ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی تحریریں اور میرے گرو جی


ایک دِن گرو جی نے میرے انٹر سیکشنل فیمینسٹ ہونے کی وجہ پوچھی تو میں نے اُنھیں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کا ایک کالم پڑھ کر سُنایا، پھر دوسرا پڑھ کر سُنایا۔ گرو جی بہت افسردہ ہوئے اور تادیر پُر تفکر انداز میں سوچتے رہے۔ پھر لگی لپٹی رکھے بنا کہا۔” اکرم، ہم چاہتے ہیں تمھارے قلم کی کاٹ کاظمی صاحبہ کی طرح ہو۔ تم اُنھی کی طرح جراح بنو، اپنے قلم کے نشتر سے معاشرے کے ناسور بن چکے زخموں کو کریدو، بعد ازاں اُنھیں چھید ڈالو۔۔۔۔ تمھارا کام اُن پر مرہم لگانا نہیں بلکہ تاراج کرنا ہو، حقائق سے نظریں پھیرنے والوں کو حق کی ننگی تلوار کا سامنا کروانا ہو۔ آنکھیں موندنے والوں کو بتانا ہو کہ یہ بے خبری، درحقیقت ذمہ داریوں سے فرار ہے۔ یہ حقوق العباد سے منحرف ہونا ہے۔

صدیوں سے غلام پیشہ اذہان کو ہمیشہ سے خدمت گاروں کی ضرورت رہی، اُنھیں یہ جتلانا ہو کہ اپنے فائدے کے مفروضے گھڑنا بالکل ایسے ہے جیسے پرانے مذاہب اور آسمانی کتابوں میں اپنی مرضی کی باتیں شامل کروانا، وغیرہ۔۔۔۔” گرو جی نے فیمینسٹ بن کر نہیں بلکہ انسانی حقوق کے حقیقی عَلَم بردار کی طرح اپنا طویل لیکچر شروع کیا جو کئی ایسے واقعوں، قصوں پر مشتمل تھا جنھیں مختصراً احاطہ تحریر میں لانا ممکن نہیں۔

  آخر میں نے عاجز آ کر معذرت کی۔” گرو جی! آپ جو امیدیں مجھ سے وابستہ کر رہے یہ ممکن نہیں۔

  “آخر کیوں؟” گرو جی حیران ہوئے۔

   ” کیوں کہ میں بزدل ہوں۔

   ” بزدل۔۔۔۔؟

   “ہاں، مجھے باغی بننے سے ڈر لگتا ہے۔ میری تخلیقیت میں دوج ہے۔

   ” کس طرح کا دوج؟

 ” مجھ میں اتنی اخلاقی جرات نہیں کہ میں ڈاکٹر طاہرہ جیسا بے باک لکھنے کا سوچ سکوں۔ میں معاشرے کی ناراضی مول نہیں لے سکتا۔ مجھے مصلحت پسند بن کر لکھنا پڑتا ہے۔” میں نے صاف گوئی کا مظاہرہ کیا۔

   “اکرم یہ تم بول رہے، میرے چیلے ہو کر۔

 میں نے سر ہلایا تو گرو جی نے تاسف سے منہ بگاڑا۔ ” تم جانتے ہو، مصلحت پسندی گناہ ہے۔

   “جی۔۔۔

   “پھر؟

   میرے پاس الفاظ نہیں تھے۔ میں خاموش ہوگیا۔ گرو جی نے میرے کندھے پر ہاتھ رکھا اور سمجھانے لگے۔” دیکھو برخوردار ، قلم کے ذریعے جہاد افضل ہے۔ ایسے لوگوں کو اپنا آئیڈیل بناؤ جو ایسا کر رہے ہیں۔ اُن جیسا بننے کی کوشش کرو۔ کسی شخص کی اچھی خصوصیت کو اپنے اندر اتارنا بُرا نہیں ہوتا ۔ بلکہ اُس کو خراج عقیدت پیش کرنا ہوتا ہے۔ اُس کا حوصلہ بننا ہوتا ہے۔ تم ایک طرف تو خود کو انٹر سیکشنل فیمنسٹ گردانتے ہو اور دوسری طرف ایسے لکھاریوں کی جائز آواز کے ساتھ اپنی آواز شامل کرنے سے ڈرتے ہو۔ اس ڈر کو ختم کرو۔ یہ ڈر تمھاری ناکامی کی واضح دلیل ہے۔ یہ تو بالکل ایسے ہے جیسے کوئی ظالم تمھارا حق چھیننا چاہے تو تم بخوشی خود کو اُس کے رحم و کرم پر چھوڑ دو۔ کامیاب انسان نہ تو اپنے اندر کوئی ڈر رکھتے ہیں اور نہ مصلحت پسند ہوتے ہیں۔۔۔۔

گرو جی کے بھر پور لیکچر سے قائل ہونا پڑا۔ آخر میں نے اُنھیں یقین دہانی کروائی کہ طاہرہ کاظمی صاحبہ جیسا بننے کی بھرپور کوشش کروں گا۔ بعد ازاں میں نے عملی کوشش کرتے ہوئے ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کے دو کالموں کو شارٹ فلم کے اسکرین پلے میں بھی ڈھالا۔ مگر ابھی تک وہ شارٹ فلمیں ویسے ہی پڑی ہیں۔ جب کبھی ہدایت کار و پیش کار بننے کا موقع ملا تو ان کو فلماؤں گا۔

ذیل میں ڈاکٹر طاہرہ کاظمی کی طرف سے، چند دِن پہلے تحفہ میں بھیجی گئی کتاب کا تصویری عکس ہے۔ یہ ادنیٰ فین کے لیے محبت بھرا تحفہ ہے، جس کا شکریہ ادا کرنا ممکن نہیں۔ کتاب ابھی تک گرو کی چیلی (چھوٹی بہن) کے قبضے میں ہے اور گرو جی کو بھی پڑھ کر سُنائی جا رہی ہے۔ بعد ازاں میرے پڑھنے کی باری آئے گی۔ ڈاکٹر صاحبہ کے لیے ڈھیروں دعائیں۔ اللہ پاک ہمیں ان جیسا لکھنے کی توفیق دے اور انھیں صحت و سلامتی کے ساتھ مزید کامیابیاں دے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments