دلیپ کمار کی رحلت: پاکستان اور بھارت کی مشترکہ اقدار


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی میں دو مماثلت سامنے آئی ہیں۔ دونوں لیڈروں نے بالی وڈ لیجنڈ اداکار دلیپ کمار کی رحلت پر یکساں طور سے افسوس کا اظہار کیا ہے۔ نریندر مودی نے دلیپ کمار کو بے مثل صلاحیتوں کا حامل فنکار قرار دیتے ہوئے ان کے انتقال کو ثقافتی دنیا کا بے پایاں نقصان قرار دیا۔ عمران خان نے ایک ٹوئٹ میں دلیپ کمار کو عظیم اور ہمہ گیر فنکار قرار دیتے ہوئے مرحوم اداکار کو خراج عقیدت پیش کیا۔

تاہم خیالات میں ہم آہنگی کے اس اظہار سے ایک روز پہلے خبر آئی تھی کہ صحافیوں کی تنظیم ’رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ (آر ایس ایف ) نے عمران خان اور نریندر مودی کو 2021 کے دوران ان 37 عالمی لیڈروں کی فہرست میں شامل کیا ہے جنہوں نے میڈیا کی آزادی کچلنے اور آزادی رائے محدود کرنے میں کردار ادا کیا ہے۔ دونوں لیڈروں کے کردار کے ان دو پہلوؤں کو پرکھتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے مزاج، سوچ اور طریقوں کو سمجھنے کی کوشش کی جاسکتی ہے۔ یہ بظاہر دو چھوٹی خبریں واضح کرتی ہیں کہ دونوں ممالک نے اگرچہ گزشتہ سات دہائیاں دشمنی اور جنگوں میں صرف کی ہیں جن کی وجہ سے اس خطے میں احتیاج اور محرومی میں اضافہ کے سو ا کوئی مقصد حاصل نہیں کیا جاسکا لیکن اس کے باوجود ان کا ثقافتی ورثہ اور سماجی روایات میں ہم آہنگی اور یکسانیت پائی جاتی ہے۔ اور ان کے لیڈر یکساں طور سے سیاسی مقاصد حاصل کرنے کے لئے انتہا پسندی اور جبر استعمال کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔

دونوں ملکوں کے درمیان ضد، فساد اور تنازعہ کا ہر پہلو لوگوں کے سامنے عیاں ہے۔ پاکستان اور بھارت کے لیڈروں نے جس طرح سیاسی مقاصد کے حصول کے لئے اس دشمنی کو فروغ دیا اور متعدد بار دونوں ملکوں کو جنگ کی طرف دھکیلا، اس کی تاریخ نہ تو پرانی ہے اور نہ ہی اس پر فخر کیا جاسکتا ہے۔ افسوس کی بات صرف یہ ہے کہ کوئی اس سے سبق سیکھنے کی کوشش نہیں کرتا۔ اور اس پراگندہ مزاجی کے باوجود دلیپ کمار کی رحلت پر جس طرح دونوں ملکوں کے لیڈروں کے علاوہ عوامی سطح پر دکھ و رنج کا اظہار سامنے آیا ہے، اس سے ان امکانات کا سراغ بھی لگایا جا سکتا ہے جو اس خطے کے ان دو بڑے ملکوں میں آباد لوگوں کے درمیان مفاہمت و دوستی میں اضافہ کا سبب بن سکتے ہیں لیکن انہیں آزمانے کی کوشش نہیں کی جاتی۔

پاکستانی حکومت آج کل ملک میں تخریب کاری کے بھارتی منصوبوں اور سازشوں کا انکشاف کر رہی ہے۔ گزشتہ دنوں جوہر ٹاؤن لاہور میں دہشت گرد حملہ کی ذمہ داری بھارت پر عائد کی گئی اور دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس کی منصوبہ بندی بھارت میں کی گئی تھی اور ایک افغان شہری اس پر عمل درآمد پر مامور تھا۔ اس کے علاوہ ملک کے مختلف حصوں میں بھارتی ایجنٹوں کی موجودگی کی اطلاعات بھی دی جا رہی ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے منصوبوں پر عمل کرنا چاہتے ہیں۔ بھارت گزشتہ کئی دہائیوں سے ایسے ہی الزامات پاکستان پر عائد کرتا رہا ہے۔ بھارت میں ہونے والی تخریبی کارروائی کا الزام پاکستان پر عائد کیا جاتا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں عوام حق آزادی و خود مختاری کے لئے احتجاج کرتے ہیں لیکن اس حوالے سے سامنے آنے والے تشدد اور لاقانونیت کا ذمہ دار پاکستان کو ٹھہرایا جاتا ہے۔ بھارت نے ہر عالمی فورم پر پاکستان کو رسوا کرنے اور اس کے لئے مشکلات پیدا کرنے کی کوشش کی ہے۔

مشترکہ ثقافتی ورثہ کے باوجود یہ دونوں ملک ایک دوسری کی طاقت بننے کی بجائے کسی بھی طرح ایک دوسرے کو کمزور بلکہ تباہ کرنے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ غریب عوام کی لاتعداد ضرورتوں کے باوجود دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کا مقابلہ کرنے کے لئے بھاری بھر کم افواج کھڑی کی ہیں اور قومی وسائل کو ایٹمی صلاحیت حاصل کرنے پر صرف کیا گیا ہے۔ بھارت علاقائی بالادستی کے خواب کی تکمیل چاہتا ہے اور پاکستان اس خواب کو ہر قیمت پر تہ و بالا کرنا چاہتا ہے۔ بھارت ایٹمی صلاحیت سے پاکستان کے علاوہ چین پر بھی اپنی دھاک بٹھانا چاہتا ہے اور پاکستان کا دعویٰ ہے کہ اس نے اپنی حفاظت کے لئے ایٹم بم بنایا ہے۔ اسے ایک اہم ’ڈیٹرنٹ‘ قرار دیا جاتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان نے حال ہی میں دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہی کی وجہ سے برصغیر جنگوں سے محفوظ ہؤا ہے۔ حیرت ہے کہ دنیا جن ہتھیاروں کو انسان دشمن قرار دیتے ہوئے ان کی تخفیف کی منصوبہ بندی کر رہی ہے، پاکستان اور بھارت میں انہیں قومی افتخار اور ہمسایہ ملک پر برتری کا ذریعہ سمجھا جا رہا ہے۔

 دنیا کی آبادی کا 20 فیصد لوگ برصغیر میں آباد ہیں۔ یہ علاقہ بے شمار وسائل اور گوناگوں انسانی صلاحیتوں سے بھی مالا مال ہے جس کی وجہ سے کسی زمانے میں ہندوستان دنیا بھر میں سونے کی چڑیا کہلاتا تھا۔ بین الاقوامی تاجروں کے بعد نوآبادیاتی طاقتوں نے ادھر کا رخ کیا اور مقامی حکمرانوں کی کمزوری، نفاق اور باہمی ناچاقی کا فائدہ اٹھا کر طویل عرصہ تک برطانیہ ہندوستان پر قابض رہا۔ 1947 میں اگرچہ دوسری عالمی جنگ سے پیدا ہونے والے حالات اور ہندوستان میں آزادی کے لئے مضبوط ہوتی خواہش کی وجہ سے اسے یہ خطہ چھوڑنا لیکن بدقسمتی سے اس علاقے کے لیڈروں نے نہ انگریز کی مسلط کر دہ نوآبادیاتی غلامی سے سبق سیکھا اور نہ ہی ان عوامل پر غور کرنے کی ضرورت محسوس کی جن کی وجہ سے ایک وسیع، خوشحال اور وسائل سے مالامال ہندوستان پر دساور سے آئے ہوئے تاجروں کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے ذریعے یہاں پاؤں جمانے اور دولت ہڑپ کرنے کے علاوہ عوام کو غلام بنانے کا موقع ملا تھا۔

دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن شعبوں میں سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے عوام کے لئے خوشحالی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں، برصغیر میں تعلیم، انسانی ضرورتوں اور سماجی فلاح کے ان منصوبوں پر توجہ دینے کی بجائے ضد، جنگ اور تصادم کا راستہ اختیار کر کے عوام کو دشمنی کا سبق پڑھایا گیا۔ اس حقیقت کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا کہ پاکستان اور بھارت کے لیڈروں نے سیاسی مفادات کے لئے دوستی کی بجائے دشمنی کا راستہ اختیار کیا اور اپنے ملکوں کے شہریوں کو اس منفی حکمت عملی سے پیدا ہونے والے جہنم کا ایندھن بنایا۔ اس دشمنی کو کاشت کرنے کے لئے سرحد کے دونوں طرف مذہبی انتہا پسندی کو ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پاکستان اس پالیسی کی بھاری قیمت دہشت گردی کے خلاف طویل جنگ کی صورت میں ادا کرچکا ہے لیکن نریندر مودی کی قیادت میں بھارت کو تیزی سے اسی قسم کی ہندو انتہا پسندی کی طرف دھکیلا جارہا جو پاکستان میں اسلام کے نام پر فروغ دی گئی تھی۔

انتہاپسندی اور دشمنی کے ماحول میں آزادی رائے اور خود مختار میڈیا کو سب سے پہلے نشانہ بنایا جاتا ہے۔ کیوں کہ خبروں کی آزادانہ ترسیل شعور میں اضافہ کرتی ہے اور انسانوں کے درمیان فاصلے کم کرنے کا سبب بنتی ہے۔ اسی طرح آزادی اظہار درحقیقت مکالمہ کی حوصلہ افزائی کا نام ہے جس سے ایک دوسرے کو سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ آزاد میڈیا کسی بھی ملک میں شہریوں کو اپنے حقوق کے لئے چوکنا کرتا ہے۔ اس طرح لوگ قومی وسائل کے مصرف پر حکمرانوں کی ترجیحات کے بارے میں سوال اٹھانے کی صلاحیت حاصل کرلیتے ہیں۔ جن ملکوں کو امن کی بجائے جنگ اور دوستی و مفاہمت کی بجائے ضد و دشمنی کے لئے تیار کیا جاتا ہے، وہاں آزاد وخود مختار میڈیا کو کنٹرول کرنے کی ہر ممکن کوشش کی جاتی ہے۔ جب پاکستان اور بھارت کے لیڈر یکساں شدت سے میڈیا کو دبانے اور خوف کا ماحول پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہئے کہ ان کا حقیقی مقصد کیا ہے۔

میڈیا پر پابندیوں کا فوری مقصد اگرچہ ہر قسم کی تنقیدی آواز کو دبا کر کسی ایک لیڈر یا پارٹی کے اقتدار کو مضبوط کرنا ہوتا ہے لیکن اس پالیسی کے طویل المدت ثمرات میں خوف، بے چینی، سماجی اضطرار اور ماورائے قانون اقدامات کا فروغ شامل ہوتا ہے۔ پاکستان اور بھارت میں ان شواہد کو دیکھا جا سکتا ہے۔ جب ریاستی طاقت کو عوام کے خلاف غیر قانونی کارروائیوں کے لئے استعمال کیا جائے گا تو اس سے عام طور سے قانون کا احترام کم ہو گا اور انصاف فراہم کرنے والے ادارے کمزور ہوں گے۔ عام آدمی بھی محسوس کرنے لگے گا کہ جب ریاست و حکومت قانون کی پرواہ نہیں کرتیں تو اسے عام زندگی میں اس کا احترام کرنے کی کیا ضرورت ہے۔ پاکستان میں لاپتہ افراد کے معاملات اور بھارت میں مقبوضہ کشمیر کے علاوہ اقلیتی آبادیوں کے خلاف ریاستی طاقت کا ناجائز استعمال اس حوالے سے نمایاں مثالیں ہیں۔

ایک دوسرے سے دشمنی نبھانے کی دوڑ میں برصغیر کے لیڈروں نے بے دردی سے ان سماجی و ثقافتی اقدار کو مسترد کیا ہے جو پاکستان اور ہندوستان کے لوگوں میں قدر مشترک ہیں اور ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارہ میں معاون ہوسکتی ہیں۔ دلیپ کمار کے انتقال پر جس طرح سرحد کے دونوں طرف زیاں کا احساس دیکھنے میں آیا ہے، اس کی روشنی میں یہ سمجھنا دشوار نہیں کہ پاکستان اور بھارت ثقافت و سماجی مشترکہ قدروں پر ایک مضبوط دوستی کی بنیاد رکھنے کے اہل ہیں۔ اسی طرح برصغیر میں پائیدار امن کا آغاز ہوسکتا ہے اور خوشحالی کے راستے کشادہ ہوسکتے ہیں۔ اس کے لئے ضروری ہوگا کہ مشترکہ تاریخ سے فرار اور ایک جیسی اقدار سے انکار کا منفی طریقہ ترک کیا جائے۔

اسی طرح عوام کو دبانے کے لئے آزادی اظہار کو محدود کرنے اور خبروں کو چھپانے یا مسخ کرنے کی منصوبہ بندی کے ذریعے بدنام عالمی لیڈروں کی فہرست میں جگہ بنانے کی بجائے دونوں ملکوں کے لیڈروں کو امن و خوشحالی کے لئے کام کرنے والے رہنما بننا چاہئے۔ عوام دوستی کا یہ سبق سیکھا جا سکے تو یہ خطہ بھی پرامن اور خوشحال ہوسکتا ہے اور یہاں کے لوگ اور لیڈر دنیا کے لئے ثقافتی و سماجی بھائی چارے کی مثال بھی بن سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments