کچھ بھی نہیں جو خواب کی صورت دکھائی دے


میں نے پہلی بار پاکستان کے ڈاک کے ٹکٹ پر پاکستانی حضرات کی تصویر دیکھی تو خاص حیرانی سی ہوئی۔ وہ سب لوگ پاکستان کی پہچان تھے اور ہیں بھی۔ مجھے کرید ہوئی کہ یہ فیصلہ کہاں ہوا اور کیوں ہوا۔ میں اس زمانہ میں پاکستان سے باہر تھا جب پاکستان سے ایک مکتوب آیا اور اس کے ٹکٹ پر نواب بہاول پور کی (شبہ) تصویر تھی۔ مجھے ٹرانٹو لابیریری بورڈ کی خاتون اخیر نے پوچھا، یہ کوئی استاد یا سائنس دان ہے، میں ذرا دیر کو مسکرایا اور وہ میری مسکان سے کچھ ناراض سی لگی۔ مجھے احساس ہوا کہ مسکراہٹ کے بعد کوئی سوال کرتے تو آپ کا ردعمل اس کو مناسب نہیں لگا۔ خیر میں نے اس کو بتایا، میں اس لئے خوش ہوا تھا کہ تمہارا سوال اچھا ہے وہ اس پر ہی خوش ہو گئی۔ میں نے بتایا کہ صاحب گھر پر ایک خودمختار ریاست کے لارڈ تھے۔ اس نے فوراً کہا Oh King میں جواباً کہا ہاں کہہ سکتے ہو۔ پھر بتایا کہ جب ہندوستان کی تقسیم انگریز نے کی تو نواب بہاول پور نے اپنی ریاست کو پاکستانی حصہ بنا دیا اور پاکستان کی مالی مدد بھی بہت کی۔

میں سوچ رہا تھا کہ ایسا صاحب ذوق و شوق کون سا پاکستانی نوکر شاہی میں زندہ اور سانس لے رہا ہے اور کچھ کرتا نظر آ رہا ہے۔ پاکستان میں دوستوں سے رابطہ کیا، مجھے ایک زمانہ میں ڈاک کے ٹکٹ جمع کرنے کا شوق تھا اور جب ہی پاکستان سے ڈاک کے خاص ٹکٹ چھپتے، میں ان کو خرید لیتا، پھر ایک دن ابدال بیلا کی کتاب ”آپ بیتی“ پڑھ رہا تھا تو معلوم ہوا کہ ٹکٹوں پر پاکستان مشہور لوگوں کی تصاویر دینے کا کارنامہ میرے دوست راوین اور مہربان جاوید اقبال اعوان کا ہے۔ انہوں نے ڈاک کے ٹکٹوں پر نواب آف بہاول پور، ناصر کاظمی، جناب سید ضمیر جعفری کی تصاویر کو اجاگر کیا، ایک زمانہ میں جاوید اقبال اعوان، ریاست بہاول پور شہر بہاول پور کے ڈپٹی کمشنر تھے اور وہاں سائیکل رکشہ چلتے تھے، آپ کی توجہ سے مزدور کی مشقت کم ہوئی اور پٹرول والی کم خرچ کے رکشہ کا انتظام سرکار نے کیا اور عوام کو آسانی فراہم کی۔ چند دن پہلے ہی ان کا فون آیا وہ مجھے سید سردار علی کے لیکچر کے لئے مدعو کر رہے تھے۔

میں نے جاوید سے پوچھا کہ موضوع کیا ہوگا۔ انہوں نے بتایا سید سردار علی کا موضوع دنیا میں ترقی کیسے ہوئی۔ میں نے دوبارہ پوچھا اور کون کون مدعو تھے، جاوید بتانے لگے ساجد علی صدارت کریں گے مجھے اور خوشی ہو جناب ساجد علی اک زمانہ میں پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ فلسفہ کے ہیڈ تھے۔ گورنمنٹ کالج میں کالج گزٹ کے ایڈیٹر تھے اور میں رپورٹر تھا اور ان کی سفارش سے ڈاکٹر اجمل گزٹ کا پنجابی ایڈیشن ”راوی دیاں چھلاں“ کی اجازت دینے پر تیار ہوئے اور مرزا نعیم نے خوب کام کیا اور مشاق صوفی کی ترقی پسند نظموں تک رسائی بھی ہوئی۔ جاوید نے بتایا کہ سید سردار علی کے چار لیکچر ان نیٹ تھے، ایک لیکچر یعقوب اظہار صاحب کے ہاں ہوا تھا اور دوسرا یہ لیکچر پا کر چائنا جوائنٹ چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے روح رواں جناب صلاح الدین حنیف کے بورڈ روم میں ہوگا۔ میں نے جاوید سے کہا کہ کچھ ذوق لطافت بھی ہوگا وہ فوراً بولا۔ ہاں کیوں نہیں۔ بہترین سوچ کے ساتھ پرلطف خوراک بھی ہوگی۔

اس دفعہ گرمی کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی ہے۔ میں حسب وعدہ ایل ڈی اے پلازہ پہنچا اور مقررہ مقام کی تلاش شروع کی، ایک زمانہ میں جب پنجاب کے دروغہ شہباز شریف تھے تو ایل ڈی اے پلازہ کے ریکارڈ روم میں آگ لگ گئی تھی، کتنی تاریخ کی یادداشتوں کو مٹا دیا گیا اور کوئی پوچھ پڑتال بھی نہ ہوئی۔ ایل ڈی اے پلازہ ابھی بھی اجلا نہیں ہوا تھا، کسی زمانہ میں ہمارے دوست سپریم کورٹ کے جج جسٹس بندیال کا یہاں دفتر ہوا کرتا تھا وہ بھی صاحب ذوق ہیں اور اچھی سی صحبت کا وجدان رکھتے ہیں۔ ایک گارڈ کی رہنمائی سے صلاح الدین حنیف کا دفتر مل ہی گیا۔ وہاں رانا امیر صاحب سے ملاقات ہوئی، بڑے کامیاب وکیل اور ایک زمانہ میں بیگم عطیہ کے ساتھ کام کرتے تھے اور پھر مسلم لیگ کے کسی جتھے کے ساتھ مل کر انتخابات میں رہنمائی کرتے رہے۔ کہنے لگے نظام کی تبدیلی وقت کی ضرورت ہے میں نے کہا اگر وقت پر نہ ہوتی تو کیا ہوگا۔ وہ چپ سے ہو گئے، ان کو معلوم ہے کہ مجھے جمہوریت کے کردار پر شک ہے کہ وہ عوام دوست نہیں ہوتی۔

اتنے میں معلوم ہوا کہ آنے والے سب حضرات کو حاضری بھی لگوانی ہے اور حاضری لگانے کا طریقہ یہ ہے کہ استقبالیہ پر جا کر اپنا نام اور رابطہ لکھنا ہے۔ میں بھی حاضر ہوا اور جملہ معلومات کو مکمل صحت کے ساتھ درج کیا۔ وہاں پر کچھ کتب بھی رکھی ہوئی تھی، انگریزی اور چین کی بھاشا کے بارے اور سیکھنے کی کتاب تھی اس کا مکمل نام تھا Let’s Learn Chines together، English to Chines and Urdu Dictionary استقبالیہ پر کھڑی خاتون سے پوچھا کہ اس کی کیا قیمت ہے وہ مسکرائی اور دھیرے سے بولی۔ مفت ہے، اس کی مسکراہٹ اور مفت دونوں نے سرشار کیا اور شکریہ کے ساتھ کتاب کو قابو کیا تو دیکھا سب لوگ بورڈ روم کی طرف رواں تھے۔ ایک صاحب بتانے لگے کہ بس چند منٹوں کے بعد سید سردار علی صاحب آنے والے ہیں، یہ مہربان جناب فیم بلال تھے جن کی فہم و فراست نے خاصا متاثر بھی کیا ایک طرح سے یہ سردار صاحب کے چیف آف سٹاف تھے۔

ابھی لیکچر کے شروع ہونے میں وقت تھا تو میں نے چائنا کی زبان جاننے کی کوشش کی، کچھ بھی پلے نہ پڑا اور وہاں ہی کسی نے بتایا کہ اس دفتر کے لوگ چائنا کی زبان سکھانے کا کورس بھی کرواتے ہیں۔ ایک زمانہ میں زیادہ وقت نہیں گزرا جب سی پیک کے منصوبے سابق وزیراعظم نواز شریف میں رواں تھے تو اکثر تعلیمی اداروں میں چائنا کی زبان کے کورس شروع کروائے گئے تھے مگر کیا ہوا کہ ان کورسوں کو زیادہ توجہ نہ مل سکی۔ شہر میں اب تو چائنا کے لوگ کاروبار کرتے بھی نظر آتے ہیں اور یہ بھی سنا ہے کہ پاکستان میں چین کے سفارت خانہ اردو بولنے والے سفارتی لوگوں کی تعداد کافی معقول ہے اور وہ اچھے طریقہ سے لوگوں کی مدد بھی کرتے ہیں، لاہور میں چین کا قونصلیٹ بھی ویزا کی سہولت مہیا کرتا ہے، اتنے میں معلوم ہوا کہ سردار صاحب آچکے تھے اور تلاوت کلام پاک سے آغاز ہوا، پھر جاوید صاحب نے سب سے پہلے پرانے لیکچرز کے حوالہ سے یادداشت کا اعادہ کیا۔

جاوید اعوان کی یادداشت کمال کی تھی انہوں نے چند منٹوں میں پرانے نظاموں کی تاریخ بیان کردی۔ سب حیران اور خوش تھے کہ جاوید کا بیانہ اتنا آسان اور قابل فیم تھا کہ پوچھنا پڑا کہ آپ نوٹ کیسے تیار کرتے ہیں۔ جاوید کا جواب بڑا مختصر اور مدلل تھا، ساری عمر نوٹس بنانے میں گزار دی ہے پھر جناب سید سردار علی نے آغاز گفتگو کیا۔ ماضی کی ہزار سالہ تاریخ کا بیان، نظام کے قیام کی تاریخ اور پھر معاشرے میں ترقی کی کہانی اور ملکوں کے درمیان مقابلہ کی فضا اور تعلیم کی اہمیت اور حیثیت سے معاشرتی علوم کا فروغ، لیکچر خوب تھا اور پھر نماز کا وقفہ میں اچھی خوراک کی ترسیل بھی ہوئی۔ جنرل انیس باجوہ نے بھی معاشرتی ترقی اور توجہ پر بات کی، جناب جوہر جو ایک تعلیمی ادارہ کے ڈائریکٹر ہیں انہوں نے اصلاحی ثقافت کے تناظر میں قوموں کی ترقی پر روشنی ڈالی۔ ایک بھرپور معلومات سے سامعین کو محفوظ کیا گیا اور مجھے لگا کہ ہمارے ہاں بھی نظام کو بدلنا لازمی ہو گیا ہے اور کون اس کے لئے سامنے آتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments