ہمارا کتا بھی ٹامی ہو سکتا ہے


\"\"

ہمارا مشر ہمیں اچانک جدائی بخش کر سطح زمین سے غائب ہو گیا تھا۔ مشر ہمارا محلے دار، ہمارا ہنڈی وال اور ہمارا رہنما تھا۔ ایک اہم کاروباری خاندان کا فرد تھا۔ اسے کسی بزرگ کی دعا تھی کبھی کوئی اچھا خیال اس کے ذہن میں نہیں آیا تھا کبھی کسی سیدھے طریقے سے اس نے پیسے کمانے کا نہیں سوچا تھا۔

پیسے تو خیر کبھی اس نے کمائے ہی نہیں تھے۔ اپنے ہی بھائیوں کے منگوائے ہوئے کنٹینروں میں سے سامان نکال کر بیچتے ہوئے جب وہ پکڑا گیا تو مناسب مرمت کے بعد اسے دکان پر بٹھا دیا گیا تھا۔ جب اسے کہیں مجرا دیکھنا ہوتا یا کابل دبئی دہلی وغیرہ کا چکر لگانا ہوتا تو وہ اپنی ہی دکان سے دوستوں کو ادھار دینے کے ریکارڈ توڑ دیتا۔

دکان کے کھاتے میں تو یہ ادھار ہوتا جس کے مطابق اس کے دوست تین تین اے سی اور چار چار ٹی وی اس سے بغیر پیسے دیے لے گئے ہوتے لیکن ان بیچاروں کے فرشتوں کو بھی پتہ نہ ہوتا کہ وہ اتنی الیکٹرانکس کے مالک ہیں اس سامان کو بیچ کر مشر نے پیسے جیب میں ڈالے ہوتے۔ وہ اپنی حرام توپ کارروائی جسے وہ سیاحت کہتا تھا کر کے واپس آ جاتا اور پھر اپنی کمائی میں سے خود ہی ان جھوٹے کھاتوں کی ادائیگی کرتا رہتا۔ آخر پکڑا گیا تو دکان سے بھی رخصت کر دیا گیا۔ اس کے ڈیڑھ درجن برادران رخصت کرنے سے پہلے اس کی مناسب مرمت کرنا ہر گز نہ بھولے۔

؂کچھ عرصہ وہ بیروزگار رہا۔ گزارہ کرنے کو صرف گھر سے ملنے والی تنخواہ کے ہی پچاس ہزار تھے جو صرف اس کے جیب خرچ کے لئے تھے۔ یہ رقم اچھی خاصی تھی لیکن مشر لاکھوں کا ہیر پھیر کرنے والا بندہ تھا ان پیسوں سے اس کا کیا بنتا۔ اس نے گھر میں خوب فساد مچایا اور بالآخر بہت طویل سوچ بچار کے بعد بھائیوں اور دوستوں کے جرگے نے اسے گھر کے لئے سودا سلف لانے اور خاندانی امور کا نگران مقرر کر دیا۔

\"\"

یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر کیا گیا تھا کہ گھر کے خرچے اور جائداد کے کرائے سے ہیر پھیر کر کے ایک تو وہ اپنا گزارا با عزت طریقے سے کر لے گا دوسرا اس کے کاروباری دماغ کے شر سے خاندان محفوظ رہے گا۔ مشر جب معاشی طور پر مطمئن ہوا تو اس نے دوستوں کی جانب دھیان دیا۔ فٹ بال اور کرکٹ ٹیم پر توجہ دی اور ہم سب کو لے کر سیاحت پر بھی دور دور گیا۔

اب مشر اچانک غائب ہو گیا تھا وہ تبلیغ پر بھی نہیں جا سکتا تھا کہ تبلیغی جماعت سے باقاعدہ پابندی لگوا چکا تھا۔ ایک بار تبلیغ پر گیا تو کوئی ایسا چکر چلایا کہ صرف امیر صاحب ہی اصل تبلیغی تھے اس گروپ میں باقی سب مشر اور اس کے مداحوں کا ٹولا تھا۔ ان کی تشکیل دیر کے لئے ہوئی جہاں ساری جماعت امیر صاحب کے علاوہ سارا گروپ ہی باغوں سے مالٹے چرانے میں مصروف رہا۔ امیر صاحب اعتراض کرتے تو انہیں کہا جاتا ’خہ بیا منگ زو‘ یعنی اچھا پھر ہم جاتے ہیں واپس۔

مشر کو ڈھونڈنے کا مشن مجھے سونپا گیا۔ اسے تلاش کرتے کئی دن گذرے تو آخر کار وہ ایک ٹرک اڈے سے مل گیا۔ مشر وہاں بھی مشر ہی تھا اور بڑے ملک کی طرح اس کی آؤ بھگت ہو رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے ایک ناروا قسم کا تبصرہ کیا ہمارے ساتھ واپس آ گیا راستے میں ہمارے ساتھ پکے قول قرار وغیرہکیے اور بتایا کہ اس بار ایسا کام کیا ہے کہ سب سیٹ ہو جاؤ گے۔

کام کی تفصیل پوچھی تو پتہ لگا کہ کچھ ڈرائیور حضرات کو راضی کیا ہے ایک دو اڈے والوں کو منا لیا ہے کچھ تالہ توڑنے کے ماہرین اکٹھے کر لئے ہیں اور باڑہ مارکیٹ کے کچھ تاجروں سے بات پکی کر لی ہے۔ مشر سے پوچھا کہ وہ تو ٹھیک ہے یہ تالہ توڑنے والا ماہر اور باڑہ مارکیٹ اور ٹرک ڈرائیور ان سب کا آپس میں رشتہ کیا ہے۔ اس نے کہا اس کام میں ثواب بھی ہے، میں نے فتویٰ بھی لے لیا ہے۔ ’ستا پہ کار کے‘ یعنی تمھارے کام کی ایسی تیسی۔ پہلے کام بتا فوراً۔

\"\"

مشر نے کہا۔ ناٹو سپلائی والے ٹرک کھولنے ہیں، ان سے سامان چرانا ہے، مارکیٹ میں بیچنا ہے بلکہ بیچ رہا ہوں۔ مشر تفصیلات بیان کر رہا تھا اور ہم سب کے وار خطا ہو رہے تھے۔ مشر کو گھر بھیجا اور ہم لوگ فوراً اس کے برادران تک پہنچے کہ انہیں خوشخبری دیں کہ بمباری ہو گی ان پر۔

بھائیوں نے ہی کچھ کیا ہو گا مشر کچھ کچھ ڈھیلا پڑتا دکھائی دیا اس کام سے لیکن یہ کام پھیل گیا تھا باڑہ مارکیٹ میں کنٹینروں سے چرائے ہوئے سامان کے ڈھیر لگ گئے۔ ان کنٹینروں سے خوراک کے پیکٹ بھی ڈھیروں ڈھیر نکلے۔ پاکستانی افسران اور اشرافیہ بڑے شوق سے آ کر حرام بسکٹ مزے مزے سے خرید کر کھاتی رہی۔ باڑہ کے تاجروں کو بھی سامان منگوانے کے لئے بے شمار نئے آئیڈیاز ملے۔

امریکیوں نے یہ چوریاں روکنے کا بہت ہی اعلی انتظام یوں کیا کہ ایک جبڑ جنگ قسم کے بڑے ملک کو سپلائی کا ٹھیکہ دے دیا اور ملک صاحب کو دیکھ کر ہی چوروں کی نیت صاف ہو گئی۔ ہمارا مشر البتہ بہت پہلے ہی اس کام سے باز آ گیا تھا۔ مشر سے بڑا پوچھا کہ تم نے یہ کام کیوں چھوڑا لیکن وہ بتاتا نہیں تھا۔ ایک دن اس کی فہم و فراست مہمان نوازی انسان دوستی وغیرہ کی تعریف اتنی کی کہ وہ اس جھوٹ سے تنگ آ کر کہانی سنانے پر آمادہ ہو گیا۔

مشر نے بتایا کہ ایک کنٹینر کھولنے پر چالیس ہزار کا خرچہ آتا تھا، خالی نکلنے پر پیسے ضائع ہوجاتے تھے۔ اس سے پوچھا کہ خالی کونسے نکلتے تھے تو اس نے بتایا جو کابل سے آتے تھے، وہ خالی نکلتے تھے۔ اسے کہا کہ ابے ہنو مان، مہان انسان، وہاں سے بھرے ہوئے کنٹینر کیسے آ سکتے تھے تو اس نے بتایا کہ نہیں وہاں سے بڑا قیمتی اسلحہ اور سامان واپس بھی بھجواتے تھے۔

\"\"مشر نے کہا چھوڑو اس بات کو اصل قصہ سنو ہم نے کنٹینر کھولا تو اس میں سے ایک بلا ایک چھلانگ مار کر ہم پہ آ پڑی۔ ہم لوگ ڈر کے بھاگے تو وہ بھونکتے ہوئے پیچھے بھاگی تب پتہ لگا کہ کوئی بہت ہی کتا ہے جو پیچھے پڑ گیا ہے۔ ایک دو ہوائی فائرکیے تو وہ کتا بھاگ گیا۔ اس بھاگ دوڑ میں ہمارا تالا توڑنے والا ماہر بھی ڈر کے بھاگ گیا۔ ٹرک کے جانے کا ٹائم ہو گیا تو اس کا تالہ لگا کر سیل کرنے والا نہیں تھا۔

ڈرائیور نے ہنگامہ کر دیا۔ بہت سوچ بچار کر کے ہمارے ذہین فطین مشر کو آئیڈیا آیا، اسی کو آنا تھا کہ ایسی جگاڑی سوچ اسی کی ہے۔ اس کے کہنے پر وہیں سے ایک آوارہ لوسی سا مریل کتا پکڑ لیا گیا اور ہم نے اسے کنٹینر میں بند کیا۔ ڈرائیور کے اصرار پر مشر اس کے ساتھ بطور کلینر روانہ ہوا۔ طورخم پار کرتے ہی کنٹینر کے کھلا ہونے کی وجہ سے ڈرائیور کی پوچھ پرتیت (پوچھ گچھ) شروع ہونے لگی تھی کہ مشر بولا کہ ہمیں کراچی ہی بتا دیا گیا تھا کہ اندر ٹامی ہے اور اس کی وجہ سے دروازہ کھلا رکھا جائے گا۔ ان کے ریکارڈ میں بھی کتا ہی تھا۔

\"\"

تھوڑی دیر میں کتے کی ٹرینر پہنچ گئی۔ ہاتھ میں دودھ کا پیالہ لے کر وہ ٹامی کو پورے پروٹوکول سے لینے کنٹینر کے اندر گئی۔ اس کے بعد جس طرح ٹامی کو دیکھ کر چیخیں مار کر وہ حسینہ روئی، وہ سن کر ہمارے مشر کا دل پھٹ گیا۔ پتہ نہیں وہ واپس کیسے آیا؟ کتے کا کیا ہوا؟ حسینہ کب تک روئی لیکن مشر نے اس کام پر لعنت بھیج دی۔

مشر بولا۔ یار بددعا سے بچنا چاہیے۔ میں نے پوچھا کتے کی بددعا؟ مشر نے ایک لمبا سا مصرعہ عرض کر کے کہا نہیں حسینہ کی بد دعا۔ مجھے آج تک سمجھ نہیں آئی کہ کس کی بددعا سے بچنے کا کہہ رہا تھا البتہ ایک بات طے ہے کہ دیسی کتے کو ٹامی بنا کر مشر نے ثابت کر دیا کہ ہمارا کتا بھی ٹامی ہو سکتا ہے۔

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments