اقلیتوں کا پاکستان


”آپ آزاد ہیں اپنی مسجدوں میں جانے کے لئے اپنے مندروں اپنے کلیساؤں میں جانے کے لئے۔“

یہ قائد اعظم کے الفاظ ہیں جو انہوں نے قیام پاکستان کے وقت ارشاد فرمائے۔ نہ صرف ایک دفعہ بلکہ متعدد بار انہوں نے اقلیتوں کے حقوق پر زور دیا اور ریاست کو اس چیز کے تحفظ کا ذمے دار ٹھہرایا۔ یعنی یہ بات قیام پاکستان سے پہلے ہی روزے روشن کی طرح عیاں تھی کہ اس پاک سر زمین پر دین اسلام کے بنیادی احکامات کے مطابق لوگوں کو مذہبی آزادی ہوگی۔ کسی کو جبراً مذہب کی تبدیلی پر مجبور نہیں کیا جائے گا اور یہ قانوناً جرم بھی ہوگا۔

بات کی جائے اگر اقلیتوں کے حقوق کی تو یہ مسئلہ صدیوں سے چلا آ رہا ہے۔ اکثریت نے ہمیشہ کسی نہ کسی طریقے سے اقلیتوں کو دبانا چاہا اور بل آخر اقلیتوں کو اپنی بقا کی خاطر جنگ کرنا ہی پڑی۔ اگرچہ ایسے شدت پسند عناصر تو ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں مگر بات کی جائے پاکستان کی تو یہاں ایسے فتنوں کو سر اٹھانے کا موقع کم ملا اور اگر کبھی ایسا کوئی ناخوشگوار واقع پیش بھی آیا تو عوام اور حکومت نے قدم سے قدم ملا کر اور یک جان ہو کر اقلیتوں کے حقوق کے لئے کام کیا۔ ریاست پاکستان کا آئین جو شریعت محمدی کو سامنے رکھ کر تشکیل پایا اگرچہ اس میں کچھ خامیاں موجود ہیں۔ مگر اقلیتوں کے حوالے سے یہ مکمل طور پر ان کے حقوق کی بالادستی کی یقین دھانی کراتا ہے۔

پاکستان میں اقلیتوں کے جان، مال، عزت کا تحفظ اور اپنے عقائد کے مطابق مذہبی آزادی کی ایک بڑی وجہ اکثریت کا عقیدہ ہے۔ چونکہ وطن عزیز اسلام کے نام پر معرض وجود میں آیا اور دین محمد اقلیتوں کے تحفظ کا درس دیتا ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کی حفاظت ریاست کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان میں ہم سب نے یہ ہمیشہ دیکھا بھی کہ حکومت نے اقلیتوں کے تحفظ کو ترجیح دی اور ان کو ہر پلیٹ فارم پر نمائندگی کا حق دیا گیا۔ پاکستان کے کسی بھی شعبہ کا تجزیہ کر لیں آپ کو اقلیتوں کا ایک نمایاں کردار نظر آئے گا۔ اقلیتوں کو مذہبی آزادی اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی جان مال اور عزت کا تحفظ بھی ریاست پاکستان کے لئے ہمیشہ سے مقدم رہا۔

پاکستان میں مسیحی برادری ایک بہت بڑی تعداد میں آباد ہے۔ ہم نے بچپن سے دیکھا ہے انہیں اپنے ساتھ سکولوں میں کالجوں پڑھتے بلکہ مسیح اساتذہ سے بھی ہمارا آمنا سامنا عمر کے کسی نہ کسی حصے میں ضرور ہوا ہوگا۔ اہل کتاب ہونے کی وجہ سے مسلمانوں اور مسیحی برادری میں ایک خاص تعلق قائم ہے جس کو الفاظ میں بیان کرنا شاید مشکل ہو جائے۔ یہ ایک احساس ہے جو ہر مسلمان اور عیسائی محسوس کرتا ہے جب وہ ایک دوسرے سے ملتے ہیں کہ ہم ایک ہی خالق کے مانے والے ہیں۔ دونوں کا ایک دوسرے کے تہواروں میں شرکت کرنا بھی اب رواج عام بن چکا ہے۔

بات کریں پاکستان میں بالخصوص راولپنڈی کی تو راولپنڈی اور ہندو کمیونٹی کا تعلق بہت ہی پرانا ہے پاکستان بنے سے بھی پہلے کا۔ اگرچہ قیام پاکستان کے بعد بہت بڑی تعداد میں ہندو یہاں سے ہجرت کر گئے مگر پیچھے رہ جانے والے بندو آج بھی راولپنڈی کی پہچان ہیں۔ پرانے مندروں میں زیادہ تر اب کسی اور مقصد کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر ان میں آج بھی ہندو ثقافت جھلکتی ہے۔ آج بھی ہندو پاکستان میں پوری آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ان کے تہواروں پر بھی نہ ریاست نہ عوام کی طرف سے کبھی کوئی قدغن لگائی گئی۔ بلکہ ان کا ایک تہوار ”ہولی“ تو پاکستان کے مختلف علاقوں میں مسلمان بھی بڑے جوش و خروش سے مناتے ہیں۔ میں ابھی اس کے صحیح یا غلط ہونے پر بات نہیں کر رہا۔

بتانے کا مقصد صرف یہ ہے کہ پاکستانیوں نے کبھی کسی دوسرے مذہب والے کے لئے دل میں نفرت نہیں پالی۔ نہ ہی ریاست کی طرف سے کبھی کسی خاص مذہبی گروہ کے لئے نفرت نظر آئی۔ آخر پر بس یہی کہنا چاہوں گا کہ انتہا پسند نظریے رکھنے والے لوگ کبھی بھی کسی معاشرے کا عکس نہیں ہو سکتے۔ نہ ہی چند واقعات کو بنیاد بنا کر سارے معاشرے کو کٹہرے میں کھڑا کیا جا سکتا ہے۔ انتہا پسندی ایک جرم اور جرم کا تعلق مجرم سے ہے نہ کہ کسی طبقے سے امن ہر انسان کی خواہش ہے۔ لیکن ایسے لوگ ہر دور میں جنم لیتے رہیں گے جو معاشرے میں انتشار کا باعث بنے گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہمیشہ ایسے رویوں اور نظریات کے خلاف کھڑے ہوں جو آئین سے بالاتر ہو کر بنیادی انسانی حقوق کی نفی کرتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان اور پاکستانی یہ ہمارا اخلاقی، دینی اور قانونی فرض ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments