مولانا مودودی، “اسلام مکمل ضابطہ حیات” اور ہمارے مذہبی پیشوا


ہم بچپن سے مذہبی پیشواؤں سے سنتے آرہے ہیں کہ دین مکمل ضابطہ حیات ہے، لہذا شروع شروع میں ہم نے بھی جذباتی طور یقین کیا، بل کہ اکثر و بیشتر اس خیال کا دفاع بھی کیا، لیکن وقت گزرنے گزرنے کے ساتھ ساتھ اس نظریے پر سوالات ذہن میں آنے لگے، اور یہ نظریہ دھندلا ہوتا گیا، جب سوچا کہ مکمل ضابطہ حیات کا کیا مطلب ہے، مکمل ضابطہ حیات میں انسان کے لئے دنیا میں ضروری تمام لوازمات ہیں، جس کو استعمال کر کے انسان خوشحال اور صحت مند رہتا ہے، ان مادی ضروریات کے بغیر معاشرہ نہ تو خوشحال ہو سکتا ہے اور نہ اخلاقی جرائم سے پاک، ہمارے مذہبی علما کے ترجیحات میں کبھی یہ باتیں شامل نہ تھیں اور نہ اب ہیں، اب اپنا یہ یقین پختہ ہو گیا ہے کہ مذہبی علما کے پاس دنیا کو رہنے کے لئے ایک خوبصورت جگہ بنانا اور ایک فلاحی ریاست کے لئے ذہن سازی کرنا ان کے ترجیحات میں شامل نہیں، آپ اپنی جامع مسجد کے خطیب کے ساری عمر کے تقاریر کو سامنے رکھ کر بتائے، اس نے مسجد و مدرسہ کی تعمیر میں حصہ لینے والوں کے لئے بشارتیں تو بہت سنائی ہوں گی، لیکن اس نے کبھی بھی یہ نہیں بتایا ہوگا کہ مسجد و مدرسے کے علاوہ انسانوں کے لئے ہسپتال، سکول اور پارک بھی ضروری ہے یہ غریب سے چندہ لے کر ان کو تو جنت کی بشارت تو دیتے ہیں، لیکن یہ غریب جب علاج نہ ہونے کی وجہ سے یا مہنگا ہونے کی وجہ سے مرتا ہے تو اس کی زندگی بچانے کے لئے کوئی بشارت نہیں، اور نہ کوئی خیراتی ہسپتال کا منصوبہ ان کے منشور میں ہے، انسانوں کی زندگی بچانے کے لئے صحت کے مراکز بنانے پہ کوئی بشارت اور فضائل ان کے نزدیک نہیں، ایک گاؤں والے ان فضائل کی بنیاد پر ہر محلے میں الگ الگ مسجد تو بنا سکتے ہیں، لیکن درجنوں گاؤں مل کر ایک ایسا ہسپتال نہیں بنا سکتے جس میں غریب اور لاچار لوگوں کا مفت علاج ہو سکے، کیوں ان لوگوں کو بس جنت مسجد یا مدرسے کی تعمیر میں نظر آتا ہے، اس کے علاوہ مذہبی پیشواؤں کے ترجیحات میں مرد وزن کو جدید سائنسی تعلیم کے لئے تیار کرنا اور ان کی تعلیم کے لئے ذہن سازی کرنا شامل نہیں ہے، شروع میں تو یہ سرے سے جدید تعلیم کے خلاف تھے اور اب تک اکثر عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں، ان کے ترجیحات میں خوبصورت پارک بنانا، بچوں کے لئے کھیل کے میدان بنانا، کھیلوں کو فروغ دینا، جدید نہری نظام، زراعت کو فروغ دینا، درختوں کا لگانا، پاک صاف گلیاں، بہترین انفراسٹرکچر، تیز ترین مواصلاتی نظام، صحت کا بہترین نظام، جدید نظام تعلیم، مثالی پولیس، اداروں کو فعال اور خود مختار بنانا شامل نہیں ہیں۔

جب یہ سوال کیا جاتا ہے تو جواب ملتا ہے کہ یہ کام تو علما کا نہیں، یہ تو حکومت کا کام ہے تو عرض کی جاتی ہے کہ قومیں ریاست سے شعور کی بنیاد پر اپنی بنیادی حقوق حاصل کرتی ہیں، ہم یہ نہیں کہتے کہ مولوی صاحبان اپنے جیب سے یا قوم کے چندوں سے یہ منصوبے شروع کریں، ہم یہ کہتے ہیں یہ کام ریاست کر سکتی ہے لیکن ان چیزوں کا شعور کوں دے گا؟ ان کے لئے ذہن سازی کون کریں گا؟

آپ ایک گاؤں میں درجنوں مساجد اور مدارس کی تعمیر کے لئے ذہن سازی کر سکتے ہیں، لیکن درجنوں گاؤں کے لئے سکول اور ہسپتال آپ کے لئے تعمیر تو درکنار محض ذہن سازی آپ کے ترجیحات میں شامل نہیں، نہ آپ نے کبھی ہسپتال کی افادیت پر تقریر کی ہے اور نہ جدید تعلیم کی اہمیت پر روشنی ڈالی ہے، آپ کے منشور میں انسانوں کے معاشرے کے لئے مسجد و مدرسے کی تعمیر کے علاوہ کوئی ثواب کا کام نہیں، اس وجہ سے آپ کا یہ دعوا کہ دین مکمل نظام حیات ہے، کم از کم ان مذہبی پیشواؤں کے عمل، تحریر و تقریر سے تو ہمیں کہیں بھی یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کا دیا ہوا تصور مذہب مکمل نظام حیات ہے، یہ محض ایک سراب اور دھوکہ ہے، کیوں کہ آپ کے ترجیحات میں دنیا کو انسانوں کے لئے ایک خوبصورت جگہ بنانا بالکل شامل نہیں، اور نہ آپ کو یہ شعور ہے کہ فلاحی معاشرے کیسے بنتے ہیں، فلاحی معاشرے صرف مذکورہ بالا مادی اہداف کے حصول سے نہیں بنتے بل کہ مکالمہ، باہمی احترام، برداشت، مذہبی فرقہ پستی سے پرہیز، اور انسان دوستی جیسے اعلا اخلاقی اوصاف شامل ہیں، اب آپ خود اندازہ لگائے، کہ وطن عزیز میں ایک فرقہ دوسرے فرقے کو کس حد تک برداشت کرتا ہے، مختصر یہ کہ ہمارے مذہبی علما اگر دعوی کرتے ہیں کہ دین مکمل ضابطہ حیات ہے تو پھر مذکورہ بالا چیزوں کی طرف آنا ہوگا اور اگر وہ اس ذہنی انقلاب کے لئے تیار نہیں ہیں، تو پھر حالات کو دیکھ کر میں یہ پیشن گوئی کر رہا ہو، کہ اس دہائی میں ملا کے ساتھ وہی ہوگا جو مغرب میں پادری کے ساتھ ہوا تھا، ان کے سرگرمیاں چرچ کے احاطے تک محدود کیے گئے، اور زندگی کے تمام سرگرمیوں سے ان کو مکمل نکال باہر کیا گیا، جب کہ مسلم ممالک میں اب یہ ہونے جا رہا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments