سوشل میڈیا، اہانت کا تاثر اور لاپتہ افراد


\"\"اوریا مقبول جان صاحب نے 21 جون 2016 کی شام اپنے پروگرام ’’حرف راز‘‘ میں الحاد کو موضوع بحث بنایا۔ اس پروگرام میں انہوں نے سماجی ذرائع ابلاغ پر سرگرم ایسی ویب سائٹس اور پیجز کو منظر عام پر لانا تھا جو نفرت انگیز مواد پر مشتمل ہیں۔ پروگرام کا عنوان تھا

’’ملحدین کی اصل پہچان کیا ہے‘‘

جبکہ پروگرام کے آغاز میں مشتے نمونہ از خروارے کے طور پہ ’’ہم سب‘‘ پہ شائع ہونے والے پانچ کالموں کے شاٹس دکھائے گئے، جن میں سے دو کالم ہمارے تھے۔ ہمارے کالم کے عنوان یہ ہیں

1۔ بیچ شلوار اور دستار کے

2۔ اسلامی نظریاتی کونسل، بس کردے ہنسائے گا کیا۔

یعنی جس پروگرام میں اوریا مقبول جان صاحب نے الحاد کو فروغ دینے والی اور اہانت مذہب کا ارتکاب کرنے والی ویب سائٹس یا افراد کا ذکر کرنا تھا، اس پروگرام میں فقط ’’ہم سب‘‘ کو نمایاں کیا گیا اور انہی تحریروں کو نمایاں کیا گیا جو ’’ہم سب‘‘ پر شائع ہوئیں۔ یہ در اصل کیا تھا؟ اس پر بات کرتے ہیں۔ پہلے اس پروگرام کا خلاصہ دیکھ لیجیے

اوریا صاحب نے فرمایا

’’ایسا (سیکولر) شخص میرے نزدیک منافق ہے۔ اگر وہ سیکولر ہے تو اسے آئین پاکستان کا حلف نہیں اٹھانا چاہیئے، وہ باہر رہے، وہ اپنا کام کرے جو اس نے کرنا ہے‘‘

پھر آپ نے فرمایا

’’تم کون ہوتے ہو اس (آئین) پر سوال اٹھانے والے، تم تو دراصل آئین پاکستان کے غدار ہو‘‘

اس جملے پر پروگرام کے میزبان نے کہا

’’اور آئین پاکستان کے غدار کی سزا کیا بنتی ہے وہ تو اداروں کو پتہ ہی ہوگا‘‘

اوریا صاحب نے اس پر تائید میں گردن ہلاتے ہوئے فرمایا

’’جی بالکل‘‘ (یعنی ان غداروں پر آرٹیکل چھ لاگو کیا جاوے)

آپ نے مزید فرمایا

’’متفقات سے نہیں الجھنا چاہیئے، آئین میں جو طے ہوچکا وہ بس طے ہو چکا‘‘

اب ایک ناظر کی کال آگئی۔ اس نے سوال کیا

’’ہمارا آئین قتل جیسے جرم کی سزا کی معافی کا اختیار بھی صدرِ پاکستان کو دیتا ہے، کیا یہ دوغلہ پن نہیں ہے؟‘‘

اوریا صاحب نے جواب دیا

’’جی بالکل یہ غلط ہے، اس پر سوال اٹھتے ہیں اور بحث بھی ہوتی رہی ہے۔ اور اس پر بحث ہوتی بھی رہنی چاہیئے‘‘

یعنی کہ آپ نے پچھلی سانس میں فرمایا کہ متفقہ اور طے شدہ امور کو نہیں چھیڑنا چاہیئے اور اگلی سانس میں ایک ناظر کے سوال کے جواب میں متفقہ و طے شدہ آئی شق 45 سے متعلق فرمانے لگے کہ جی یہ غلط ہے اس پر بحث ہوتی رہنی چاہیئے۔ صرف یہی معاملہ نہیں ہے۔ جمہوریت ہماری متفقہ اور طے شدہ عمرانی دستاویز ہے۔ اوریا صاحب اپنے شہری حق کی بنیاد پر اسی دستاویز پر ٹی وی پروگراموں میں، اپنے کالموں میں اور جامعات میں کھل کر تنقید کرتے ہیں۔ مشکل یہ ہے کہ یہ حق وہ کسی دوسرے شہری کو دینے پر آمادہ نہیں ہیں۔ سوال اٹھانے والوں سے یا غلطی کی نشاندہی کرنے والوں سے چونکہ یہ حق آئینی طور پر چھینا نہیں جا سکتا، اس کے لیے طریقہ واردات یہ ہے کہ جو تنقید اور اختلاف کی ٹھوس آوازوں کو دانستہ طور پر ان آوازوں میں شامل کردوجو باقاعدہ اہانت مذہب کی مرتکب آوازیں ہیں۔

اندازہ کیجیے کہ اپنے پروگرام میں اوریا مقبول جان صاحب نے لکھنے والوں کو دراصل کون سے اڑنگے پہ لے کر پٹخنی دینے کی دانستہ کوشش کی۔ ان ویب سائٹس کا ذکر نہیں فرمایا جو واقعی کسی شرپسندانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ ان افراد کی طرف نہیں گئے جو اقعی غیر اخلاقی سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔ برقی لہروں پر صرف ’’ہم سب‘‘ کا ٹائٹل اور ’’ہم سب‘‘ ہی کے کچھ لکھاریوں کی شکلیں نمایاں کیں اور اس پر ’’ملحدین کی اصل پہچان‘‘ کا عنوان باندھ دیا۔ اس طرح ایک تاثر انہوں نے قائم کردیا کہ مدیر وجاھت مسعود یا فرنود عالم اور دیگر کی جو تحریریں دور سے دکھائی جارہی ہیں دراصل اہانتِ مذہب پر مبنی مواد پر مشتمل ہیں۔ اوریا مقبول جان صاحب کے اس غیر ذمہ دارانہ رویے کی وہ قیمت چکانی پڑی ہے کہ جی جانتا ہے۔

یہی طریقہ واردات اس وقت سماجی ذرائع ابلاغ پر پوری ہوشیاری کے ساتھ بروئے کار لایا جارہا ہے۔ گزشتہ ہفتے چار بلاگرز ماورائے آئین و قانون حراست میں لے لیے گئے ہیں۔ تا دم تحریر یہ چار بلاگرز لاھوت ولامکان میں ہیں۔ اس جبری گمشدگی کے ساتھ ہی فیس بک پر کچھ ایسے پیجز بند ہوئے جو نفرت انگیز مواد پر مشتمل تھے۔ یہ تاثر قائم کردیا گیا ہے کہ جو لوگ حراست میں لیے گئے ہیں وہ دراصل بند ہونے والے پیجز کے ذمہ دار تھے۔ اس ملک کا کوئی بھی ادارہ آئین وقانون سے بالاتر نہیں ہے۔ کسی شہری کو اٹھا کر مکمل طور پر لاپتہ کردینے کا حق کسی کو نہیں۔ ملزم پر کتنے ہی سنگین جرم کا الزام کیوں نہ ہو، اس کا آئینی حق ہے کہ اسے عدالت میں پیش کیا جائے۔ اور یہ کہ اہل خانہ کو اس تک رسائی دی جائے۔ افسوس مگر یہ ہے کہ ماورائے آئین و قانون اقدام کو جواز بخشنے کے لیے اہانت مذہب کا ایک سنگین تاثر قائم کردیا گیا ہے۔ اس تاثر کو پختہ کرنے میں اوریا مقبول جان صاحب، سماجی ذرائع ابلاغ پر موجود نجی شرعی عدالتیں اور کراچی کا ایک اخبار اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔ اس پورے منظر نامے میں اگرچہ عامر ہاشم خاکوانی صاحب اور زبیر منصوری صاحب نے بہت بہتر اور صاف موقف دیا مگر ان کی آواز قائم کردہ تاثر تلے مکمل طور پر دب گئی۔ اب اس دورانیے میں ہمارا کوئی بھی رفیق کار خدا نخواستہ اغوا ہوجاتا ہے، تو سماجی ذرائع ابلاغ پر لگی ہوئی نجی عدالتوں میں یہ فیصلہ ہو جائے گا کہ موصوف یقینا کسی نفرت انگیز پیج کے منتظم تھے۔ کیا آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ معاملہ ہمارے دیگر بلاگر ساتھیوں کے مستقبل کے لیے کس قدر سنگین ہے؟

جو بلاگرز حراست میں لیے گئے ہیں ان میں سے فقط ایک سے میری براہ راست شناسائی ہے۔ یہ کن جرائم کے مرتکب ہیں، اس کا پتہ تو تب چلے جب انہیں منظر عام پر لایا جائے۔ جب جرم کا اور ثبوت و شواہد کا کچھ بھی علم نہ ہو تو ہم نہ کسی کو مجرم ٹھہراسکتے ہیں اور نہ ہی فرشتگی کی سند دے سکتے ہیں۔ اس وقت تو خیر یہ بحث بھی نہیں ہے۔ بحث یہ ہے کہ گمشدہ افراد کو اٹھانے والے آئین کو جواب دیں۔ وہ بحث جو بعد میں شروع ہونی چاہیئے تھی وہ شروع بھی ہوچکی اور حتمی فیصلہ بھی سنایا جا چکا۔ ہم فقط گواہی دے سکتے ہیں۔ کسی سے آپ کو رسم و راہ ہو تو کچھ معاملات کی گواہی آپ پورے یقین کے ساتھ دے سکتے ہیں۔ سلمان حیدر ایک جامعہ کے استاد ہیں، شاعر ہیں، ڈرامہ نویس ہیں،کالم نگار ہیں اور متحرک سماجی کارکن ہیں۔ ان کے باب میں مجھ سمیت ہر دوست حلفا یہ گواہی دے گا کہ وہ شخص اہانتِ مذہب کا مرتکب نہیں ہوسکتا۔ اس کی بہت ہی بنیادی وجہ یہ ہے کہ سلمان حیدر خود مذہب پر پورے شعور کے ساتھ یقین رکھتا ہے۔ اس کا تعلق جس بھی مسلک سے ہے، اس مسلک کے پیروکار سے کچھ بھی فکری اختلاف کیا جا سکتا ہے، یہ گمان کسی طور نہیں کیا جا سکتا کہ وہ رسالت مآب ﷺ کے لیے ان الفاظ کا استعمال کرے گا جس کے حوالے مذکورہ پیجز کے تعلق سے مل رہے ہیں۔ جاننے والے جانتے ہیں کہ سلمان حیدر کی افتاد طبع کیا ہے۔ سلمان حیدر اگر مذہب کو ترک بھی کر چکا ہوتا، تو بھی اس نے وہ مزاج نہیں پایا جو اسے کسی مذہب یا عقیدے کی تحقیر و تذلیل پر آمادہ کرے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ سلمان حیدر روایتی بیانیے کا ناقد ہے، غیر جمہوری عناصر کے غیر جمہوری کردار کا ناقد ہے، بلوچستان کے لاپتہ ہونے والے شہریوں اور عقیدے کی بنیاد پر قتل کیے جانے والے شہریوں کے معاملے میں حساس ہے۔ اگر یہی جرائم ہیں، تو یہ بدیہی جرائم ہیں جو ثبوت و شواہد کے ہر گز محتاج نہیں ہیں۔ اس کے سوا کوئی جرم ہے تو اس کا علم ہمیں کیسے ہوگا؟ جرم جو بھی ہو، کم از کم اہانتِ مذہب کے جرم کا تصور اس کے باب میں ممکن نہیں ہے۔

جن صحافیوں نے، سوشل میڈیا کی نجی شرعی عدالتوں کے جج صاحبان نے، فیس بک صارفین اور اینکر صاحبان نے محض اٹکل کی بنیاد پر اہانت مذہب کا بار سلمان حیدر کے کندھوں پر رکھ کر اس کی زندگی کو خطرے سے دوچار کیا ہے، انہیں خدا کے آگے جوابدہی کا واسطہ بھی دے دیا جائے تو کیا فرق پڑے گا؟ یہاں تو فقط الزام لگ جانا ہی اس بات کا شافی ثبوت ہوتا ہے کہ موصوف توہینِ مذہب کے مرتکب ہیں۔ مذہب کے تمام اصول پامال کر کے الزام لگانے والے سے ثبوت طلب کرنا بھی توہینِ مذہب کا ارتکاب ہے۔ ایسے میں کم از کم اتنا تو کہا جا سکتا ہے کہ خدارا کچھ تو سوچیے۔ کچھ تو احساس کیجیے۔ آخر حضرت انسان کے خون کو اس قدر بے توقیر کیوں تصور کرلیا گیا ہے؟ بہرِ خدا۔ بہرِ خدا۔۔۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
2 Comments (Email address is not required)
Oldest
Newest Most Voted
Inline Feedbacks
View all comments