انیس ہارون کی کتاب: ویرانی دل و دنیا – کورونا کے شب و روز کا روزنامچہ


گزشتہ سال مارچ سے جب کرونا کی وجہ سے ہم گھروں میں بند ہو گئے تو ہر کسی نے اس قید تنہائی کا اپنے طور پر کوئی علاج نکالا۔ آپ تصور کر سکتے ہیں کہ انیس ہارون جیسی ایکٹوسٹ اور مجلسی خاتون کے لئے یہ عرصہ کتنا کٹھن گزرا ہو گا۔ انیس اور ان کے جیون ساتھی سید ہارون احمد پہ یہ مصرعہ صادق آتا ہے کہ۔ :سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔ ہم نے انہیں ہمیشہ دوسروں کے دکھ اور تکالیف پر آنسو بہاتے اور ان کے مسائل کو حل کرنے کے لئے بھاگ دوڑ کرتے دیکھا ہے۔

سندھ سرکار نے جب اکیس مارچ سے لاک ڈاؤن کا اعلان کیا تو انیس ہارون نے اپنی بوریت دور کرنے کے لئے ڈائری لکھنا شروع کی۔ انیس کی طرح ہم سب بھی آصف فرخی کے شکر گزار ہیں جنہوں نے انہیں کووڈ کے شب و روز لکھنے پر مائل کیا۔ اب اسے قدرت کی ستم ظریفی کہئیے یا کچھ اور کہ آج جب یہ کتاب ہمارے ہاتھ میں آئی ہے تو آصف فرخی نہیں ہیں۔ 2020 کتنے دوستوں کو لے گیا۔ ”اس وبا میں ہم نے کتنے ساتھی کھوئے، اور کئی بار آخری رسومات میں بھی شریک نہ ہو پائے“ ۔

انیس کی ڈائری کا آغاز 22 مارچ سے ہوتا ہے۔ وہ پاکستان کا حال بتانے کے ساتھ ساتھ اٹلی اور ایران کا حال بھی بتاتی ہیں۔ ساتھ ساتھ انہیں اپنے بچوں کی فکر بھی ستاتی رہتی ہے جو دور ہیں۔ ایک بیٹے عرفان ڈاکٹر ہیں، ان کی زیادہ فکر رہتی ہے ”سارا وقت ہسپتال میں رہنا ہوتا ہے، سو طرح کے انفیکشن ہوتے ہیں۔ بس اللہ میرے بیٹے کو اپنی حفظ و امان میں رکھے“ ۔

امریکہ میں لاک ڈاؤن کے بارے میں لکھتی ہیں ”دنیا کے امیر ترین ملک میں بھی ساری سرگرمیاں رک گئیں۔ خوف کا لبادہ اوڑھے آسمان منہ چڑاتا ہے۔ اور پھینکیں کمندیں، اپنی زمین کو تو سنبھال نہ سکے، تسخیر کائنات کے زعم میں ہو، اپنا حشر تو دیکھو، دولت کے پہاڑ کھڑے کر دینے والے بھی محفوظ نہیں ہیں، زمین کہیں پناہ دینے کو تیار نہیں، صدیوں کا قرض چکانا ہے حضرت انسان سے۔“

یکم اپریل کو اپنی ڈائری میں لکھتی ہیں، ”کورونا کے پھیلنے میں اب تک تو یہ سارا الزام ایران سے آنے والے زائرین پر ڈالا جا رہا تھا۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ہزاروں تبلیغی ملک میں کھلے عام پھر رہے ہیں۔ حیدرآباد میں دو سو میں سے چورانوے متاثرہ اشخاص نکل آئے اور رائے ونڈ میں پتا چلا کہ بائیس سو افراد ہیں۔ انہیں وہیں بند کر دیا۔ یہ جانے کہاں کہاں گھوم پھر کر دعوت تبلیغ دیتے رہے اور کورونا پھیلاتے رہے۔“

2 اپریل کی رات کو نجمہ ( فہمیدہ ریاض کی چھوٹی بہن) کا فون آیا۔ کہہ رہی تھی یہ اچھا ہوا فہمیدہ چلی گئیں، یہ دن دیکھنے سے پہلے۔ ورنہ انہیں سنبھالنا مشکل ہو جاتا۔ مجھے ایلس فیض یاد آئیں جنہوں نے سوویت یونین کے ٹوٹنے پر کہا تھا کہ ”شکر ہے فیض زندہ نہیں ہیں یہ دن دیکھنے کو“ مگر ہم تو زندہ ہیں نا کورونا دیکھنے کو ”۔

چار اپریل کو لکھا ہے ”آج بھٹو صاحب کی پھانسی کا دن ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو جو پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم تھے۔ 1979 میں رات کے اندھیرے میں اڈیالہ جیل کے پھانسی گھر میں تارا مسیح کے ہاتھوں تختہ دار پر چڑھا دیے گئے۔ صبح ہونے سے پہلے گڑھی خدا بخش میں سپرد خاک کر دیے گئے۔ رضا ربانی نے پیغام بھیجا“ چین سے دوستی کا احسان ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا ”میں نے لکھا“ ہاں اور بھی بڑے احسان ہیں۔ دستور بنایا، غریب کو حق مانگنا سکھایا، مگر نہ ماننے والے کچھ نہیں مانتے ”۔

کراچی میں سوگواری کی فضا تھی لیکن کوئی ایسا قابل ذکر احتجاج نہیں ہوا۔ لاہور اور دوسرے شہروں میں احتجاج کرنے والے دھر لئے گئے، پہلے ہی بہت سارے اندر تھے۔ باہر وہی لیڈران تھے جو کارکنوں سے کہتے تھے“ وہ رسی ہی نہیں بنی ہے جو پھانسی کا پھندا بنے۔ آپ لوگ خاموشی سے گھر میں بیٹھے رہیں۔ سڑکوں پر نکلیں گے تو ضیا الحق ڈر جائے گا کہ بھٹو کی تو اتنی مقبولیت ہے اور پھانسی پر چڑھا دے گا ”مجھے پانچ جنوری کو 70 کلفٹن میں بھٹو صاحب کی سالگرہ کی تقریب میں حفیظ پیرزادہ کی تقریر یاد آ رہی تھی۔ میں گھر آ کر روئی تھی۔ نہ جانے مجھے کیوں سازش کی بو آ رہی تھی اس حکمت عملی میں۔

پانچ اپریل تک لوگوں کو پیسے اور راشن پہنچنا شروع ہو گئے تھے لیکن انیس کا سوال یہ ہے کہ، ”دنیا کو اس حد تک پہنچایا ہی کیوں گیا کہ بلا کی غربت اور اونچ نیچ ہو۔ سرمایہ داروں نے اتنا منافع کمایا اور کما رہے ہیں۔ محنت کش کو اس کی اجرت بھی پوری نہیں ملتی اور مالکوں کے پاس دولت کے اتنے ڈھیر لگ جاتے ہیں کہ خرچ کرتے نہیں بنتی۔ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے سوڈان کے قحط میں لاکھوں افراد مر گئے۔ ان کی تصویریں دیکھی نہیں جاتی تھیں۔ مگر کیا دنیا کا ضمیر جاگا؟ کیا منافع خوری کا نظام بدلا، بس اپنا احساس جرم مٹانے اور اپنی واہ واہ کرانے کے لئے امداد دے دی جاتی ہے۔ یو این او بھی کچھ تیزی دکھا دے دیتی ہے۔“

اپنی ڈائری میں انیس نے اس طرح کے بہت سے سوالات اٹھائے ہیں، چھہ ماہ تک ڈائری لکھی تو پھر خود کورونا میں مبتلا ہو گئیں اور دو دن بعد ہارون صاحب کی بھی وہی کیفیت ہو گئی۔ شکر ہے دونوں جلد ہی اس کیفیت سے باہر نکل آئے اور ڈاکٹر طارق سہیل اور ڈاکٹر سید جعفر احمد نے انسٹیٹیوٹ آف ہسٹوریکل اینڈ سوشل ریسرچ کے بینر تلے اس ڈائری کو کتابی صورت میں ہم تک پہنچا دیا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments