شمال مغربی یورپ کی فلاحی ریاستیں! دوسری قسط اور آخری قسط۔



1929 کی عالمی کساد بازاری اور مشترکہ مفادات پر تعاون کی شروعات۔

پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے درمیانی عرصے میں ناروے روایتی زرعی معیشت سے نکل کر صنعتی معاشی نظام میں داخل ہوا۔

1929 کی عالمی کساد بازاری کے بعد عالمی منڈی میں اشیاء کی طلب کی کمی کی وجہ سے ناروے کی برآمدی صنعت پر بڑے برے اثرات پڑے۔ ناروے کی برآمدی صنعت کی مانگ میں کمی وجہ سے نارویجین برآمدی سیکٹر میں بے روزگاری میں ہوشربا اضافہ ہوا۔ جبکہ دوسری طرف ناروے کی اندرون خانہ صنعت، جس صنعت کا برائے راست برآمد صنعت سے لین دین نہیں تھا۔ اس صنعت میں معاشی سرگرمیوں کی تیزی کی وجہ سے مزدوروں کی کمی ہو گئی۔ ناروے کی مجموعی صنعت میں ایک طرف انتہا درجے کی بیروزگاری، تو دوسری طرف مزدوروں کی انتہا کی مانگ نے ملک میں سماجی، سیاسی اور معاشی عدم استحکام، عدم توازن پیدا کر دیا۔

برآمدی صنعتی سیکٹر کی مزدور یونینز مشکل حالات میں پھنس گئی، کیونکہ ایک طرف برآمدی سیکٹر کے کارخانوں کے مالکان اور آجر یونینز نے مزدور یونینز پر دباؤ بڑھانا شروع کر دیا کہ اب عالمی منڈی میں کساد بازاری سے ان کی بنائی گئی اشیاء میں کمی ہو گئی، لحاظ اب یا تو انہیں اپنے کارخانے اور کاروبار بند کرنے پڑیں گے یا مزدوروں کی تنخواہوں میں کمی کرنا پڑیں گی۔ مزدور یونینز کو اپنے مزدوروں کو بیروزگاری سے بچانے کے لیے مجبوری میں، برآمدی سیکٹر کے مزدوروں کی تنخواہوں میں کمی قبول کرنا پڑی گئی۔

جبکہ اندرون خانہ صنعت میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی سے مزدور یونینز نے آجروں سے زیادہ تنخواہوں لینے کا مطالبہ کر دیا۔

اس مشکل صورتحال کو دیکھتے ہوئے برآمدی سیکٹر میں کام کرنے والے مزدوروں کی یونینز کے سربراہان نے اپنے سیکٹر کے مزدوروں کو بیروزگاری سے بچانے کے لیے اندرون خانہ صنعت کی مزدور یونینز سے مذاکرات شروع کر دیے۔ برآمدی سیکٹر کے مزدوروں کی یونینز، اندرون خانہ سیکٹر کی مزدورں یونینز کو یہ بات سمجھانے میں کامیاب ہو گئی، کہ پورے ملک میں کوئی ایسا طریقہ کار وضع کیا جائے۔ جس سے اگر ایک صنعت میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی اور دوسری صنعت کی معاشی سرگرمیوں میں مندی سے مزدوروں کی مجموعی طلب، رسد میں عدم توازن پیدا نہ ہو۔

اور نہ ہی طلب، رسد کے فرق سے مجموعی تنخواہوں پر برا اثر پڑے، جس سے یک دم ایک طرف ایک صنعت میں تنخواہوں میں بے تحاشا اضافہ ہو، جبکہ دوسری صنعت میں یک دم تنخواہوں نیچے چلی جائیں۔ ایسی صورتحال میں اگر ملک کے سب مزدور اتحاد میں نہ رہے تو پھر سرمایہ دار طبقہ پورے ملکی نظام کو گرفت لے لا گا، جس سے آگے چل کر سب سے زیادہ نقصان مزدور طبقے کا ہوگا اور وہ زندگی کی بنیادی سہولیات حاصل کرنے میں ناکام رہیں گے۔

اندرون خانہ صنعت کی مزدور یونینز نے برآمدی صنعت کے مزدور یونینز کی بات مان لی اور اندرون خانہ صنعت میں معاشی سرگرمیوں میں تیزی کے باوجود اپنے مزدوروں کی تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے میں راضی ہو گئے۔

ساتھ ہی دونوں مزدور یونینز اس نقطے پر بھی متفق ہو گئے کہ ملکی تنخواہوں کا فیصلہ برآمدی صنعت کے مزدوروں کی صنعت کے مطابق کیا جائے گا۔ کیونکہ ناروے آبادی کے لحاظ سے ایک چھوٹا ملک ہے، اس کی معیشت کا دار و مدار بیرون ممالک کی تجارت سے وابستہ ہے، اس لیے ملکی صنعت میں مزدوروں کی تنخواہیں دوسرے ممالک کے مزدوروں کے برابر رہنی چاہیے، تاکہ ناروے کی صنعتی اشیاء بیرون ممالک میں مہنگی نہ رہیں۔

برآمدی سیکٹر اور اندرون خانہ سیکٹر کے مزدور یونینز کا آپس میں معاہدے کے بعد دونوں یونینز نے مل کر ملک کے آجر یونینز کے ساتھ ایک ایسا معاہدہ کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس معاہدے نے ناروے میں فلاحی ریاست کی بنیاد رکھ دی۔ اسی دوران سب سے دلچسپ بات یہ ہوئی کہ اسی طرح کا معاہدہ سویڈن میں آجر اور مزدور یونینز کے بھی درمیان طے پا گیا۔

اس آجر اور مزدور یونینز کے درمیان معاہدے کے بنیادی نکات یہ تھے۔

کوئی بھی مزدور یونین اور آجر یونین مقامی سطح پر اس وقت تنخواہوں اور دوسرے آپس کے معاملات پر مذاکرات، معاہدات شروع نہیں کر سکیں گے۔ جب تک برآمدی سیکٹر کے آجر یونین اور مزدور یونین آپس میں تنخواہوں اور دوسرے معاملات پر متفق نہ ہو سکے اور جب تک ان کے درمیان معاہدہ طہ نہ پا جائے۔

ملک کی ہر صنعت کی تنخواہوں، کام کی جگہ پر مزدوروں کے لیے دوسری سہولیات کے لیے آجر یونینز اور مزدور یونینز کے درمیان پہلے معاملات، معاہدات مرکزی سطح پر طہ کیے جائیں گے۔

مرکزی سطح پر تنخواہوں کے فیصلے نے سارے ملک میں مزدوروں کی تنخواہوں میں فرق کم کر دیا۔ ملک کے مختلف صنعتوں میں برابر کی تنخواہوں نے ملکی صنعت میں نئی ٹیکنولوجی، نئی مشینری کو استعمال کرنے کی طرف راغب کر دیا۔ جس سے ملک میں ہیومن کیپیٹل پر مبنی صنعت کا آغاز ہوا۔

مزدوروں کی تنخواہوں کا اتار چڑھاؤ منڈی میں مجموعی صنعتی پیداوار کی طلب، رسد سے وابستہ نہیں رہیں گی۔ بلکہ مزدور اور آجر یونینز مقامی سطح پر اپنے مقامی حالات دیکھ کر فیصلہ کریں گے، کہ مزدوروں کی تنخواہوں میں کتنا اضافہ کیا جائے گا۔ اس نقطے نے مزدوروں کی طاقت میں اضافہ کر دیا، اور آجر یونینز کو مجبور کر دیا کہ وہ ہر حال میں مزدور یونینز کے مطالبات کو پورا کرتے رہے۔

مختلف صنعتوں میں مزدوروں کی تنخواہوں میں کم فرق نے ناروے کی ملکی صنعت میں فی کس پیداواری صلاحیت میں بے انتہا اضافہ کر دیا۔ جس سے ملک کے زرمبادلہ تھوڑے عرصے میں بے تحاشا اضافہ ہو۔ ملکی زرمبادلہ میں اضافے، مزدور یونینز کے آپس کے اتحاد نے سیاستدانوں کو مجبور کر دیا کہ وہ مفاد عامہ کی بہتری کے لیے فلاحی منصوبے شروع کریں۔

آجر یونینز اور مزدور یونینز کے درمیان معاہدوں نے بالآخر نارڈک ممالک ناروے، ڈنمارک، سویڈن، آئس لینڈ کی حکومتوں کو ان 2 بڑی یونینز کے ساتھ مل کر ملکی معاشی پالیسیاں بنانے پر مجبور کر دیا۔ کیونکہ مزدور یونینز کے مزدوروں کی تنخواہوں، آجر یونینز کے آجروں کے منافع سے حکومتوں نے ٹیکس لینا تھا، جس سے اجتماعی معاملات چلائے جانے تھے۔ ملکی مشترکہ معاشی پالیسیاں بنانے، قومی خزانے کے لیے زیادہ سے زیادہ ٹیکس حاصل کرنے کے لیے حکومت کو آجر اور مزدور یونینز سے مستقل طور پر ایک تیسرے فریق کے طور معاہدے کرنا پڑے۔ اس سہ فریقی تعاون نے دنیا میں ایک ایسے معاشی، انتظامی، سیاسی نظام کی بنیاد رکھی، جس نے ان ممالک میں فلاحی ریاست کے نظام کو عملی جامہ پہنایا۔

ان شمالی مغرب ممالک کے اس سہ فریقی تعاون یعنی حکومت، آجر اور مزدور یونینز کے آپس میں اتفاق رائے نے ایک طرف ان ممالک میں مزدوروں کی طلب میں اضافے کے باوجود تنخواہوں، اشیاء کی قیمتوں کے اضافے کو روکے رکھا، ساتھ ہی حکومتوں کو ایسی مالیاتی پالیسیاں بنانے پر مجبور کر دیا جس نے ملکی مارکیٹ میں شرح سود میں عدم توازن پیدا نہیں ہونے دیا۔ شمالی مغرب کے مسلسل جاری رہنے والے سہ فریقی تعاون نے دنیا کے بڑے بڑے سیاسی، معاشی محققین کو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ آج کی دنیا کا بہترین حکومتی نظام شمالی مغرب کے ممالک کا فلاحی ریاست کا نظام ہے۔ جس میں ریاست کے ہر انسان کو پیدا ہونے سے لے کر قبر تک زندگی کی ہر بنیادی سہولت میسر ہے۔ وہ انسان چاہے غریب ہو یا امیر۔

آجر یونینز، مزدور یونینز اور حکومتوں کے درمیان سہ فریقی تعاون نے شمالی مغرب ریاستوں کے باشندوں میں امیر اور غریب میں فرق کم کیا۔ مزدوروں کے درمیان تنخواہوں کے فرق کو کم کیا۔ اس معاشی فرق کی کمی نے مختلف طبقات کے آپس میں سماجی فاصلوں کو کم کیا۔

ان ممالک کے اس سہ فریقی تعاون نے ایسا معاشرہ اور ریاست تشکیل دی۔ جہاں پر عام شہری عام تنخواہ کے ساتھ زندگی کی ہر سہولت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا، شہری اجتماعی فیصلہ سازی میں بھرپور کردار ادا کرتا ہے۔ ان ریاستوں میں عام شہری اپنی حکومتوں کی کارکردگی سے مطمئن اور خوش۔ حالانکہ دنیا میں کئی ایسے ممالک ہیں جن کے معاشی وسائل، فی کس آمدنی شمالی مغرب کی فلاحی ریاستوں سے کہیں زیادہ ہیں۔ لیکن ملکی ریاستی نظام ریاست کے اہم لوگوں کے درمیان عدم تعاون کی وجہ سے ان ممالک میں ملکی معاشی وسائل پر چند طبقات کا قبضہ، جبکہ ان ممالک کے زیادہ تر باشندے بدحالی، جبر، نا انصافی اور غربت میں گزارنے پر مجبور۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments