78 rpm(توے )موجود ہیں، سن لیں کیا سحر انگیز گانا ہے! ایسا لگے گا کہ سر ہاتھ جوڑے ان کے سامنے کھڑا ہے اور بنتی کر رہا ہے کہ حضور جیسے چاہے مجھے لگائیں اور جس شکل میں لگانا چاہیں لگائیں۔ میں آپ کا غلام! استاد سلامت علی خان صاحب (جو کہ خود ایک عہد ساز گویے کی تعریف پر پورے اترتے ہیں) ایک دن ستار نواز استاد نفیس خان سے کہنے لگے کہ اگر آج خان صاحب استاد عبدالکریم خان یا بڑے غلام علی خان زندہ ہوتے تو میں ان کا شاگرد بننا پسند کرتا۔ (سلامت خان صاحب ان دونوں کی پیروی کرتے تھے۔ یہ بات سننے والا محسوس کر سکتا ہے ان کے گانے میں)۔ اب بیسویں صدی میں آجائیں۔ دو نام ملیں گے آپ کو۔ استاد امیر خان صاحب اندور والے اور استاد بڑے غلام علی خان صاحب۔ فی الوقت کوئی بھی گویا یا تنت کار اپنے کام میں آگے جا ہی نہیں سکتا جب تک ان دونوں کو نہ سمجھ لے۔ آپ گائیں ماروا یا ہنس دھناور بچ کر دکھائیں امیر خان صاحب کے اثر سے اور پھر رچا کر بھی دکھائیں۔ درباری گائیں اور بچیں بڑے غلام علی خان صاحب کے سحر سے۔ گائیں کوشک دھن میں \”یاد پیا کی آئے\” اور کریں اسے جدا بڑے غلام علی خان سے۔ ایک رکشے والا گاتا ہے یاد پیا کی آئے اور سوشل میڈیا کے ذریعے راتوں رات نامور ہو جاتا ہے۔ یہ ہوتا ہے لیجنڈ۔ اگر آپ نے ٹھمری کا ماہر بننا ہے تو کر کے کھائیں نظر انداز بڑے غلام علی خان اور برکت علی خان صاحب کو ۔ کچھ کر لیں، نہیں بچ سکیں گے ان سب کے اثر سے!

اب اکیسویں صدی میں آجائیں۔ آپ کو کامیاب گویا بننے کے لئے سلامت علی خان کو دیکھنا پڑے گا۔ اگر غزل میں نام کمانا ہے تو کیسے ہٹیں گے مہدی حسن یا غلام علی صاحب کے راستوں سے؟ اگر سیدھی غزل گانی ہے تو جگجیت سنگھ سے تو فیض اٹھانا ہی پڑے گا۔ اگر قوالی کرنی ہے تو نصرت فتح علی خان اور غلام فرید اور مقبول صابری کے کام کو سمجھنا پڑے گا۔ اگر پلے بیک سنگر بننا ہے تو رفیع صاحب، کشور کمار اور لتا اور آشا کو گرو مانے بغیر کچھ ممکن نہیں۔

 کیسے کوئی طبلہ سیکھ سکتا ہے اگر استاداحمد جان تھرکوا، استاد امیر حسین، پنڈت شانتا پرشاد، پنڈت کشن مہاراج، استاد اللہ رکھا، استاد ذاکر حسین یا پنڈت آنندو چٹر جی کو نہ دیکھے! سرود استاد امجد علی خان کے بغیر اپنا وجود ہی نہیں رکھتا۔ ستار استاد ولایت خان صاحب اور استاد شاہد پرویز کے بغیر ادھورا۔ ستار پر اگر بین کا باج بجانا ہو تو استاد شریف خان پونچھ والے کے کام کو سمجھنا ہو گا۔ سنتور کی موجودہ شکل پنڈت شیو کمار شرما کی دین ہے۔ شہنائی استاد بسم اللہ خان صاحب کا دوسرا نام ہے۔ بانسری نواز کو پنڈت پنا لال گھوش اور پنڈت ہری پرشاد چوراسیا کے کام کو اچھی طرح سمجھنا ہو گا۔ ایسے ہوتے ہیں لیجنڈ!

یہاں الفاظ اپنی قدر کھو بیٹھے ہیں۔ ہندوستان میں بھی کچھ ایسا ہی ہو رہا ہے۔ وہاں بھی ہر ٹٹ پونجیا اپنے آپ کو پنڈت یا استاد یا لیجنڈری مائسٹرو (legendary maestro)لکھتا ہے۔ ہر ایرا غیرا اپنے آپ کو سینئر صحافی کہتا پھرتا ہے۔ لیکن صرف کہنے سے کوئی لیجنڈ نہیں بن جاتا۔ فتح علی خان سے ہماری کوئی دشمنی نہیں۔ ہمارا تو یہ ماننا ہے وہ صرف ایک صاحب ہنر تھے۔ راگ راگنی اور موسیقی کا اکیڈمک علم انکے پاس نہیں تھا جیسے استاد امیر خان صاحب یا بڑے غلام علی خان صاحب کے پاس تھا۔ اور خانصاحب استاد عبدالکریم خان اس معاملے میں تو امیر خان اور بڑے غلام علی خان کے بھی استاد تھے۔ انہوں نے تو کرناٹکی موسیقی بھی سیکھی رکھی تھی۔ فتح علی خان نے تو ساری عمر بڑا خیال (جیسے امیر خان گاتے ہیں) نہیں گایا کیونکہ اسکے لئے علم چاہیے۔ یہ بس راگوں کو  diluteکر کے ٹھمری انگ میں پیش کر کے گزارہ چلا لیا کرتے تھے اور اس وقت انٹرنیٹ تو تھا نہیں۔ باقی دنیا میں کیا ہو رہا ہے ہمیں علم تھا نہیں۔ سب کی طرح ہم بھی کنویں کے مینڈک تھے۔ مارکیٹ میں بڑے غلام علی کا لقوے کے بعد کا گانا وہ بھی گھسی پٹی ریکارڈنگ میں ملتا تھا۔ سو اس صورتِ حال میں فتح علی ہی تان سین تھے۔ حقیقت کا تو تب معلوم ہوا جب ہم نے دنیا دیکھنا شروع کی۔ انڈیا سے ڈھیر ساری کیسٹیں منگوائیں اور معلوم ہوا دنیا میں کوئی اجے چکرابرتی بھی ہے۔ 90 تک ہمیں امیر خان صاحب کا علم نہیں تھا۔ اشرافیہ کے پاس ہوتی تھیں ان لوگوں کی ریکارڈنگز۔ ان کی منتیں اور خوشامد کرنی پڑتی تھی تب کہیں جا کر وہ صرف سنا دیا کرتے تھے ان سچے لیجنڈ کا گانا بجانا۔ کاپی کرنے کے لئے ہر گز نہ دیتے تھے۔ (سب ایسے نہیں تھے۔ چند بہت ہی دریا دل بھی تھے)۔ انقلاب تو تب آیا جب ہندوستان کی اشرافیہ اور انکے بچوں نے انٹرنیٹ پر ان کی ذاتی collectionسب کی سب انٹرنیٹ پر ڈال دی۔ ہزاروں گھنٹوں کی بہترین نایاب ریکارڈنگ آج ہمیں یو ٹیوب اور اس قسم کی ویب سائٹس پر مل جاتی ہے جو آسانی سے ڈاﺅن لوڈ ہو جاتی ہے۔ اب جا کر پتہ چلا کہ کون ہیں یہ با کمال آرٹسٹ: مگو بائی، پروین سلطانہ، کشوری امونکر، گنگو بائی ہنگل، مالنی رجورکر، شانتی شرما، شروتی سادولیکر، آرتی انکالیکر، اجے چکرابرتی، پنڈت جسراج، پنڈت بھیم سن جوشی، کمار گندھروا، ڈی وی پلوسکر، مشکور علی خان، گوکل اٹساوجی مہاراج، شانو کھرانہ، اور بہت سارے (کاش سب ہی نام اس مختصر سے مضمون میں لکھ سکتے!) جب ہم نے بڑے غلام علی خان صاحب کا جوانی کا مالکونس سنا تو سب سے پہلے باقی تما م مالکونس  کی کیسٹس توڑ ڈالیں یہ سوچ کے کہ ساری عمر کیا سنتے رہے!

 فتح علی کی موت پر کہیں یہ پڑھا کہ اب پٹیالہ مر گیا۔ ایسا لکھنے والے کو شاید علم نہیں کہ اصلی پٹیالہ کی گائیکی فی الوقت کون گا رہا ہے۔ اگر آپ نے واقعی پٹیالہ سننا ہے تو اجے چکرابرتی کو سنیں۔ اور نئی نسل میں کلکتے کی ایک لڑکی ہے رضا علی خان کی شاگردہ ۔۔رونیتا ڈے۔ اسے سنیے۔ دماغ بھک سے اڑ جائے گا۔ جو سر یہ لڑکی لگاتی ہے اس کے مقابلے کا سر لگا کے کوئی دکھائے اس عہد میں۔ کیسے لیجنڈ مان لیں؟ اور کیا چھوڑا نہوں نے ورثے میں؟ کوئی بتلائے کتنے گویے ہیں آج جو فتح علی کے انگ کی پیروی کرتے ہیں؟ ایک ، دو یا تین؟ دو بیٹے ہیں انکے رستم اور سلطان ۔ دونوں کا کوئی خاص رجحان نہیں کلاسیکل گانے میں۔ دونوں 50 کے ہونے والے ہیں۔ اپنے باپ کا 1/100بھی نہیں گا سکتے۔ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان میں پٹیالہ اب ختم۔ دراصل پٹیالہ تو پاکستان میں اسی دن مر گیا تھا جب فتح علی خان گانے کے قابل نہیں رہے تھے بڑھاپے اور بیماری کے سبب۔ 4 جنوری کو پاکستانی پٹیالہ دفن ہوا ہے فتح علی کے ساتھ! اللہ تعالی ان کی معغفرت کرے۔ آمین!

محمد شہزاد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

محمد شہزاد

شہزاد اسلام آباد میں مقیم لکھاری ہیں۔ ان سے facebook.com/writershehzad پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

muhammad-shahzad has 40 posts and counting.See all posts by muhammad-shahzad

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments