میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے مسائل!


شعبہ تعلیم کی حالت زار ہمارے سامنے ہے۔ کبھی کم بجٹ کے قصے، کبھی ناقص معیار تعلیم کی بحث اور کبھی غیر واضح تعلیمی پالیسی سے پیدا ہونے والے مسائل۔ اس شعبے کے حالات اچھے تو خیر کبھی نہیں تھے، مگر اتنے برے بھی نہ تھے جس قدر خراب گزشتہ چند برسوں سے دکھائی دیتے ہیں۔ تین چار برسوں میں جامعات پر جو افتاد ٹوٹی ہے، اس سے ہم بخوبی آگاہ ہیں۔ کئی نامور سرکاری ادارے تباہ حالی کا شکا ر ہو چکے ہیں۔ چند ماہ پہلے ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کو بھی ہم نے تماشا بنا ڈالا۔

مشکل یہ ہے کہ سرکاری کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ تعلیم بھی مطمئن نہیں۔ گزشتہ کئی ماہ سے میڈیکل اور ڈینٹل کالج نوحہ کناں ہیں۔ موقف ان کا یہ ہے کہ پاکستان میڈیکل کمیشن کی پالیسیاں طبی تعلیم کو بری طرح متاثر کر رہی ہیں۔ میڈیکل کالج شکوہ کناں ہیں کہ غیر متعلقہ اور نا تجربہ کار افراد پی ایم سی کے ارباب اختیار بنے بیٹھے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ میڈیکل کی تعلیم سے متعلق پالیسیاں کالج مالکان، انتظامیہ اور طالب علموں میں اضطراب پیدا کر رہی ہیں۔

دنیا بھر میں نجی شعبے کی اہمیت تسلیم کی جاتی ہے۔ روزگار کی فراہمی کے حوالے سے بھی یہ شعبہ اہم ہے۔ پاکستان میں بھی پرائیویٹ سیکٹر کی خاص اہمیت ہے۔ شعبہ تعلیم کا جائزہ لیجیے اور سوچیے کہ اگر پرائیویٹ اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں نہ ہوں تو لاکھوں طالب علم کہاں تعلیم حاصل کریں گے؟ سرکاری تعلیمی ادارے تو اتنی سکت اور گنجائش نہیں رکھتے کہ تمام آبادی کی ضروریات پوری کر سکیں۔ اگرچہ میں بذات خود بہت سے نجی تعلیمی اداروں کی ناقد ہوں۔

کچھ اداروں کو تو محض ڈگریاں بیچنے والی دکانیں خیال کرتی ہوں (کچھ سرکاری اداروں میں بھی یہی کچھ ہو رہا ہے ) ۔ لیکن ہمارے ہاں بہت سے اچھے اور معیاری نجی تعلیمی ادارے بھی موجود ہیں۔ معیار تعلیم کی بحث سے قطع نظر، تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ ہماری شرح خواندگی کے اعداد و شمار بڑھانے میں پرائیویٹ سیکٹر کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ اگر نجی تعلیمی ادارے نہ ہوں تو ہماری شرح خواندگی مزید کئی درجے نیچے آ جائے۔ سو ہمیں نجی شعبے کو غنیمت سمجھنا چاہیے۔ البتہ اس کے معیار تعلیم کو بہتر بنانے کی کوشش ضرور ہونی چاہیے۔

پاکستان میں میڈیکل ایجوکیشن کی صورتحال کا جائزہ لیجیے۔ ملک بھر میں کل 173 میڈیکل کالج موجود ہیں۔ ان میں 59 سرکاری، جبکہ 114 پرائیویٹ کالج ہیں۔ یعنی نجی شعبہ میڈیکل کی تعلیم میں کم و بیش 65 فیصد کا حصہ دار ہے۔ مطلب یہ کہ ہر سال فارغ التحصیل ڈاکٹروں میں ساٹھ ستر فیصد ڈاکٹر پرائیویٹ کالجوں سے نکلتے ہیں۔ یہی پرائیویٹ کالج دہائی دے رہے ہیں کہ گزشتہ تین برسوں میں طبی تعلیم کے شعبے کو تباہی کے دہانے تک پہنچا دیا گیا ہے۔

پاکستان ایسوسی ایشن آف پرائیویٹ میڈیکل اینڈ ڈینٹل انسٹی ٹیوشنز (PAMI) نے اس امر پر شدید تشویش کا اظہار کیا ہے کہ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو ریگولیٹ کرنے کے تمام اختیارات ایک وکیل صاحب اور دیگر غیر متعلقہ افراد کے حوالے کر دیے گئے ہیں۔ یہ ذمہ داران جو قواعد و ضوابط لاگو کر رہے ہیں اس سے میڈیکل کالجوں اور طالب علموں پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ پتہ یہ چلا کہ گزشتہ برس پہلی مرتبہ ایسا ہوا کہ سرکاری اور نجی کالجوں کے داخلے ایک ساتھ کھول دیے گئے۔

یقینی طور پر بیشتر امیدوار داخلے کے لئے سرکاری کالج کو ترجیح دیتے ہیں۔ سرکاری کالج میں داخلہ نہ ملنے کے بعد کسی نجی کالج کا رخ کرتے ہیں۔ ایک ساتھ داخلے کھولنے کا نقصان یہ ہوا کہ طالب علموں کی ایک بڑی تعداد کالجوں میں داخلہ لینے سے محروم رہ گئی۔ اسی طرح ماضی میں پہلے میڈیکل کالجوں میں داخلے کھولے جاتے تھے۔ داخلے مکمل ہونے کے بعد ڈینٹل کالجوں میں داخلوں کا اعلان ہوتا تھا۔ اس کا فائدہ یہ تھا کہ میڈیکل میں داخلے سے محروم رہ جانے والے ڈینٹل کالجوں کا رخ کرتے تھے۔ نئی پالیسی کے تحت میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے داخلے شروع اور بند کرنے کی تاریخیں اکٹھی رکھ دی گئیں۔ نقصان اس کا یہ ہوا کہ بہت سے طالب علم میڈیکل میں داخلے کی امید پر ڈینٹل کالج میں داخلہ لینے سے بھی محروم رہ گئے۔

MDCAT کے اسکور کے حوالے سے بھی ایک نئی پالیسی متعارف کروائی گئی ہے۔ اسی طرح این ایل ای امتحان اور سی پی ایس پی پر بھی میڈیکل کالج معترض ہیں۔ پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کی تنظیم پامی نے اس امر پر بھی شدید اعتراض اٹھا یا ہے کہ پی ایم سی اپنے ہی ایکٹ کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، اپنے اختیارات سے تجاوز کر رہی ہے اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن آف پاکستان کے اختیارات بھی استعمال کرنے لگی ہے۔

سنتے ہیں کہ طبی تعلیم سے متعلق عالمی اداروں جیسا کہ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف میڈیکل ریگولیٹری اتھارٹیز اور ورلڈ فیڈریشن آف میڈیکل ایجوکیشن نے بھی پاکستان میں طبی تعلیم کے مختلف معاملات پر اظہار تشویش کیا ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ پاکستان کو مختلف عالمی فارمز پر سبکی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ ہمارے ڈاکٹروں کی ڈگریوں کو تسلیم ہی نہ کیا جائے۔ بر سبیل تذکرہ ہماری غلط پالیسیوں اور بیان بازی کے باعث ہمارے پائلٹوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی سلوک ہوا تھا۔

ایک زمانہ تھا جب پاکستان کو انجینئروں اور ڈاکٹروں کا ملک کہا جاتا تھا۔ اب بھی پاکستان کے ڈاکٹروں کو دنیا بھر میں عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ البتہ گزشتہ چند برسوں سے صورتحال میں نمایاں تبدیلی آئی ہے۔ پاکستانی ڈاکٹروں کے بجائے بھارتی ڈاکٹروں کو ترجیح ملنے لگی ہے۔ ان اسلامی ملکوں میں بھی جن کو ہم اپنے برادر اور دوست ملک قرار دیتے ہیں۔ دنیا بھر میں صحت کی بنیادی سہولتوں اور ڈاکٹروں کی عدم دستیابی کے حوالے سے بھی ہماری رینکنگ اچھی نہیں ہے۔ اس ضمن میں پاکستان 192 ممالک میں 165 ویں نمبر پر آتا ہے۔

بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارے ہاں ہر معاملے اور شعبے کو سیاست کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ ہونا یہ چاہیے کہ شعبہ تعلیم کو ہر طرح کی سیاسی آلائش سے پاک رکھا جائے۔ شعبہ طب اور طبی تعلیم تو یوں بھی ایک طرح سے زندگی موت سے جڑا معاملہ ہے۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی ہسپتال اور صحت کی دیگر سہولتیں میسر نہیں ہیں۔ ڈاکٹروں کی شدید کمی ہے۔ اب اگر 65 فیصد میڈیکل تعلیم کا بوجھ اٹھانے والا نجی شعبہ بھی ناقص پالیسیوں کی وجہ سے متاثر ہوتا ہے اور کالجوں کی تالا بندی پر مجبور ہو جاتا ہے تو صورتحال میں مزید بگاڑ آئے گا۔

میڈیکل کی تعلیم کے شعبے کے لئے ریگولیٹری اتھارٹی کی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ مگر یہ تنظیم میڈیکل کے شعبے سے متعلق افراد پر مشتمل ہونی چاہیے۔ اس میں بھی کوئی حرج نہیں اگر پالیسی سازی کرتے وقت سرکاری اور نجی شعبوں کے نمائندوں سے مشاورت کر جائے۔ میڈیکل کی تعلیم ایک نہایت حساس معاملہ ہے۔ پرائیویٹ میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کے معیار تعلیم، داخلوں کے طریقہ کار اور فیسوں کے معاملات پر ضرور نگاہ رکھنی چاہیے۔ ان کالجوں کی اصلاح درکار ہے تو وہ بھی ہونی چاہیے۔ مگر یہ سب کچھ ایک ایسی ریگولیٹری اتھارٹی کے ذریعے ہونا چاہیے جس کے عہدیداران اس شعبے کی سمجھ بوجھ رکھتے ہوں۔

۔ ۔
بشکریہ روزنامہ نئی بات


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments