مذہبی اقلیتیں اور ہمارے رویے


گزشتہ سال میں نے ضلع قصور کے تین پرائمری سکولوں کے بچوں کے انٹرویوز کیے تھے۔ ان میں سے ایک سکول ایسا تھا جہاں مسیحی بچیوں کی بھی نمایاں تعداد موجود تھی۔ باقی پرائمری اسکولوں کی نسبت مجھے اس اسکول میں کچھ منفرد چیزیں دیکھنے کو ملیں۔ یہاں نہ صرف میرا انٹرایکشن مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی بچیوں سے ہوا بلکہ اس سرکاری سکول میں زیادہ تر پڑھنے والی بچیاں غریب یا کم آمدنی والے گھروں سے تعلق رکھتی تھیں سو میرے لیے ایک مخصوص سوشل کلاس میں مختلف مذاہب کے لوگوں کے آپس کے رویوں کو سمجھنے کا یہ ایک اچھا موقع تھا۔ مسیحی لڑکیاں مسلم لڑکیوں کی نسبت تعداد میں کم تھیں۔ بریک کے وقت جہاں دوسری لڑکیاں آپس میں کھیل کود کر رہی تھیں وہیں یہ مسیحی بچیاں آپس میں آرام سے بیٹھ کر لنچ کرتی دکھائی دیں۔ یہ قدرے سہمی ہوئی تھیں اور دوسرے بچوں سے دور تھیں۔ مذہب کی بناء پر ایسے فاصلوں سے میں پہلے ہی واقف تھی لیکن اس منظر نے مجھے مجبور کیا کہ میں ان کی اساتذہ سے ان بچوں کے انٹرایکشن کے متعلق مزید دریافت کروں۔

میں نے اسکول کی ہیڈ سے بھی ان مسیحی بچیوں کی تفصیلات اور رویوں کے متعلق پوچھا۔ ان کا بتانا تھا کہ یہ لڑکیاں ایک ہی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں اور ان کے گھروں کے قریب ہمارا اسکول ہی پڑتا ہے تبھی ان کی لڑکیاں ہمیشہ اسی اسکول میں داخلہ لیتی ہیں۔ ہیڈ صاحبہ نے بتایا کہ چند مہینے قبل ان بچیوں کی والدہ سکول میں شکایت کرنے آئی تھیں کہ دوسری لڑکیاں ان کی بیٹیوں کا مذاق اڑاتی ہیں۔ ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اپنی تذلیل سمجھتی ہیں اور ان کے ہاتھ کی چھوئی ہوئی پنسل ربڑ تک کو دھونے بیٹھ جاتی ہیں۔ اس ڈیسک پر نہیں بیٹھتی جہاں یہ بچیاں بیٹھتی ہوں کیونکہ مسلم بچیوں کو ان مسیحی بچیوں کی چھوئی ہوئی ہر چیز ناپاک معلوم ہوتی ہے۔ میں ہیڈ صاحبہ کی باتیں سن رہی تھی اور ساتھ ساتھ ان بچیوں کو بھی دیکھ رہی تھی۔ ہیڈ صاحبہ نے مزید یہ بتایا کہ ان بچیوں کو اسکول میں داخل کرنے پر مسلم لڑکیوں کے کچھ والدین سکول انتظامیہ سے نالاں رہے۔ مجبوراً حالات کو بہتر بنانے کے لئے ہمیں کلاس میں ان مسیحی بچیوں کی نشست کو مخصوص کرنا پڑا تاکہ یہ بچیاں تعلیم جاری رکھ سکیں اور مسلم بچیوں کو بھی مسئلہ نہ ہو۔ میں بھی غور کر رہی تھی کہ مسیحی بچیوں کی کلاس میں بھی جگہ الگ تھی۔ نہ تو یہ بچیاں کھیل کے میدان میں دوسروں کے برابر تھیں نہ ہی کمرہ جماعت میں۔

آئین پاکستان بغیر کسی نسلی، صنفی اور مذہبی تفریق کے تمام شہریوں کو برابر کا اسٹیٹس دیتا ہے۔ ہمارے قوانین جہاں مسلم اکثریت کے لئے بنائے جاتے ہیں وہیں وہ دوسرے مذاہب کی اقلیتوں کے لئے بھی ہیں۔ اس ریاست میں ہم سب عام شہریوں کا درجہ رکھتے ہیں پھر تعلیم، صحت وغیرہ جیسے شعبہ جات ہوں یا مناسب ملازمتیں، وہ تمام حقوق جن کی ادائیگی کی ہماری ریاست پابند ہے۔ ان تمام حقوق تک رسائی ہر شہری کا حق ہے۔ قانون ترقی کا ایک آلہ ہوتا ہے جو اپنی پابندی کے تحت ایک معاشرے کو ترقی اور جدت کی راہوں کی طرف لے جاتا ہے۔ آئین پاکستان میں تمام شہریوں کو برابر کا اسٹیٹس دے کر ایک پرامن پاکستان کی بنیاد ڈالی گئی ہے جہاں مختلف مذاہب، صنف، رنگ اور نسل کے لوگ ایک دوسرے کو قبول کر سکیں اور ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرتے ہوئے اپنی زندگیاں گزار سکیں۔

مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے اسٹیٹس کو بہتر بنانے کے لئے حکومت کا مناسب سرکاری ملازمتوں میں ان اقلیتوں کے لئے 5 فیصد کوٹا خوش آئند قدم معلوم ہوتا ہے۔ اس سے مناسب ملازمتوں تک مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی رسائی میں آسانیاں پیدا کی جا سکیں گی۔ سرکاری ملازمتوں میں پانچ فیصد کوٹے کو سماجی کارکنوں اور مختلف ویلفیئر کے اداروں نے سراہتے ہوئے ملازمتوں میں کوٹے کے ساتھ ساتھ تعلیمی اداروں میں بھی کوٹے پر حکومت کی توجہ دلائی اس موقف پر کہ جن غریبوں کی رسائی کبھی اچھی تعلیم تک رہی ہی نہ ہو، جنھیں کبھی غیر نصابی سرگرمیوں میں بخوبی اپنے جوہر دکھانے کا موقع بھی نہ ملا ہو۔ بھلا وہ ان سرکاری ملازمتوں کے اہل کیسے بن پائیں گے؟ حال ہی میں حکومت نے تعلیم میں مذہبی اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کے لئے 2 فیصد کوٹے کا اعلان کیا ہے جس سے نہ صرف ان نوجوانوں کی معیاری تعلیم تک رسائی آسان ہو سکے گی بلکہ یہ مناسب ملازمتوں کے اہل بھی ہو سکیں گے۔ ان نوجوانوں کی سماجی اور معاشی خودمختاری میں ایسی پالیسیاں ایک اچھا کردار ادا کر سکیں گی۔

قوانین اور پالیسیاں جو تمام شہریوں کو برابر کا رتبہ دیتی ہوں اپنی جگہ موجود تو ہیں مگر ہمارے روزمرہ کے رویوں میں ایک دوسرے کو قبول کرنے اور ڈائیورسٹی (Diversity) کو ناگوار سمجھنے کی بجائے اس میں خوبصورتی کو تلاش کرنے کو ترجیح نہیں دی جاتی۔ بچپن سے ہی بچوں کے ذہنوں میں اپنی ذات، مذہب اور کلاس سے مختلف لوگوں کے لئے زہر بھرا جاتا ہے۔ چونکہ مذہب کسی بھی فرد کی زندگی میں ایک اہم مقام رکھتا ہے اور کسی شخص کے کردار اور اس کے نظریات کا براہ راست تعلق اس کے مذہب سے ہوتا ہے ایسے میں مذہب کی بناء پر استوار ہونے والے تعلقات یا پھر مذہب ہی کی بناء پر پیدا ہونے والی دوریاں اور انتشار بھی شدید نوعیت کے ہوتے ہیں۔ دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والی بچیوں کے ساتھ ناگوار سلوک صرف ضلع قصور کے کسی لڑکیوں کے پرائمری اسکول کا ہی مسئلہ نہیں بلکہ یہ مسئلہ ہم سب کا ہے اور ہر جگہ موجود ہے۔ اگر ہم واقعی اقلیتوں کے حقوق اور ان کی برابری چاہتے ہیں تو سب سے پہلے ہمیں اپنے رویوں سے اس کا آغاز کرنا ہوگا تاکہ جہاں بھی ایسا استحصال ہو وہاں فریقین میں مزید دوری پیدا کرنے کی بجائے۔ مسیحی بچیوں کی نشست فکس کر دینے کی بجائے۔ ان کو پاس لایا جائے۔ مذہبی اکثریت سے تعلق رکھنے والوں کو ڈائیورسٹی (تنوع) کے حسن سے روشناس کرایا جائے اور دوست بنایا جائے۔ اگر ہم پاکستان کے مختلف مذاہب اور دیگر سوشل گروپس سے تعلق رکھنے والے لوگوں میں ہم آہنگی پیدا کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنے نوجوانوں کی تربیت پر خصوصی توجہ دینا ہوگی تاکہ انھیں مستقبل میں ہم ذمہ دار اور ڈائیورسٹی کو قبول کرنے والے شہری پیدا کر سکیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments